Taar Ghar - Article No. 2514

Taar Ghar

تار گھر - تحریر نمبر 2514

تار گھر کا منیجر سپنگلر ایک تار کے الفاظ گن رہا تھا

بدھ 14 اپریل 2021

شفیق الرحمن
جب ہومر تار گھر پہنچا تو شام ہو چکی تھی۔کلاک میں سات بج کر دو منٹ ہو چکے تھے۔تار گھر کا منیجر سپنگلر ایک تار کے الفاظ گن رہا تھا۔ سامنے ایک بیزار سا بیس سالہ نوجوان کھڑا تھا۔ہومر ان دونوں کی باتیں سننے لگا۔
”کُل چودہ الفاظ ہوئے۔“سپنگلر بولا۔پھر نوجوان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا:”میاں خرچ کی تنگی تو نہیں؟“
نوجوان جواب میں بولا۔
”جی ایسا ہی ہے لیکن میری امی بھیج دیں گی اور میں آسانی سے گھر پہنچ جاؤں گا۔“
”لیکن تم پھرتے کہاں رہے؟“
”جی کسی خاص جگہ تو نہیں گیا۔“نوجوان کھانسا۔
”امی کو یہ تار کتنی دیر میں مل جائے گا؟“
”مشرقی حصوں میں رات ہو چکی ہو گی۔اتنی دیر گئے رقم فراہم کرنا شاید مشکل ہو۔

(جاری ہے)

ویسے یہ تار میں ابھی بھیجے دیتا ہوں“یہ کہہ کر سپنگلر نے اپنی جیبیں ٹٹولنی شروع کیں اور مُٹھی بھر سکے اور ایک اُبلاہوا انڈا نکال کر سامنے رکھ دیا۔


”یہ لو شاید ضرورت پڑ جائے۔“اس نے نوجوان کے ہاتھ میں سکے تھما دیے۔
”جب تمہاری امی بھیجیں گی تو لوٹا دینا۔“پھر انڈے کی طرف اشارہ کرکے بولا:
”چھ سات دن ہوئے میں نے یہ ایک دکان سے اٹھا لیا تھا۔اُبلے ہوئے انڈے کو میں خوش نصیبی کی علامت سمجھتا ہوں۔“
”جی یہ سکے؟“نوجوان حیران سا ہو گیا۔
”لے لو۔
ٹھیک ہے۔“
”شکریہ۔آپ کا بہت بہت شکریہ۔“اس نے جلدی سے کہا اور باہر نکل گیا۔سپنگلر نے تار مسٹر گروگن کو دے دیا۔
”تار ابھی بھیج دو۔اس کی لاگت میں دوں گا۔“
گروگن نے تار کی مشین کو حرکت دی اور الفاظ دوہرانے لگا:۔
مسز مارگریٹ سٹرکمین
1874 بڈل سٹریٹ۔یارک۔پنسلوینیا
امی جان بیتس ڈالر بذریعہ تار بھجوا دیجیے۔
میں گھر آنا چاہتا ہوں۔باقی سب خیریت ہے۔جان۔
ہومر کھڑا انتظار کر رہا تھا کہ اگر کچھ تار بانٹنے ہوں تو لے کر تقسیم کر آئے۔سپنگلر کی نگاہیں لڑکے پر جمی ہوئی تھیں۔
”ہرکارے کا کام تمہیں پسند آیا؟“
”جی بہت پسند آیا۔طرح طرح کے آدمیوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے۔نئی نئی جگہیں دیکھنے میں آتی ہیں۔“
”بہت خوب یہ بتاؤ کہ رات کو اچھی طرح سوئے تھے؟“
”جی ہاں!میں تھک گیا تھا لیکن نیند خوب آئی۔

”آج سکول میں تو نہیں اُونگھے؟“
”تھوڑا سا اونگھا تھا۔“
”کون سے لیکچر ہیں؟“
”تاریخ قدیم کی کلاس میں۔“
”اور کھیل کود؟اس نئے کام کی وجہ سے اب کھیل تو نہ سکو گے؟“
”جی نہیں‘ضرور کھیلوں گا۔سکول میں ایک گھنٹہ ورزش کا بھی ہوتا ہے۔“
”اچھا؟میں خود دو سو بیس گز کی دوڑ میں اس علاقے کا حمپپئن رہ چکا ہوں۔
سچ بتانا‘واقعی تمہیں یہ نوکری پسند ہے؟“
”میں اس علاقے کا سب سے تیز ہرکارہ بن کر دکھاؤں گا۔“
”شاباش!مگر اس کوشش میں کہیں اپنے آپ کو ہلاک نہ کر بیٹھنا۔تم میں تیزی بہت ہے۔جہاں پہنچنا ہو جلدی پہنچو‘لیکن ضرورت سے زیادہ تیزی نہ دکھانا۔سب سے نرمی سے پیش آؤ۔بجلی کی لفٹ میں ٹوپی اُتار لیا کرو اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ تار کا فارم کبھی گُم نہ کرو۔

