Tumhara Rasta Alag Mera Rasta Alag - Article No. 2517

Tumhara Rasta Alag Mera Rasta Alag

تمہارا راستہ الگ میرا راستہ الگ - تحریر نمبر 2517

جن لوگوں کو تار نہ ملتے ہوں انہیں تار کے ہرکارے کی آمد پر سخت وحشت ہوتی ہے

پیر 19 اپریل 2021

شفیق الرحمن
ہرکارے نے مسز روز اسینڈول کے مکان کے سامنے سائیکل روک لی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔کوئی جواب نہ ملا۔لیکن اسے یقین سا ہو گیا کہ اندر کوئی ہے۔شاید روز اسینڈول ہی ہو۔وہ بد نصیب عورت جسے دنیا میں ایک اور قتل کی خبر ملنے کو ہے‘جس کی چوٹ اسی کے کلیجے پر لگے گی۔
پھر جیسے آہٹ ہوئی‘آہستہ سے کواڑ ہلے‘دروازہ کھلا‘یہ وہی تھی۔
ہومر کو یہ میکسیکن خاتون خوبصورت معلوم ہوئی۔معلوم ہوتا تھا کہ جیسے یہ عورت عمر بھر صابر رہی ہے اور اتنے برس کے بعد ایک پُر شفقت نورانی مسکراہٹ اس کے چہرے کا جزو بن چکی ہے۔جن لوگوں کو تار نہ ملتے ہوں انہیں تار کے ہرکارے کی آمد پر سخت وحشت ہوتی ہے۔ہومر نے پہچان لیا کہ اسے دیکھ کر عورت کے دل کو دھچکا سا لگا ہے۔

(جاری ہے)


اس نے اس انداز سے”اوہ“کہا جیسے ہرکارے کی بجائے اس نے دروازہ کسی ایسے دوست یا جانے پہچانے انسان کے لئے کھولا تھا جس کی آمد سے مسرت ہوتی۔

وہ ہومر کی نگاہوں کو جانچنے لگی۔شاید اس نے بھانپ لیا تھا کہ لڑکا اچھی خبر لے کر نہیں آیا۔
”تم تار لائے ہو؟“
اس میں ہومر کا کیا قصور تھا۔اس کا کام ہی ایسا ہی تھا۔لیکن اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس گناہ میں وہ بھی برابر کا شریک ہے‘اور جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار ہے۔اس کا جی چاہتا تھا کہ کہہ دے۔”مسز اسینڈول‘ میں تو ایک غریب ہرکارہ ہوں اور اپنا فرض ادا کررہا ہوں۔
مجھے بہت افسوس ہے کہ ایسا تار لایا ہوں۔“
”مسز روز اسینڈول کے نام“ہومر نے تار سامنے کر دیا لیکن عورت نے اسے چھوا بھی نہیں۔
”آپ مسز اسینڈول ہیں؟“
”اندر چلے آؤ۔میں میکسیکو کی ہوں۔انگریزی نہیں جانتی‘صرف وہ اخبار پڑھتی ہوں جو میکسیکو شہر سے آتا ہے۔“
ہومر دروازے میں اس طرح کھڑا تھا جیسے موقع پاتے ہی بھاگ نکلے گا۔

”تار کس چیز کے متعلق ہے؟“
”مسز اسینڈول اس تار میں“
عورت نے اس کی بات کاٹ دی۔“تم نے لفافہ تو کھولا ہی نہیں‘پہلے تار نکالو پھر پڑھ کر سناؤ۔“
”بہت اچھا“ہومر نے ایسے لہجے میں کہا جیسے وہ کسی استانی کے سامنے کھڑا ہو جس نے ابھی ابھی اس کی غلطی پکڑی ہو۔
کانپتی انگلیوں سے اس نے لفافہ کھولا۔مسز اسینڈول نے فرش پر گرا ہوا خالی لفافہ اٹھا لیا اور کاغذ کی سلوٹیں دور کرنے لگی۔

”تار کس نے بھیجا ہے؟میرے لڑکے جُوآن ڈومنگونے؟“
”جی نہیں‘شعبہ جنگ سے آیا ہے۔“
”شعبہ جنگ سے؟“
مسز اسینڈول آپ کا لڑکا مر گیا۔شاید یہ خبر غلط ہو۔ایسی غلطیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔شاید یہ خبر آپ کے لڑکے کے متعلق نہ ہو۔کوئی اور مارا گیا ہو۔تار میں یہ لکھا ہے جُوآن ڈومنگو جنگ میں کام آگیا۔لیکن یہ تار غلط بھی ہو سکتا ہے۔

