Bhalwal Se Wakhnangan Episode 10 .... Musafir Nawaz Behteray - Article No. 1407

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 10 .... Musafir Nawaz Behteray

بھلوال سے واخننگن قسط 10 ۔۔۔۔۔ مسافر نواز بہتیرے - تحریر نمبر 1407

اتنا وقت تو یادوں کو ٹھکانے لگانے اور ادھر ادھر بکھرے سامان کو سمیٹنے کے لئے بھی کم تھا، ٹیکسی والے کے بلاوے پر نیچے اترے تو ایمان ڈگمگانے کے جملہ سامان پھر سے موجود تھے

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ پیر 31 جولائی 2017

عمرہ کی ادائیگی ہمارے واپسی کے پروگرام میں پہلے سے شامل تھی اور refurbishہونے کے لئے یہ ضروری بھی تھا۔ مگر ہم تھے کہ ردِ غالب بنے بیٹھے تھے، کعبہ مرے آگے ہے کلیسا مرے پیچھے کی مجسم تصویر۔ ادھر کعبہ بلا رہا تھا، ادھر سانتا، سنڈی اور سرپرائز پارٹیوں میں علینا کے جلوے دامن کھینچ رہے تھے۔ ایسے میں سوچ رکھا تھا کہ گریجوایشن اور روانگی کے درمیانی وقفے میں اپنی جھاڑ پھونک کریں گے، کچھ تربیت کریں گے، کچھ ارتکاز کریں گے۔

مگر یہ ہو نہ سکا اور سب کچرا رخت سفر میں شامل ہو گیا۔ گریجوایشن سے پہلے والی رات فرینکفرٹ سے ہوم منسٹر کے ماموں شوکت پراچہ کا حکمیہ بلاوا آ گیا۔ "گاڑی بھیج رہا ہوں، پہنچ جاوٴ"۔ جب کوئی بہانہ نہ چلا تو جانا پڑا کہ لوٹ کے گھر جانا تھا۔ دو دن بعد اس حال میں واپسی ہوئی کہ چند گھنٹوں بعد سفر حجاز کے لئے کوچ کرنا تھا۔

(جاری ہے)

اتنا وقت تو یادوں کو ٹھکانے لگانے اور ادھر ادھر بکھرے سامان کو سمیٹنے کے لئے بھی کم تھا۔

سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ٹیکسی والے کے بلاوے پر ہاتھوں میں سامان اور آنکھوں میں سرخ ڈورے لئے نیچے اترے تو ایمان ڈگمگانے کے جملہ سامان پھر سے موجود تھے۔ علینا اور ویرا نے بھی واپسی کا یہ وقت منتخب کر رکھا تھا، یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ کمبخت سنڈی کو بھی آج ہی ناشتے کی شفٹ پر موجود ہونا تھا، ترکی کی تالیہ کو بھی جلوہ آرائی کے لئے یہی موقع ملا تھا۔
موقعے کی مناسبت سے جو کام کنکریوں سے کرنے کا تھا، 'رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے' کی نذر ہو گیا۔ شاید قدرت کو ابھی ہمارا امتحاں مقصود تھا۔ ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ تک ٹرین کے سفر میں ہم سب چپ تھے حتیٰ کہ انجم بھی۔ معلوم نہیں دوسرے ساتھی کیا سوچ رہے تھے مگر میں میموری چِپ کھرچنے کی کوشش میں لگا تھا، اس خیال سے کہ سلیٹ صاف کر لوں اور آگے جانے سے پہلے کم از کم رونے والا منہ ہی بنا لوں۔
ابھی ٹرین ایئر پورٹ میں داخل ہو رہی تھی کہ انجم نے کھڑکی کے شیشے سے باہر جھانکتے ہوئے کہا "پانی کہاں ہے؟"۔ "کون سا پانی؟"۔ میں نے پوچھا۔ "اب اتنے بھولے بھی نہ بنو، ہالینڈ کوئز میں تمہی نے تو بتایا تھا کہ ائرپورٹ سطح سمندر سے آٹھ یا گیارہ فٹ نیچے ہے۔ اور ٹرین تو اس سے بھی بیس تیس فٹ نیچے ہے"۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، غیب سے آواز آئی "ابھی جب گاڑی رکے گا تو اَم پانی میں اترے گا اور کشتی اَم کو ٹرمینل تک لے جائے گا"۔
یہ پچھلی سیٹ پر بیٹھا نکولس تھا جس نے انجم کی بات پر سوموٹو کارروائی کر ڈالی تھی۔ وہ پاکستان میں کافی عرصہ سفارت کاری کر چکا تھا اور ٹھیک ٹھاک اردو جانتا تھا۔ شاید انجم اسے سچ مان بیٹھا تھا اور گاڑی کے رکنے پر کشتی تلاش کر رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اسے سمجھایا کہ ہمیں اڑن کھٹولے پر جانا ہے کشتی پر نہیں۔ ایئرپورٹ پر جا کر ہمیں اپنا فلائٹ کاوٴنٹر تلاش کرنے میں دقت اس لئے نہ ہوئی کہ کئی احرام پوش ہماری راہنمائی کے لئے قطار میں لگے ہوئے تھے۔
"ہم نے احرام کیوں نہیں باندھا؟" ایک بار پھر انجم نے بار بار پوچھا ہوا سوال دہرا دیا۔ "ابھی ہم جدہ جا رہے ہیں، آگے کا ارادہ وہاں جا کر کریں گے، کل یا پرسوں "۔ میں نے ایک بار پھر وہی جواب دیا جو ڈاکٹر ملک نے مجھے دیا تھا۔ ڈاکٹر غلام محمد ملک کا تعلق میرے آبائی شہر بھیرہ کے ساتھ ملے ہجکہ نامی گاوٴں سے تھا۔ ایشین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بنکاک میں کمپیوٹر کے پروفیسر تھے۔
قابلیت، سادگی، محبت اور اصول پسندی کا مرقع۔ توکل اتنا کہ جب انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں تھے اور یونیورسٹی نے طویل رخصت دینے سے انکار کر دیا تو پل بھر میں یونیورسٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا، پچھلی مدتِ ملازمت اور مستقبل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے۔ وہیں مجھے ان سے فیضاب ہونے کا موقع ملا اور یہ چشمہٴ فیض ابھی بھی جاری تھا۔ ان دنوں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں تھے۔
میری ان سے باقاعدہ خط و کتابت تھی۔ پاکستان آتے تو ملاقات کا شرف بخشتے۔ جتنا عرصہ گاوٴں میں رہتے، گاوٴں والا بن کر رہتے۔ چال ڈھال، لباس اور بول چال سے کوئی مائی کا لعل نہ جان سکتا کہ یہ جٹکا بندہ کمپیوٹر کا پروفیسر ہوگا۔ میں نے انہیں ہالینڈ آنے کی اطلاع دیتے وقت راہنمائی کی غرض سے عمرہ کے ارادے کا ذکر بھی کر دیا۔ جواب وہی تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی 'مجھے آنے کی اطلاع دے دو اور باقی الله پر چھوڑ دو'۔
جہاز میں بھی ہمیں شیطان کی رفاقت میسر رہی۔ یہ نہیں کھل سکا کہ اسے ہماری کمپنی پسند تھی یا ہمیں، بہرحال ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے رہے۔ میں جتنا اسے آگے کی طرف دھکیلتا وہ اس سے بڑھ کر مجھے پیچھے کھینچ لیتا۔ بار بار کان میں یہی صدا لگاتا رہا "مکے گیاں گل مکدی ناہیں"۔ جدہ ایئرپورٹ پر اترے تو ہم تینوں یلوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ میرے پاس بریف کیس نما کٹلری سیٹ تھا، یلے نے اسے شیشے سے بنا جان کر فرش پر انڈیل دیا کہ چھن کی آواز آئے گی اور کرچیوں سے ممنوعہ مواد برآمد ہو جائے گا، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
کرچیاں چننے میں مدد دیتے ملک حمید اور انجم کے سامان سے بھی ممنوعہ مواد برآمد ہو گیا سو دونوں کی مختلف کمروں میں پیشی ہو گئی۔ یہ کورس سے متعلق سی ڈیز اور وڈیو کیسٹس تھیں۔ پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ اگر تم تینوں ایک کورس میں تھے تو یہ تمہارے کرچیوں والے ساتھی کے سامان میں کیوں نہیں؟ سوال معقول تھا مگر میرا جواب کہ میں جرمنی میں چھوڑ آیا ہوں اپنے عزیز کے پاس، پاکستان لانے کے لئے، انہیں مطمئن نہ کر سکا۔
دو ماہرین کو بلوایا گیا جو ان میں کام کا "مواد" تلاش کرتے رہے۔ کچھ نہ ملا تو ہماری خلاصی ہوئی مگر تب تک ایئرپورٹ خالی ہو چکا تھا۔ باہر نکلے تو شرمندگی ہمارے چہروں پر تحریر تھی مگر ڈاکٹر ملک صاحب نے یوں ظاہر کیا جیسے اس کے ذمہ دار وہ ہوں۔ تین گھنٹوں کے انتظار کے باوجود وہ اسی طرح ہشاش بشاش اور خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ ہم تینوں کو سامان سمیت گاڑی میں ٹھونس کر رات کے ایک بجے گھر پہنچے تو کئی مہینوں کے بعد گھریلو کھانے کی مہک نے بھوک سے زیادہ حرص چمکا دی۔ مختصر سی گپ شپ کے بعد سو جانے کے حکم کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد مزید گپ کی نوید ملی۔ عمرے کے سوال پر مختصر سا جواب ملا "میں ہوں نا"۔

Browse More Urdu Literature Articles