”بہت اچھا جناب۔“
”رات کا کام دن کے کام سے مختلف ہوتا ہے۔چینیوں کے محلے یا مضافات میں جاتے ہوئے سب ڈرتے ہیں۔تم کبھی مت ڈرا کرو۔یہ لوگ اتنے بُرے نہیں ہوتے۔ان سے کبھی مت گھبراؤ۔تمہاری عمر کیا ہے؟“
”سولہ برس۔“
”تم نے کل بھی یہی بتایا تھا۔قاعدے کے مطابق ہمیں سولہ برس سے کم کے لڑکوں کو ملازم نہیں رکھنا چاہیے۔
لیکن ہم تمہیں رکھ لیں گے۔کیا ہے تمہاری عمر؟“
”چودہ برس۔“
”چلو دو برس میں سولہ کے ہو جاؤ گے۔“
”جی ہاں۔“
”اگر کچھ سمجھ میں نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لیا کرو۔“
”جی‘جو تار گاکر دینے ہوتے ہیں ان کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں۔“
”وہ یونہی ہوتے ہیں۔کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔ایک تو ایسے تار یہاں بہت کم آتے ہیں دوسرے تمہاری آواز اچھی خاصی ہے۔

”میں اتھیکا کے مذہبی سکول میں گایا کرتا تھا۔“
”تب تو اور بھی اچھا ہے۔اس قسم کے تاروں کے لئے ایسی ہی آواز کی ضرورت ہے۔اب فرض کرو کہ مسٹر گروگن کو سالگرہ پر مبارک باد کا تار آیا ہے۔یہ پیغام کس طرح پہنچاؤ گے؟“
ہومر‘گروگن کے پاس جا کر گانے لگا
”سالگرہ مبارک ہو
سالگرہ مبارک ہو
سالگرہ مبارک ہو عزیز گروگن
سالگرہ مبارک ہو۔

”شکریہ۔“گروگن نے کہا۔
”شاباش“سپنگلر بولا۔”مگر عزیز گروگن کی جگہ تمہیں عزیز مسٹر گروگن کہنا چاہیے تھا۔اچھا یہ بتاؤ کہ پندرہ ڈالر فی ہفتہ جو ملیں گے ان کا کیا کرو گے؟“
”اپنی والدہ کو دوں گا۔“
”بہت خوب‘آج سے تم اس تار گھر کے ایک اہم رُکن ہو۔ہوشیاری سے کام کرنا۔ہر بات توجہ سے سننا۔ہر چیز کو غور سے دیکھنا۔

”جی ایسا ہی ہو گا۔“
”اور آئندہ کے لئے کیا ارادے ہیں؟“
ہومر خاموش ہو گیا۔وہ ہمیشہ مستقبل کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ہر لمحہ‘ہر روز‘خواہ یہ آنے والی کل کے متعلق کیوں نہ ہو۔
”جی پتہ نہیں آئندہ کیا ہو گا۔شاید ایک دن کچھ نہ کچھ بن ہی جاؤں گا۔نغمہ نگار یا کچھ اور۔“
”تب تو تمہارے لئے اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں ہو سکتی۔
یہاں نغمے ہی نغمے ہیں۔نغمے جو لوگوں کے دلوں سے نکلتے ہیں۔تار کی مشین کی موسیقی سنو۔کتنی دلآویز ہے!“
”جی ہاں۔“
”بڑی سڑک پر تم نے نانبائی چیڑٹن کی دکان دیکھی ہے؟یہ سکے لو‘دو میٹھے سموسے لے آؤ۔سیب‘ناریل اور بالائی کے بڑے سے سموسے۔ باسی لانا‘وہ سستے ہوتے ہیں۔“
”بہت اچھا۔“
ہومر سکے لے کر باہر بھاگا۔
سپنگلر اسے دیکھتا رہا۔وہ خود کچھ سوچ رہا تھا۔زندگی کی خوشگوار اور مسرور کن چیزوں کے متعلق۔جب چونکا تو گروگن سے کہنے لگا۔
”اس لڑکے کے متعلق کیا رائے ہے؟“
”اچھا لڑکا ہے۔“
”میرا بھی یہی خیال ہے۔شریف خاندان کا ہے۔یہ لوگ غریب ہیں۔سانتا کلارا سڑک پر رہتے ہیں۔باپ کا انتقال ہو چکا ہے۔بھائی فوج میں ہے۔ماں چھوٹے موٹے کام کر لیتی ہے۔
بہن کالج میں پڑھتی ہے۔ویسے یہ لڑکا ذرا کم عمر ہے بس۔“
”اور میں عمر رسیدہ ہوں۔“گروگن بولا۔”ہم دونوں کی خوب گزرے گی۔“
سپنگلر اُٹھا”اچھا میں چلتا ہوں۔اگر میری ضرورت ہوئی تو کاربٹ کی دکان سے بلا لینا۔سموسے تم دونوں کھا لینا۔“
سپنگلر نے ابھی بات ختم نہ کی تھی کہ ہومر سموسے لے کر آگیا۔
”کیا نام بتایا تھا تم نے اپنا؟“سپنگلر نے متحیر ہو کر پوچھا۔

