Azad Kashmir Mein Sayahat Ka Farogh, Waqt Ki Aham Zaroorat - Article No. 2067

Azad Kashmir Mein Sayahat Ka Farogh, Waqt Ki Aham Zaroorat

آزاد کشمیر میں سیاحت کا فروغ ۔ وقت کی اہم ضرورت - تحریر نمبر 2067

واپسی پر سردار اعظم خان کی جانب سے پرتکلف ضیافت کے بعد ہم مظفر آباد کی جانب روانہ ہوئے ۔ دھیمی دھیمی بارش کے باعث موسم ٹھنڈا ٹھار تھا ۔ جس کی وجہ سے سفر نہایت خوشگوار لگ رہا تھا

 Mirza Zahid Baig مرزا زاہد بیگ اتوار 9 جون 2019

عید الفطر کے دنوں میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے تمام شہروں سے سیاحوں نے آزاد کشمیر کے معروف سیاحتی مقامات کا رخ کر لیا ۔ شدید گرمی کے بعد آزاد کشمیر میں بارشوں سے جون دسمبر بن گیا اور سیاح اس خوبصورت موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا تین لاکھ لوگوں نے آزاد کشمیر کے سیاحتی مقامات کا رخ کیا اور اس موقع پر مختلف مقامات پر شدید ٹریفک جام بھی دیکھنے میں آیا۔
نو افراد پر مشتمل صحافی دوستوں کے ہمراہ ہم بھی مظفر آباد سے نیلم اور جہلم ویلی کی جانب نکلے ۔ قافلہ چیف ایڈیٹر روذنامہ صدائے چنار بیورو طیف کاشف شبیر منیجر مارکینٹنگ عبد المنان چوہدری ۔ ماسٹر افتخار ۔ طیب چوہدری ۔صہیب چوہدری، ماسٹر افتخار ۔ دیان چوہدری اور مرتضی کاشف پر مشتمل تھا۔

(جاری ہے)

کوٹلی سے سرساوہ تک تو روڈ کی حالت ٹھیک تھی لیکن سرساوہ سے ترارکھل تک روڈ کی خستہ حالی دیکھ کر وزیر بلدیات راجہ نصیر احمد خان اور وزیر حکومت سردار فاروق احمد طاہر کی اس اہم شاہراہ سے عدم دلچسپی دیکھ کر نہایت دکھ ہوا ۔