میکسیکن عورت نے جیسے سنا ہی نہیں۔”ڈرو مت اندر آجاؤ۔“وہ اسے بازو سے پکڑ کر اندر لے گئی اور کرسی پر بیٹھا دیا۔
”تمہارے لئے مٹھائی لاؤں۔“
وہ ساتھ کے کمرے سے ایک پرانا سا ڈبہ اٹھا لائی۔اس میں سے ایک عجیب قسم کی مٹھائی نکال کر ہومر کو دی۔”لو کھاؤ۔بچے تو مٹھائی پر جان دیتے۔“
ہومر ڈلی چبانے لگا۔
”تم بہت اچھے لڑکے ہو۔
میرا جونیٹو اس عمر میں بالکل تم جیسا تھا۔تم ہر گز کوئی بُری خبر نہیں لا سکتے۔لو ایک ڈلی اور لو۔“
وہ مٹھائی کی خشک ڈلی چبا رہا تھا اور عورت کہہ رہی تھی۔”یہ گھر کی بنی ہوئی مٹھائی ہے۔اسے ناگ پھنی کے خار دار پودے سے بناتے ہیں۔ میرے جونیٹو کو یہ بہت پسند ہے۔میں نے اسی کے لئے بنائی تھی۔وہ یہاں ہوتا تو بڑے شوق سے کھاتا۔لیکن تم بھی میرے بیٹے ہو۔
اب تم کھاؤ۔“
وہ سسکیاں لے رہی تھی۔اس نے بہت ضبط کیا ہوا تھا‘جیسے وہ رونے کو باعث شرم سمجھتی ہو۔
ہومر چاہتا تھا کہ وہاں سے بھاگ جائے لیکن اس کے پاؤں شل ہو چکے تھے‘اگر وہ کوشش بھی کرتا تب بھی وہاں سے نہ ہل سکتا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اس عورت کا غم کیونکر نبٹائے۔اگر اس نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تو بھی وہ انکار نہ کر سکے گا۔ایسی مہربان اور غمزدہ عورت کا کہا کوئی کیسے ٹال سکتا ہے۔
دفعتاً وہ اٹھ کھڑا ہوا‘جیسے اس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ اس شدید نقصان کی تلافی کرکے رہے گا مگر پھر سوچنے لگا کہ بھلا میں کیا کر سکتا ہوں۔ایک بیچارے ہرکارے کی بساط ہی کیا ہوتی ہے۔
عورت نے اسے بازوؤں میں لے لیا اور چلائی”میرے ننھے بچے‘میرے لال۔“ہومر کی طبیعت منغض ہو گئی۔اسے یہ سب کچھ بے حد کر یہہ معلوم ہوا۔یہ کراہت جیسے اس کے خون میں پھیل گئی۔

اسے اس عورت سے نفرت تھی نہ کسی اور سے۔لیکن اسے زندگی سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔
”آؤ یہاں بیٹھو۔“عورت نے اسے دوسری کرسی پر بیٹھا دیا۔”تمہیں دیکھوں تو!“
عورت اسے عجیب طرح دیکھ رہی تھی۔ہومر بالکل بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔ساتھ ہی اس بیچاری عورت پر ترس بھی آرہا تھا۔یہ جذبہ رحم محض ایک غم کی ماری ہوئی عورت کے لئے ہی نہ تھا بلکہ ان سب جاندار چیزوں اور ان کے دکھ جھیلنے اور مرنے کے مضحکہ خیز انداز پر بھی اسے اتنا ہی ترس آرہا تھا۔

اس کی نگاہوں میں اس عورت کا ماضی پھرنے لگا۔ایک نوخیز حسینہ پنگھوڑے کے پاس بیٹھی اپنے بچے کو دیکھ رہی تھی۔قدرت کا یہ ننھا منا کرشمہ بے بس تھا‘خاموش تھا۔لیکن زندگی اور زندگی کی اُمیدیں اور ولولے۔سب اسی سے وابستہ تھے۔حسینہ پنگھوڑے کو ہلا کر لوریاں گا رہی تھی۔اس نے عورت کی طرف دیکھا۔اب یہ کتنی بدل چکی ہے۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔دوڑ کر سائیکل سنبھالی اور تاریک گلی میں غائب ہو گیا۔اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ہونٹ لرز رہے تھے۔
تار گھر پہنچا تو آنسو خشک ہو چکے تھے۔لیکن دل میں طرح طرح کے جذبے اُبل رہے تھے۔اس نے سوچا کہ یہ محسوسات یوں ہی رہیں گے ۔مدافعت بے سود ہے۔ورنہ پھر زندگی اور موت میں فرق ہی کیا ہوا۔

Browse More Urdu Literature Articles