”ہومر میکالے۔“
سپنگلر نے ازراہ شفقت اپنا بازو اس نئے ہرکارے کے کندھے پر رکھ دیا۔
”ہومر میکالے اس تار گھر کو تم ہی جیسے لڑکے کی ضرورت تھی۔میرے خیال میں سان جاکن کی وادی میں تم سب سے تیز رفتار ہو۔کسی دن تم بڑے آدمی بنو گے۔اگر تب تک زندہ رہے‘اس لئے ذرا اپنا خیال رکھا کرو۔“
سپنگلر دفتر سے چلا گیا۔ہومر یہی سوچ رہا تھا کہ اس فقرے کا مطلب کیا تھا۔

”لڑکے وہ سموسے کہاں ہیں؟“گروگن نے پوچھا۔
ہومر نے کاغذ میں لپٹے ہوئے سموسے میز پر رکھ دیئے۔
”برخوردار۔میرا نام ولیم گروگن ہے۔مجھے لوگ بچوں کی طرح ولی کہتے ہیں‘گو میں ہوں سڑسٹھ برس کا۔میں پرانا تار بابو ہوں۔دن کے علاوہ رات کو بھی تار گھر کا محافظ میں ہی ہوتا ہوں۔میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔بدلتی دنیا کی بہت سی کیفیتیں دیکھی ہیں اور اس وقت مجھے بھوک بھی لگی ہوئی ہے۔
آؤ۔سموسے کھائیں۔آج سے ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔“
”جی ہاں‘جناب!“
بوڑھے نے ایک سموسے کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور دونوں اس پر لگی ہوئی بالائی کھانے لگے۔
”تمہیں کبھی کبھی میرے کام بھی کرنے ہوں گے‘مثلاً میرے ساتھ گانے میں شریک ہونا پڑے گا۔پاس بیٹھ کر باتیں کرنی ہوں گی۔جب میں زیادہ شراب پیے ہوں گا تو مجھے تم سے اس سمجھ بوجھ کی توقع ہو گی جس کے لئے تم ابھی نوعمر ہو۔
کیا عمر ہے تمہاری؟“
”چودہ برس کا ہوں لیکن میں سمجھ جاؤں گا۔“
”شاباش مجھے تم پر بھروسہ ہے۔ہر رات تمہیں یہ خیال رکھنا ہو گا کہ میں دفتر میں اپنے فرائض سے غفلت تو نہیں برتتا۔اگر میں اونگھنے لگوں تو پہلے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے اور اگر جھنجھوڑے پر بھی بیدار نہ ہوں تو پھر جلدی سے کاربٹ کی دکان سے بغیر دودھ کی گرم گرم کافی کا ایک پیالہ“
”بہت اچھا۔

”اگر دفتر سے باہر کہیں مجھے پئے ہوئے دیکھو تو کوئی پروانہ کرنا۔بس سلام کرکے گزر جانا‘کوئی سوال مت پوچھنا۔ایسے وقت میں بہت حساس ہو جاتا ہوں۔“
”دفتر میں سرد پانی کے چھینٹے اور گرم کافی اور سڑک پر فقط سلام۔“
گروگن نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک بڑا سا لقمہ لے کر بولا۔“کیا خیال ہے تمہارا؟جنگ کے بعد یہ دنیا کچھ بہتر ہو جائے گی؟“
”جی ہاں۔

”تمہیں ناریل کے سموسے پسند ہیں؟“
”جی ہاں۔“
تار کی مشین کھڑکنے لگی۔گروگن مشین کے پاس جا بیٹھا۔
”مجھے بھی ناریل کے سموسے پسند ہیں۔مجھے موسیقی بھی پسند ہے۔میں گاتا بھی ہوں۔ابھی تم کہہ رہے تھے کہ سکول میں گایا کرتے تھے۔سکول کا کوئی گانا سناؤ۔میں اتنے میں واشنگٹن کا یہ تار وصول کرتا ہوں۔“
ہومر گانے لگا۔
گروگن نے تار کے الفاظ ٹائپ کیے۔یہ تار مسز روز اسینڈول کے نام تھا۔شعبہ جنگ نے یہ خبر بھیجی تھی کہ مسز سینڈول کا لڑکا لڑائی میں مارا گیا۔
گروگن نے تار ہومر کے حوالے کیا اور میز کی دراز سے بوتل نکال کر چند گھونٹ لیے۔ہومر نے تار لفافے میں بند کرکے مہر لگائی اور لفافہ اپنی ٹوپی میں رکھ کر روانہ ہو گیا۔بوڑھے نے اونچی آواز میں ہومر کا گایا ہوا گیت گانا شروع کر دیا۔کبھی وہ بھی جوان تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles