Bhalwal Se Wakhnangan Episode 11 .... Musafir Nawaz Behteray Part 2 - Article No. 1410

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 11 .... Musafir Nawaz Behteray Part 2

بھلوال سے واخننگن قسط 11 ۔۔۔۔۔ مسافر نواز بہتیرے حصہ دوئم - تحریر نمبر 1410

لبیک کی آواز ابھی تک صرف زبان سے ادا ہو رہی تھی، حلق سے نیچے گئی نہ دل شریک ہوا۔ طوطے کی طرح رٹے رٹائے جملے منہ سے پھسلتے رہے مگر توجہ ارد گرد کے مناظر پر رہی

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ بدھ 2 اگست 2017

مسجد سے فجر پڑھ کر واپس آئے تو ناشتے کی میز پر انڈوں پراٹھوں کے علاوہ تین احرام اور عمرہ گائیڈ سجے ہوئے تھے اور میز کے نیچے تین سلیپرز۔ یہ ہم زائرین کا زادِ راہ تھا۔ ناشتے کے دوران ہی ڈاکٹر صاحب باتوں باتوں میں اور آسان لفظوں میں سب مناسک کا بتا کر اور کتابچہ پڑھنے کی اسائنمنٹ دے کر خود تو چلے گئے کلاس لینے۔ ڈاکٹر صاحب کلاس سے لوٹے تو ہم اگلے مرحلے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔

ویگن تک کے سفر میں ڈاکٹر صاحب نے ہمارا امتحان بھی لے لیا اور اصلاح بھی کر دی۔ آخر استاد تھے نا۔ استاد استاد ہوتا ہے سفر میں، حضر میں، استاد سیام میں ہو یا حجاز میں، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لئے ٹکٹ وہ پہلے ہی خرید لائے تھے۔ ہم تشریف فرما ہو گئے تو کھڑکی سے ایک وزنی تھیلی میری جانب بڑھاتے ہوئے بولے "یہ رکھ لو، اس میں سکہ رائج الوقت ہے، ہر مرحلے پر اور ہر مشکل میں میرے ساتھ رابطے کے لئے کام آئے گا۔

(جاری ہے)