حالانکہ دونوں وزراء حکومت نہایت متحرک حیثیت کے حامل ہیں۔ اگر اس روڈ کی حالت بہتر بنائی جائے تو سیاحوں کی اس علاقے میں دلچسپی مزید بڑھ سکتی ہے ۔ سرساوہ انڈیا موڑ سے گذر پر بلوچ ۔ اعوان آباد ، تراڑکھل سے گذر کر جب ہم سیاحتی مقام پنجوسہ پہنچے تو سیاحوں کا ایک جم غفیر یہاں موجود تھا ۔ ہر طرف گہما گہمی نظر آ رہی تھی خواتین بچے اور ہر عمر کے لوگ اس جگہ انجوائے کر رہے تھے اور موسم نہایت سرد تھا ۔
پاکستان کی شدید گرمی سے اکتائے ہوئے لوگ یہاں نہایت مطمن اور مسرور نظر آ رہے تھے ۔جھیل کے کنارے فوٹو گرافی کے بعد ہم اگلے سفر پر روانہ ہوئے۔ نیریاں شریف کے قریب اسلام آباد کی ایک کاروباری شخصیت سردار اعظم خان نے ایک ضیافت کا اہتمام کر رکھا تھا ۔ہم نے نیریاں شریف دربارپر پیر فضل ربانی زاہدی صاحب سے ملاقات کی اور دربار شریف پر حاضری دی ۔
واپسی پر سردار اعظم خان کی جانب سے پرتکلف ضیافت کے بعد ہم مظفر آباد کی جانب روانہ ہوئے ۔ دھیمی دھیمی بارش کے باعث موسم ٹھنڈا ٹھار تھا ۔ جس کی وجہ سے سفر نہایت خوشگوار لگ رہا تھا ۔ دو گاڑیوں پر مشتمل قافلہ مغرب کے وقت سابق صدر و وزیر اعظم مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم خان کے مقبرے پر پہنچا جہاں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد فاتحہ خوانی کی اس کے بعد سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی اور مختلف سیاسی امور پر تبادلہ خیال ہوا ۔
ان کے ہاں بھی کھانے کا اہتمام تھا جہاں ان کے صاحبزادے سردار عثمان عتیق نے میزبانی کی ۔ ان سے ملاقات کے بعد ہم اگلے سفر پر روانہ ہوئے کوہالہ سے آگے ڈنہ کچیلی روڈ پر سجاد اعوان ہمارے میزبان تھے ۔انہوں نے بھی بھرپور دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا رات بارہ ساڑھے بارہ بجے ایک بار پھر پرتکلف کھانے کا دور چلا ۔ اتنے لمبے سفر کے بعد خوب نیند آئی اور جون کی شدید گرمی میں دسمبر جیسی سردی کا مزاہ لیتے ہوئے ساتھی نے حد معزوز ہوئے ۔
صبح جب ہم اٹھے تو نہایت خوبصورت اور لفریب مناظر دلوں کو موہ رہے تھے ۔ خوبانی اور سیب کے درختوں کے ساتھ پھول ماحول کو مزید خوبصورت بنا رہے تھے ۔ ساتھیوں نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے نیلم ویلی جانے کا پروگران ملتوی کر دیا کیونکہ سیاحوں کے رش کے باعث وہاں پہنچنا مشکل نظر آ رہا تھا ہم نے جہلم ویلی اور لیپہ ویلی جانے کا فیصلہ کیا ۔ گڑھی دوپٹہ پہنچے تو ہمارے قافلے کے ایک ساتھی کے گھرمیں کسی ایمرجنسی کا فون آ گیا تو ہم نے وہاں سے واپسی کا رخت سفر باندھ لیا اور اگلا ٹور منسوخ کر دیا واپسی پر ایک دیسی ہوٹل میں دیسی گھی کی چوری ۔
لسی ۔ مکئی کی روٹی اور خالص کڑی سے لطف اندوز ہوئے ۔واپسی پر ہم براستہ ہجیرہ وایس کوٹلی پہنچے ۔ اس روڈ کی حالت دوسری روڈ سے بہت اچھی تھی اس طرح ہمارا سفر اللہ کے فضل سے بخیر و خوبی طے پایا ۔اس سفر کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ اگر آزاد کشمیر کی سڑکوں کی حالت بہتر بنائی جائے تو سیاحت کی انڈسٹری سے آزاد کشمیر کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ان علاقوں میں خوبانی سیب اور دیگر فروٹ ویسے ہی ضائع ہو رہا ہے اور اس کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے یہ پھل ضائع ہو رہے ہیں ۔
حکومت اس شعبے کی ترقی کے لئے محکمہ زراعت کو مزید فعال بنائے تو نہ صرف مالی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ حکومت پھل فروٹ میں خود کفیل بھی ہو سکتی ہے ۔ ہمیں دور دراز سے فروٹ منگوانے کے بجائے اپنے فروٹ تازہ میسر آ سکتے ہیں ۔ ان سطور کی وساطت سے ہم ارباب اختیار سے یہ کہنا چاہیں گے کہ آزاد کشمیر کے سیاحتی مقامات پر نہ صرف سیاحوں کو سہولیات فراہم کی جائیں بککہ اس انڈسٹری کے فروغ کے لئے جامع منصوبہ بندی کی جائے اور یہاں پیدا ہونے والے فروٹس کے تحفظ اور افزائش کے لئے بھی لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔
حالیہ عید الفطر کی چھٹیوں میں بڑی تعداد میں سیاحوں کی آزاد کشمیر آمد ایک نہایت خوش آئند اور مثبت بات ہے ہم اہل کشمیر سے بھی یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ آنے والے مہمانوں کو بھرپور طریقے سے خوش آمدید کہیں اور انہیں سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنائیں تا کہ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ مزید آگے بڑھ سکے ۔ کشمیر کے باسی بلاشبہ جنت نظیر کے باسی ہیں انہیں اپنے اخلاق و کردار سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ آنے والوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ حکومت آزاد کشمیر کو سیاحت کے فروغ کے لئے فوری عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔

Browse More Urdu Literature Articles