Muqaddas Kamrey - Article No. 2543

Muqaddas Kamrey

مقدس کمرے - تحریر نمبر 2543

ہومر سیڑھیاں اترنے لگا اور ڈولی ہاتھورن مقدس کمروں میں چلی گئی

ہفتہ 22 مئی 2021

شفیق الرحمن
آدھ گھنٹے بعد ہومر نے ایک چھوٹے سے ہوٹل کے سامنے سائیکل روکی‘دروازے پر لکھا تھا۔مقدس کمرے۔بل کھاتے ہوئے زینے کی سیڑھیاں طے کرکے اوپر پہنچا۔ایک بڑے سارے کمرے میں میز رکھی تھی۔قریب ہی دیوار میں گھنٹی کا بٹن لگا ہوا تھا۔کمروں کے دروازے بند تھے۔اس نے جیب سے لفافہ نکال کر پتہ پڑھا تار ڈولی ہاتھورن کے نام تھا۔
کسی کمرے میں گرامو فون بج رہا تھا اور دو عورتیں اور ایک مرد باتیں کر رہے تھے۔ایک دروازہ کھلا‘ادھیڑ عمر کا ایک مرد نکلا اور دوسرے دروازے میں کسی عورت سے باتیں کرنے لگا۔ہومر کو عورت کا سر نظر آرہا تھا۔دروازہ بند ہو گیا اور مرد سیڑھیاں اترنے لگا۔ہومر نے گھنٹی بجائی۔دروازہ جو ابھی بند ہوا تھا‘کھلا اور نسوانی آواز سنائی دی۔

(جاری ہے)


”ابھی آئی۔


ایک نوعمر حسینہ باہر نکلی جس کے خدوخال بے حد دلکش تھے۔یہ لڑکی میری یابیس سے کچھ مختلف نہ تھی۔
”ڈولی ہاتھورن کا تار آیا ہے۔“
”وہ باہر گئی ہوئی ہیں۔میں دستخط کر دوں؟“
”کر دیجیے۔“
وہ ہومر کو عجیب نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
”ذرا ٹھہرنا۔“
یہ کہہ کر وہ دوڑتی ہوئی ایک کمرے میں چلی گئی۔
اتنے میں ایک اور شخص زینہ عبور کرکے ہومر کے سامنے آکھڑا ہوا اور اسے گھورنے لگا۔
لڑکی باہر نکلی اور ہومر کو اپنے کمرے میں لے گئی۔یہ کمرہ عجیب سا تھا۔اس میں ناخوشگوار سی بُو پھیلی ہوئی تھی۔اس بُو سے ہومر ناآشنا تھا۔لڑکی نے اسے ایک لفافہ دیا۔”یہ بے حد ضروری ہے۔اس میں نوٹ ہیں۔میری بہن کو ان کی سخت ضرورت ہے۔میرے پاس ٹکٹ نہیں تھے ورنہ لگا دیتی۔
اسے ہوائی ڈاک کی رجسٹری سے بھیج دینا۔“
وہ خاموش ہو گئی تاکہ اتنی دیر میں ہومر معاملے کی اہمیت کو سمجھ لے۔
”اسے ڈاک میں ڈال دو گے نا؟“
نہ جانے کیوں ہومر کی طبیعت منغض ہو گئی۔جس روز وہ میکسیکی عورت کو اس کے بیٹے کی موت کی خبر سنانے گیا تھا۔تب بھی یوں ہی محسوس ہوا تھا۔
”بہت اچھا میں ابھی ڈاکخانے پہنچ کر ہوائی ڈاک سے رجسٹری کرا دوں گا۔
سیدھا وہیں جا رہا ہوں۔“
”یہ لو ڈالر خط کو حفاظت سے ٹوپی میں رکھ لو‘کسی کو دکھانا مت‘اور ذکر بھی مت کرنا۔“
”نہیں کروں گا۔ابھی خط ڈال کر ریزگاری واپس لاتا ہوں۔“
”نہیں یہاں پھر مت آنا۔جلدی سے چلے جاؤ۔کوئی دیکھ نہ لے۔“
”بہت اچھا۔“
ہومر سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ لڑکی کسی مرد سے باتیں کرنے لگی۔
زینے پر ایک ادھیڑ عمر کی عورت کا سامنا ہوا۔اس نے بڑھیا کپڑے اور بیش قیمت زیورات پہن رکھے تھے۔لڑکے کو دیکھ کر وہ رک گئی۔
”ڈولی ہاتھورن کا تار لائے تھے؟“اس نے مسکرا کر پوچھا۔
”جی ہاں تار اوپر رکھا ہے۔“
”میرا تار تھا۔شاباش۔“اس نے ہومر کو غور سے دیکھا۔“تم نئے ہرکارے ہو؟میں ویسٹرن یونین اور ڈاک خانے کے سب ہرکاروں کو جانتی ہوں۔
بہت اچھے لڑکے ہیں۔مجھ پر تو خاص طور پر مہربان ہیں۔میں بھی ان کا خیال رکھتی ہوں۔“
عورت بٹوہ کھول کر کچھ ڈھونڈنے لگی۔بٹوے میں ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔
”یہ لو۔“اس نے ہومر کو بیس پچیس ملاقاتی کارڈ دیئے۔
”یہ کس لئے ہیں؟“
”تم جگہ جگہ تار لے جاتے ہو۔شراب خانوں اور اسی قسم کی دوسری جگہوں پر جایا کرو تو کارڈ چھوڑ آیا کرو۔
کہیں سیاح مل جائیں یا جہازراں اور سپاہی ہوں جنہیں رات بسر کرنے کے لئے کمرے کی ضرورت ہو تو انہیں کارڈ دے دینا۔جنگ چھڑی ہوئی ہے اور سپاہیوں کی خاطر تواضع کرنا ہمارا فرض ہے۔مجھے علم ہے کہ سپاہی بیچارے کتنے اداس ہوتے ہیں۔نہ زندگی کا پتہ نہ موت کا۔“
”جی بہت اچھا۔“
ہومر سیڑھیاں اترنے لگا اور ڈولی ہاتھورن مقدس کمروں میں چلی گئی۔

Browse More Urdu Literature Articles