Sher Ki Hansi - Article No. 2550

Sher Ki Hansi

شیر کی ہنسی - تحریر نمبر 2550

اینوک کو آزاد ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور وہ سینہ تان کر کھڑا ہو گیا

پیر 31 مئی 2021

شفیق الرحمن
گرجا سے واپس آکر آگی نے ٹینس کا ایک پرانا جال نکالا اور گھر کے دروازے کے سامنے بیٹھ کر مرمت کرنے لگا۔پڑوس سے اینوک ہاپر پرانی فٹ بال لیے آیا اور آگی کے سامنے گیند اچھالنے لگا۔بار بار اسے زمین پر مارتا اور ہوا میں دبوچ لیتا۔یہ لڑکا قصبے بھر میں سب سے بے چین اور چلبلا تھا۔ہر وقت الٹی سیدھی ہانکنا اس کی عادت تھی۔

”یہ کیا ہے آگی؟“
”جال۔“
”مچھلیاں پکڑو گے؟“
”نہیں‘جانور پکڑوں گا۔“
”دفع کرو‘آؤ فٹ بال کھیلیں۔پھر تالاب کی طرف چلیں گے۔“
”نہیں یہ پھندہ بنا لوں۔“
”پھندہ کس لئے بنا رہے ہو؟“
”کہہ تو دیا کہ جانور پکڑوں گا۔“
”یہاں کہاں دھرے ہیں جانور؟چلو تیرتے ہیں۔

(جاری ہے)


”اسی پھندے سے جانور پکڑ کر دکھاؤں گا۔“
”شرط لگا لو‘اس ردی جال میں مکھی بھی نہیں پکڑی جا سکتی۔چلو ٹارزن کی فلم دیکھیں۔“
”پہلے نمونے کے طور پر کتا پکڑوں گا۔جب یقین ہو جائے گا کہ پھندا ٹھیک ہے تو بڑے جانوروں کی باری آئے گی۔“
”یہ پرانا بوسیدہ جال‘جو شاید کباڑیے سے خریدا گیا ہے‘بالکل بیکار ہے۔
چلو جیل میں قیدیوں سے باتیں کریں۔“
”فی الحال میں مصروف ہوں‘شام کو اسے آزمانا چاہتا ہوں۔“
”کس چیز پر آزماؤ گے؟سارے قصبے میں مشکل سے ایک گائے‘چار کتے‘چھ سات خرگوش اور بیس مرغیاں ہوں گی۔جب جانور ہی نہیں تو پکڑو گے کسے۔؟“
”جناب!اس میں ایک ریچھ آسکتا ہے۔“
”ریچھ تو پھسنے کے لئے منتظر ہی بیٹھا ہو گا۔
اس سے تم ایک فٹ کا ریچھ بھی نہیں پکڑ سکتے۔چلو چینیوں کے محلے میں چلتے ہیں۔“
آگی نے فوراً کام چھوڑ دیا۔
”تمہیں چینیوں سے ڈر نہیں لگتا؟“اس نے پوچھا۔
”میں کسی سے نہیں ڈرتا۔چینی خطرناک ہوتے ہیں تو ہوا کریں۔میں اتنا تیز دوڑتا ہوں کہ وہ میری گرد کو نہیں پہنچ سکتے۔شاید تم نے مجھے دوڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔“
”شیر تو تم سے تیز بھاگتا ہو گا۔

”میں بھاگنے پر آؤں تو چیتے‘شیر‘چینی سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔کوئی میرے قریب نہیں پھٹک سکتا۔چلو ریلوے لائن کے پار دوسرے محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلیں۔“
”میرے خیال میں شیر کو پکڑنا آسان ہے لیکن تمہیں پکڑنا مشکل ہے۔؟“
”دنیا کا کوئی پھندا مجھے نہیں پکڑ سکتا۔چلو بڑے میدان میں ایک میل کی دوڑ لگائیں تمہیں سو گز کی رعایت ملے گی۔

