Mr Mecano - Article No. 2545

Mr Mecano

مسٹر میکانو - تحریر نمبر 2545

پتلا اسے گھور رہا تھا۔بچے کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔وہ سرپٹ بھاگا۔

منگل 25 مئی 2021

شفیق الرحمن
لائبریری سے نکل کر لائینل اور یولی سیز دیر تک گلی کوچوں میں پھرتے رہے۔شام ہو چکی تھی۔ایک دکان کے سامنے ہجوم دیکھ کر وہ رک گئے ۔کھڑکی میں ایک ”آدمی“ کھڑا طرح طرح کی حرکتیں کر رہا تھا۔وہ جیتے جاگتے انسان کی جگہ موم کا بنا ہوا پتلا معلوم ہوتا تھا‘جسے زندہ لاش ہاتھ پاؤں ہلا رہی ہو۔اس شعبدہ بازی کا مقصد ڈاکٹر بریڈ فورڈ کے ٹانک کی تشہیر تھی۔
کھڑکی پر لکھا تھا۔
”مسٹر میکانو۔نصف مشین اور نصف انسان۔جو زندہ کم ہے اور مردہ زیادہ۔پچاس ڈالر کا انعام اسے ملے گا جو مسٹر میکانو کو مسکرانے پر مجبور کر دے گا۔ہنسانے کے لئے پانچ سو ڈالر۔“
آدمی کے سامنے ایک میز تھی جس پر چھوٹی چھوٹی تختیاں پڑی تھیں۔جن پر دوا کی تعریفیں لکھی ہوئی تھیں۔

(جاری ہے)

وہ تختی اٹھاتا‘چھڑی سے عبارت کی طرف اشارہ کرکے تختی رکھ دیتا اور دوسری اٹھا لیتا‘پھر تیسری‘چوتھی تختیاں ختم ہونے پر پھر یہ عمل دہرایا جاتا۔


”یہ تو زندہ ہے۔“لائینل نے یولی سیز سے کہا۔”میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ یہ مشین نہیں‘ذرا اس کی آنکھیں تو دیکھو۔“
پتلے نے ہجوم کے سامنے ایک تختی کر دی‘جس پر لکھا تھا۔
”زندگی سے مایوس ہونا کفر ہے
قسمت کو کوسنے کی بجائے ڈاکٹر بریڈ فورڈ کا ٹانک استعمال کیجیے‘اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھئے۔“
اس کے بعد ایک اور تختی آئی‘لیکن لائینل پتلے کی شکل سے بیزار ہو چلا تھا۔

”آؤ گھر چلیں‘ساری تختیاں تین مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔دیر بھی ہو گئی ہے۔“
لیکن یولی سیز نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
”چلو چلیں‘مجھے بھوک لگی ہے۔“لائینل نے پھر کہا۔
یولی سیز نے اس کی بات اَن سنی کر دی۔
”اچھا تو پھر میں جاتا ہوں۔“
یولی سیز پر اس دھمکی کا بھی اثر نہ ہوا۔لائینل دوست کی لاپرواہی پر حیران رہ گیا۔

افسوس بھی ہوا۔پیچھے مڑمڑ کر دیکھتا گیا کہ شاید یولی سیز آجائے لیکن اسے تو کسی بات کا ہوش ہی نہ رہا تھا۔
”اور میں اسے اپنا بہترین دوست سمجھتا ہوں۔“لائینل بڑبڑاتا جا رہا تھا۔
آہستہ آہستہ مجمع منتشر ہونے لگا۔حتیٰ کہ صرف دو تماشائی رہ گئے۔یولی سیز اور ایک بوڑھا۔آخر بوڑھا بھی چلا گیا۔
رات ہو چکی تھی‘تاریکی پھیلی جا رہی تھیں۔
پتلا تختیاں دکھا رہا تھا‘اور بچہ بت بنا کھڑا تھا۔
یکایک یولی سیز نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔پہلی مرتبہ اسے تاریکی اور تنہائی کا احساس ہوا۔دفعتہ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے سامنے موت کھڑی ہے۔پتلا اسے گھور رہا تھا۔بچے کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔وہ سرپٹ بھاگا۔اسے چند راہ گیر ملے۔لیکن وہ بھی موت کی طرح بھیانک معلوم ہوئے۔اس کا سانس پھول گیا تھا۔
لیکن وہ روتا ہوا بھاگتا جا رہا تھا۔
اس سے پہلے وہ کبھی نہیں ڈرا تھا۔لیکن پتلے نے ایسا خوفزدہ کیا کہ جیسے اس کی جان کھینچ لی ہو۔وہ چلانے لگا۔”ابا۔امی۔مجھے بچاؤ۔مارکس‘بیس‘ہومر بچاؤ۔“
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ فرار ہو کر کہاں جائے۔کبھی ایک سمت میں بھاگنے لگتا‘کبھی دوسری سمت میں۔بس یہی دھن تھی کہ کسی طرح اپنے عزیزوں کے پاس پہنچ جائے۔

اچانک اسے آگسٹس نظر آگیا جو چلا چلا کر اہم خبروں کی سرخیاں خالی سڑک کو سنا رہا تھا۔آگی کو اس طرح چلانے سے سخت نفرت تھی۔ایک تو اس لئے کہ تقریباً ساری خبریں قتل و خون کے متعلق ہوا کرتیں۔دوسرے یہ کہ بازاروں میں کھڑے ہو کر چنگھاڑنے سے اسے چڑ تھی۔اس کی عادت تھی کہ سڑک پر رونق ہوتی تو چپ رہتا لیکن جونہی بازار خالی ہوتا‘وہ دن بھر کی منحوس خبریں زور زور سے سنانے لگتا۔

وہ اکثر سوچتا کہ اخبار بیچنا کس قدر بیہودہ کام ہے۔لوگ غلطیاں کرتے ہیں‘شرارتیں کرتے ہیں اور میں یوں جی لگا کر تشہیر کرتا ہوں جیسے بڑی خوشخبریاں سنا رہا ہوں۔ادھر سننے والوں پر دوسروں کی کمینی حرکتوں اور جرائم کا اتنا سا اثر بھی نہیں ہوتا۔سب یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے کچھ بھی تو نہیں ہوا۔
کبھی کبھی اسے خواب میں نظر آتا کہ وہ اہم سرخیاں سنا رہا ہے اور دل ہی دل میں ان سب مجرموں اور لفنگوں کو کوس رہا ہے جو ان خبروں کے ذمہ دار تھے‘اور جیسے آگی کی گونجدار آواز سنتے ہی چور‘ڈاکو‘رہزن سب کچھ چھوڑ کر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں۔
خواب میں آگی انہیں خوب ڈانٹتا۔بے ایمانو۔شیطانو۔باز آجاؤ‘گناہوں سے توبہ کر ڈالو اور اچھے اچھے کام کیا کرو۔جاؤ جا کر درخت بوؤ۔آگی کے خیال میں درخت بونا ثواب کا کام تھا۔
آگی کو دیکھ کر یولی سیز کی ڈھارس بندھ گئی۔وہ آگی کو بلانا چاہتا تھا لیکن کوشش کے باوجود آواز نہ نکل سکی۔وہ تیزی سے بھاگا اور آگی سے چمٹ گیا۔
”کیا ہوا؟کیا بات ہے ننھے رو کیوں رہے ہو؟“
لیکن بچے کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔
”تم ڈر گئے ہو‘ڈرنے کی کوئی بات نہیں شاباش‘رؤو مت۔“

Browse More Urdu Literature Articles