Mr Grogan Aur Jang - Article No. 2528

Mr Grogan Aur Jang

مسٹر گروگن اور جنگ - تحریر نمبر 2528

مسٹر گروگن میں یہی سوچتا رہتا ہوں کہ جنگ میں جو ہمارے دوست‘آشنا اور ناواقف مرتے رہتے ہیں‘ان کی موت کس قدر بے سود ہے

جمعرات 29 اپریل 2021

شفیق الرحمن
جب سپنگلر اور ڈائنا کاربٹ کی دکان میں داخل ہوئے اس وقت بارش میں بھیگا ہوا ہومر تار گھر پہنچا۔وہاں فقط ایک تار پڑا تھا۔
”بیس تمہارا کھانا چھوڑ گئی ہے۔“گروگن بولا۔
”ناحق لے آئی‘میں تو سوچ رہا تھا کہ سموسے کھاؤں گا۔کئی چیزیں آئی ہیں مسٹر گروگن!آپ بھی تھوڑا سا کھا لیجیے۔“
”میرا جی نہیں چاہ رہا۔

”تھوڑا سا چکھیں گے تو شاید بھوک لگ آئے۔“
”نہیں برخوردار۔اور تم تو بالکل شرابور ہو رہے ہو۔یہاں برساتیاں پڑی تھیں‘اوڑھ جاتے۔“
”میں راستے میں تھا کہ بارش آگئی۔چند لقمے کھا کر میں یہ تار دے آؤں گا۔کیسا تار ہے یہ؟“
گروگن چپ رہا۔ہومر سمجھ گیا کہ ضرور کسی کے مرنے کی خبر ہو گی۔

(جاری ہے)


”کاش کہ ایسے تار یہاں نہ آیا کریں۔

“ہومر نے کھانا چھوڑ دیا۔
”جی بُرا مت کرو۔کھانا کھا لو۔آج تمہاری بہن کے ساتھ ایک حسین لڑکی تھی۔“
”جی ہاں وہ میَری ہے۔ہمارے پڑوس میں رہتی ہے۔میرے بھائی مارکس کی منگیتر۔جنگ ختم ہوتے ہی دونوں کی شادی ہو جائے گی۔“
”ان کے ساتھ تین سپاہی بھی تار دینے آئے تھے۔“
”اچھا؟کہاں ہیں تار؟“
ہومر تار پڑھنے لگا۔
”مسٹر گروگن میں یہی سوچتا رہتا ہوں کہ جنگ میں جو ہمارے دوست‘آشنا اور ناواقف مرتے رہتے ہیں‘ان کی موت کس قدر بے سود ہے۔اتھیکا چھوٹا سا گاؤں ہے۔امریکہ میں ایسے بے شمار قصبے ہیں وہاں بھی ایسے تار آتے ہوں گے۔امیروں کے نام۔ غریبوں کے نام۔سب کے نام۔جنگ میں لوگ کس لئے مرتے ہیں؟کچھ تو مقصد ہو گا؟“
بوڑھا خاموش ہو گیا‘جیسے مزید گفتگو کے لئے اسے کسی سہارے کی ضرورت ہو۔
اس نے میز کی دراز سے بوتل نکالی۔بڑے بڑے گھونٹ لیے اور ہومر کے سامنے بیٹھ گیا۔
”مجھے اس دنیا میں آئے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔شاید ضرورت سے زیادہ طویل عرصہ ہو گیا۔میرا عقیدہ ہے کہ جنگ ہو یا امن‘دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے‘بلا مقصد کبھی نہیں ہوتا اور پھر موت تو نہایت اہم سانحہ ہے۔“
بوڑھے نے ایک اور گھونٹ بھرا۔“نسل انسانی کے سب افراد ایک دوسرے جیسے ہیں۔
تم انسان ہو‘تم میں خوبیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔ اسی طرح ہر انسان کے خمیر میں نیکی بھی ہے اور بدی بھی۔جیسے ضمیر میں متضاد جذبات کی جنگ ہوتی ہے۔اسی طرح کائنات میں مخالف قوتیں آپس میں لڑتی ہیں۔جسم بیماریوں کا مقابلہ کرتا ہے۔جنگیں ظہور میں آتی ہیں۔لیکن ہر دفعہ فتح نیکی کی ہوتی ہے۔بیمار روح اور جسم شفا پاتے ہیں۔یہ عارضے دوبارہ لاحق ہوتے ہیں‘لیکن تندرستی پھر عود کر آتی ہے۔
یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔حتیٰ کہ جسم و روح کو ایک نئی جلا ملتی ہے۔پہلے سے کہیں برتر‘نستعلیق اور قوی۔پھر ان پر کسی تباہی یا فرسودگی کا اثر نہیں ہوتا۔ہم سب کسی مقصد کے لئے کوشاں ہیں۔مقصد اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی۔یوں تو چور اور خونی بھی کسی مقصد ہی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔“
بوڑھے نے لمبا سانس لیا۔اس کش مکش میں انسان جان دیتا ہے۔
اس کی موت بے سود نہیں ہوتی۔وہ سچائی کی تلاش میں تھا۔حسن‘پاکیزگی‘ حیات جاودانی کی تلاش میں تھا۔کسی نہ کسی دن نسل انسانی اپنی منزل پا لے گی۔جہاں انصاف ہو گا۔“
بوڑھے نے جیب سے ایک کاغذ نکالا۔
”ایک کام کرو۔جلدی سے یہ دوا لے آؤ۔“
ہومر کاغذ لے کر بھاگا۔بوڑھا کچھ دیر کھڑا رہا۔پھر کرسی پر گر پڑا۔اور ہاتھ سینے پر رکھ لیے۔
چہرے پر کرب کے آثار تھے۔اسے دل کا دورہ پڑ رہا تھا۔
ہومر دوا لے آیا۔بوڑھے نے پانی مانگا اور تینوں گولیاں نگل لیں۔
”میں ازحد ممنوں ہوں“اس نے لڑکے سے کہا۔
ہومر نے دیکھا کہ اس کی حالت بہتر ہو گئی ہے۔اس نے لفافے سے تار نکال کر پڑھا۔اسے نئے لفافے میں بند کرکے باہر نکل گیا۔
بوڑھا پیچھے پیچھے آیا اور دروازے سے ہومر کو دیکھنے لگا جو بارش اور آندھی میں تیزی سے جا رہا تھا۔
تار کی مشین کھڑکنے لگی‘لیکن بوڑھے نے آواز نہیں سنی۔ٹیلی فون کی گھنٹی بجی‘لیکن وہ وہیں کھڑا رہا۔

Browse More Urdu Literature Articles