Afghan Ortoon Ki Mazahmti Shairi - Akhri Qist - Article No. 906

Afghan Ortoon Ki Mazahmti Shairi - Akhri Qist

افغان عورتوں کی مزاحمتی شاعری ۔ آخری قسط - تحریر نمبر 906

طالبان دور میں افغان عورت نے قلم،کاغذاور کتاب کو برقعے کے نیچے چھپا کر اس سے رشتہ برقرار رکھا۔۔۔ افغان وویمنز رائٹنگ پر و جیکٹ جیسی تنظیم نے بھی عورتوں کو بہت حوصلہ ، دلیری اور جرات دی ہے

ہفتہ 13 جون 2015

سلمیٰ اعوان
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان عورتوں نے ابھی تک وہ آز ا دی حاصل نہیں کی جس کی اُن کے ملک کو ضرورت ہے ۔ طالبان کا دور اُن کیلئے حد درجہ ذہنی اذیت اور کرب کا تھا۔اُن کا خوف انہیں اپنے چہرے ڈھانپنے پر مجبور کرتا تھا۔گرلز سکولوں پر پابندیاں انہیں بے کل رکھتی تھیں۔یونیورسٹیوں میں داخلے سے روکنے پر وہ اضطراب اور گھٹن کا شکار تھیں۔
اُن کے مدرسے مسجدوں میں بدل گئے تھے۔ وویمن ٹیچرز کی تنخواہیں بند ہو گئی تھیں۔اُن کے لٹریری حلقوں کے دروازے مقفل ہوگئے ۔ لیکن کیا انہوں نے ایسے جبر کے ماحول میں جہاں آنکھ جھپکنے کے وقفے میں درجنوں لوگوں کو تڑ تڑ کرتی گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا ہتھیار ڈال دیئے ؟نہیں ایسی مسموم فضا میں بھی انہوں نے فکر و خیال کے نئے دیئے جلائے رکھے۔

(جاری ہے)

لٹریری حلقوں کے دروازوں کے باہر” زنانہ سوزن طلائی“ کے بوردڈلٹکا دیئے ۔اپنے اجسام پر طالبان کی مسلط کردہ یونیفارم جو ہلکے نیلے برقع کی صورت تھی پہن لی ۔بغیر ایڑی کے بھّدی وضع کے جوتے پاؤں میں ڈال لیئے ۔ ہاتھ میں پکڑے کروشیے کے تھیلوں میں قینچی، کپڑا ،سوئی دھاگہ، فریم تّلہ اور دبکے کے نیچے کاپی ،قلم ، کتاب ،رسالہ چُھپا لیئے
او زندگی کے سنگ موت کو بھی ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہوئے ادبی مرکز میں داخل جاتیں ۔
یہاں آتے ہی اُن کے سروں سے برقعے اُتر جاتے ، فرش پر بچھے گدّوں پر بیٹھ کر ممنوعہ مضامین یعنی ادبی تنقید ، جمالیات اور فارسی شاعری پر اپنے استاد سے لیکچر سُنتیں۔وہ شیکسپئر ،جیمز جائس، ورڈذ ورتھ سے بھی متعارف ہوتیں۔
ذرا یہاں راحیلہ موسکا کے جذبات کا دلفریب اظہاریہ تو دیکھیئے تم میرا قلم نہیں دیکھ سکتے
میرا کاغذ بھی تمہاری نظروں سے اوجھل ہے
برقعے کے نیچے
میرے سینے میں چھپے ہوئے
میں افغان رائٹر ہوں
جسے آزادی کے گھر کی ضرورت ہے
افغانستان کی ابتر سیاسی حالت جس میں کسی اسلامی ملک نے طالبان کی انتہا پسندی کی مذمت میں ایک لفظ نہیں کہا۔
عورتوں کی تعلیم پر پابندی ان کے حقوق کی پامالی پر مجال ہے پاکستان سمیت مسلم دنیا نے کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہو۔ ہاں ایران نے اپنا کر دار ضرور نبھایاہے ۔مگر افغانی عورت کی جّرات دیکھیئے ۔ اس کا اظہار سمیرا پوپلزئی کابل کی شاعرہ نے کس رنگ ڈھنگ سے کیا۔دل ڈھیروں ڈھیر داد دینے کو چاہتا ہے۔
سیاست نے اپنے مہیب سایوں کے ساتھ
ایک بار پھر اپنا جھنڈا بلند کیا ہے
یہ تمہارے نوجوانوں کے خون سے رنگا ہوا
ظالمانہ انتہاؤں کو چھوتا ہوا
ہماری ہڈیوں کو چکنا چو ر کرتا ہوا
اور ہمیں مزید دھوکے دیتاہوا
راحیلہ یار جیسی شاعرہ جس کی شاعری کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں ۔
وہ کہتی ہے۔
کوئی دھماکوں کیلئے سامان لاتا ہے
کوئی خود کش بمبار ہے
کسی نے میری ووٹ ڈالنے والی انگلی کا ٹ دی ہے
خدایا کیاتم میر ے درد کی آواز نہیں سنو گے۔
طالبان کے روبہ زوال سے افغانی عورت کو حوصلہ ملا ہے۔ وہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کسی نہ کسی رنگ میں کر رہی ہے۔ آفرین ہے تم پر اے افغان عورت ۔
اُس نے مذہب سے لے کر سماجی موضوعات سب پر قلم اٹھا یا ہے ۔ قارینہ shabra اُن سپاہیوں کے بارے میں لکھتی ہے جو طالبان کے ساتھ ہیں۔ جنہوں نے بندوقیں اُٹھائیں۔
میں تمہیں پھر سپاہیوں کے روپ میں دیکھتی ہوں
اپنے ہی ملک میں، اپنے ہی لوگوں کے خلاف
تم تو مجھے گم شدہ ہوئے لگتے ہو۔
دا د دیجیئے افغان وویمنز رائٹنگ پروجیکٹ جیسی تنظیم کو جس نے عورتوں کو بہت حوصلہ ،دلیری اورجُرات دی ہے ۔
اِس نے کم عمر بچیوں کو لکھنے پر مائل کیا ہے۔
آسمان ابابیلوں کا گھر ہے۔ یہ افغانی لڑکیوں اور عورتوں کی شاعری ، مضامین اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ذرا پڑھیئے ۔
ایک کم عمر بچی کیسے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔
میں اپنا قلم لیتی ہوں لکھنے کیلئے ۔میں خوف زدہ ہو جاتی ہوں کہ کیا لکھوں او ر کس کے بارے میں لکھوں ۔ پھر لکھنے لگتی ہوں وہ سب جو میرے اندر ہے ۔
اس نے مجھے آواز دی حوصلہ دیا کہ میں اپنے دکھ درد لوگوں کے ساتھ شیئر کروں۔ اس نے مجھے افغان لکھاری کا ٹائٹل دیا ۔
رویاکہتی ہے یہ افغان عورتوں کی آواز ہے جو کم کم سننے میں آتی ہے۔
یہ کہانیاں ہیں خون ،ظلم، ناانصافی ،آنسوؤں اور قہقہوں کی آزادی اور استحصال کی۔سولہ سال کی لڑکی کا قتل اسکی ما ں کے ہاتھوں ہوتا ہے ۔ایک پندرہ سالہ بچی کا اس کے بہنوئی کے ہاتھوں استحصال کی درد ناک داستان ہے۔
ایک شاعرہ اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔ ایک عورت سکول کھولتی ہے گلی کے بچوں کیلئے ۔ ہم برقعے کے پیچھے سے وہ کچھ سُنتے ہیں جو ہم نے کبھی نہیں سنا ۔
افغان عورتوں کی آوازیں
مجھے دیکھو ، مجھے نہ دیکھو
لیکن میں یہاں ہوں
بہر حال شب ِ تاریک اب سحر میں بدلنے والی ہے۔ انشاء اللہ سکولوں پر لگے قفل ٹوٹ رہے ہیں۔ادبی مرکز زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

ہرات ثقافتی ، تمّدنی پس منظر اور تہذیبی ورثہ رکھنے والا شہر پانچ ہزار سال سے افغان تہذیب کا نمائندہ ، علم و فن کا مر کز کہ جس کے بارے میں پندرھویں صدی کے عظیم شاعر علی شیر نوائی نے کہا تھا۔ ہر ات علم سے بھر ا ہوا ایسا شہر ہے کہ کوئی آدمی یہاں اس لیئے ٹانگ نہیں پسار سکتا کہ وہ کہیں آگے بیٹھے شاعر کی پشت سے نہ ٹکرائے ۔
یہ ملکہ گوہر شاد جیسی علم دوست کا شہر جسکے در دیواروں پر اگر آرٹ بکھرا ہو ا تھا تو علم و فن کے مظاہرے گھروں اور گلی کوچوں میں ہوتے تھے۔
بیٹھکوں میں ادبی نشستیں جمتی تھیں ویسے ہی پھر آباد ہوگا ۔طالبان کا وہ تاریک دور انشا ء اللہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔
تخلیق کے وہ دیئے جو عورتوں نے جلائے، مزید جلیں گے۔ آفرین ہے تم پر اے افغان عورت۔ افغان عورت تو سلامت رہے اور جی داری کا جھنڈا لہراتی رہے اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتی اور لڑتی رہے تاآنکہ تو کامیاب ہو جائے۔ آمین!

Browse More Urdu Literature Articles