”شاید تمہارے بزرگ بھی تمہیں نہیں پکڑ سکتے۔“
”بزرگ ہوں یا کوئی اور۔میں سب سے آگے نکل جاؤں گا۔“
اتنے میں لائینل آگیا۔
”آگی کیا کر رہے ہو؟“
”جانوروں کے لئے پھندہ بنا رہا ہوں۔“
”اسے اتنا سمجھایا ہے کہ ٹینس کے پرانے جال میں کچھ نہیں پھنس سکتا۔لیکن یہ باز نہیں آتا۔فٹ بال بھی نہیں کھیلتا۔
تم کھیلو گے؟“اینوک نے لائینل سے پوچھا۔
”میں؟“لائینل حیران رہ گیا۔
”ہاں تم پورے زور سے گیند میری طرف پھینکنا۔میں آہستہ سے لوٹا دوں گا۔آؤ‘دن ڈھلتا جا رہا ہے‘دیر مت کرو۔“
”اچھا لیکن زور سے نہ پھینکنا۔مجھے گیند دبوچنے کی مشق نہیں ہے۔ذرا چوک ہو جائے تو منہ پر لگتی ہے۔کئی دفعہ آنکھ اور ناک پر چوٹ لگ چکی ہے۔

”فکر مت کرو‘بالکل آہستہ پھینکوں گا۔“
دونوں سامنے کے میدان میں کھیلنے چلے گئے۔آگی جال کی مرمت کرنے لگا۔آخر اس نے سارے ٹکڑوں کو اکٹھا سی لیا۔جال کو کھینچ کر دیکھا تو بہت خوش ہوا۔
مینو گین دوڑتا ہوا آیا۔”یہ کیا ہے؟“اس نے پوچھا۔
“جانور پکڑنے کا جال بنایا ہے۔اسے آزمانا ہے‘مدد کرو گے؟“
”ضرور۔

”میں ایرا کی دکان کے پیچھے چھپ جاؤں گا۔اینوک سامنے کھیل رہا ہے۔اسے پکڑنا شیر پکڑنے سے زیادہ مشکل ہے۔وہ جال میں آگیا تو سمجھ لیں گے کہ پھندہ مضبوط ہے۔میں چھپتا ہوں‘تم اسے بلاؤ۔کہنا کہ کچھ پوچھنا ہے۔“
”اچھا۔“
مینو گین نے آواز دی۔”اینوک ذرا بات سننا۔“
”کیا ہے؟“وہ چلایا۔
”ایک بات پوچھنی ہے۔

”تو پوچھ لو۔“
”پہلے یہاں آؤ۔“
”ابھی آیا۔“
”مینو گین تم بھی چھپ جاؤ۔جال کا ایک سرا میں پکڑتا ہوں دوسرا تم تھام لو جونہی وہ قریب آیا‘دبوچ لیں گے۔“
اینوک بڑبڑاتا ہوا آرہا تھا۔”چلو تالاب میں تیرتے ہیں۔اتنا وقت ضائع ہو چکا ہے۔یارو کچھ کرو‘آخر انتظار کس کا ہے؟“
ایرا کی دکان کے پیچھے دونوں لڑکے منتظر تھے‘چند ہی لمحوں میں اینوک جال میں تھا۔

اس نے پھنسے ہوئے شیر کی طرح اُچھل کود شروع کر دی۔دونوں شکاریوں نے اسے مطیع کرنے کی بڑی کوشش کی۔
کم بخت جال ہی بوسیدہ تھا۔اینوک کو آزاد ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور وہ سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔جال ایک طرف پڑا تھا۔
اس نے گیند اچھالی۔”چلو آگی چلیں۔اس جال میں تو مکھی بھی نہیں آئے گی چلو۔“
”اچھا۔“آگی نے جال اٹھا کر صحن میں پھینک دیا۔
”چلو جیل خانے میں قیدیوں سے باتیں کریں گے۔“
تینوں لڑکے بھاگے۔لائینل پیچھے پیچھے تھا۔
”ذرا تیز چلو‘یہ کیا چیونٹیوں کی طرح رینگ رہے ہو۔“اینوک چلایا۔
سامنے درخت پر پرندہ بیٹھا تھا‘اس نے تاک کر گیند ماری‘لیکن پرندہ اڑ گیا۔

Browse More Urdu Literature Articles