اب تم کہاں کہاں ڈالر کو کچرے میں بدلواتے پھرو گے" ڈاکٹر صاحب کی محبت کا وزن اس میں شامل نہ ہوتا تو میں اسے کبھی قبول نہ کرتا۔ سفر شروع ہوا تو دوسروں کی طرح تلبیہ شروع ہو گئی۔ لبیک کی آواز ابھی تک صرف زبان سے ادا ہو رہی تھی، حلق سے نیچے گئی نہ دل شریک ہوا۔ طوطے کی طرح رٹے رٹائے جملے منہ سے پھسلتے رہے مگر توجہ ارد گرد کے مناظر پر رہی۔
ان مناظر میں سبھی کچھ نظر آ رہا تھا، ماضی، حال، مستقبل۔ مناظر کیا تھے چمکتی دھوپ میں اڑتی ریت، اونٹوں کے قافلے اور پیچھے بھاگتی ہوئی عمارتیں۔ چیک پوائنٹ تک آنکھوں اور زبان دونوں کا سفر جاری رہا لیکن ایک دوسرے سے مختلف سمتوں میں۔ ویگن نے جونہی اس خط کو پار کیا جہاں بورڈ پر لکھا تھا "غیر مسلم اس حد کو پار نہیں کر سکتے" کیفیت یکایک بدلنا شروع ہو گئی۔
کہیں گہرائی میں دبی ہوئی راکھ سے مسلمانی کی چنگاری سر نکالنے لگی۔ آنکھوں میں دھند چھانے لگی، ماضی کے منظر سر اٹھانے لگے، اندر کے منظر دیکھنے کے لئے میں نے سر نیہوڑا لیا۔ باہر کے منظر آنکھوں سے بہنے لگے۔ انجم کے نہ ختم ہونے والے سوالات کا سلسلہ جاری تھا مگر میں اپنے جواب تلاش کر رہا تھا، اسے جواب کیسے دیتا۔ آخر اس کا حل میں نے نشست بدلنے کی شکل میں نکال لیا۔
جوں جوں ویگن آگے جا رہی تھی، میرا سفر پیچھے کی طرف جاری تھا اور ایک مقام پر رک سا گیا۔ چار سال پہلے امریکہ گیا تو عمرہ کی خواہش کی پوٹلی ہمراہ تھی مگر بلاوا نہ تھا۔ ویزہ ٹکٹ سے مشروط تھا۔ ٹکٹ کے لئے امریکن ایکسپریس سے رابطہ کیا تو پتہ چلا نان ٹرانسفریبل اور نان ریفنڈیبل ہے۔ کیا ہو سکتا تھا؟ لاس اینجلس، ٹوکیو اور بنکاک سے ہوتا ہوا اپنے تھان پر لوٹ آیا۔
ہالینڈ جانے کیلۓ وقت کم تھا اور مراحل بہت زیادہ۔ بیوی نے مشورہ دیا "عمرہ کا ارادہ کر لو، نصیب میں ہوا تو ہالینڈ سے بھی ہو آوٴ گے"۔ بلاوے کے طفیل ہالینڈ کا پھیرہ بونس میں مل گیا۔ "اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاوٴ گے"۔ ویگن کی رفتار میری زبان اور سوچ سے بھی تیز تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہم مکہ کے مضافات میں پہنچ چکے تھے۔
ویگن ایک موڑ مڑی تو حرم کا پہلا مینار نظر آیا، الله الله یہ مقام اور میں۔ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ ۔۔۔۔۔۔ پورے سریر میں سنسنی اور بے ترتیب دھڑکنیں لئے بڑھتے رہے اور پھر ہوش تب آیا جب زوردار بریک کے ساتھ ویگن نے ہمیں باب فہد کے سامنے جا اتارا۔ ویگن سے دل کو سنبھالتے نکلے تو ہوٹل ایجنٹوں کے نرغے میں تھے۔ جتنے ہوٹل اتنی بولیاں۔
اس نرغے سے ہمیں ایک نوجوان نے نکالا یہ کہہ کر کہ یہ تو میرے مہمان ہیں، گویا مان نہ مان میں تیرا میزبان۔ اسی نے ہمیں باب السلام کا رستہ بتایا چھتہ بازار کی طرف سے۔ باتوں باتوں میں تعارف ہوا تو پتہ چلا مسز راشدہ اظہر کا بیٹا تھا۔ راشدہ اظہر زرعی یونییورسٹی میں سوشیالوجی پڑھاتی تھیں اور مسز ثروت رضوانی کے ساتھ اسی کمرے میں بیٹھتی تھیں جس کے دوسرے حصے میں حجرہٴ چہار درویش تھا۔
درویشوں کے فیض کے لئے جاتے ہوئے اکثر تیکھی نظروں کی حد پار کرنا پڑتی تھی۔ نوجوان نے چھتہ بازار تک ہمارا ساتھ دیا اور اگلے روز زیارتوں کے وعدے کے ساتھ رخصت ہو گیا مگر جاتے جاتے بائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ بتانا نہ بھولا کہ جہاں اب غسل خانے ہیں وہاں ابوجہل کا گھر ہوتا تھا اور سامنے لائبریری کے ساتھ مولد رسول صلی الله علیہ وسلم ہے۔
سامان ایک باربر کے پاس رکھ کر عمرہ کی ادائیگی کے لئے نظریں نیچی کئے دل کی زبان سے لبیک دہراتے باب السلام کے رستے حرم میں داخل ہوئے۔ حسب ہدایت سیڑھیاں اترتے نظر اٹھائی تو رب کعبہ کو کعبہ کی اوٹ سے جھانکتے پایا، میرے صاحب نوں وڈیائیاں تے میں گلیاں دا روڑا کوڑا مینوں محل چڑھایا سائیاں، میں نیواں مرا مرشد اچا تے میں اچیاں دے سنگ لائی پہلی جھلک، بے قابو دھڑکنیں، تہی دامنی، بے پایاں انعامات اور نیناں دے کھوہ، الغرض یاد تھیں جتنی دعائیں ہو گئیں ورد زباں، جب مانگنے کے لئے لفظ ساتھ چھوڑ گئے تو دل کو آگے کر دیا۔
آخر کب تک؟ یہ سوچ کر کہ دینے والا نہ تو مقامات کا پابند ہے اور نہ ہی یہاں مانگنے کے مقامات کی کمی ہے، آگے کو بڑھ گئے۔ دوپہر سے کچھ پہلے کا وقت تھا، ہمارے اندازے سے کم وقت میں عمرے کے جملہ مناسک آسانی اور سہولت سے ادا ہو گئے۔ باب کعبہ سے لپٹنے، حطیم میں نوافل ادا کرنےاور سنگ اسود سے ہونٹوں کو مس کرنے کے مواقع بھی آسانی سے میسر آ گئے۔
تب تک زمزم پردہ پوش نہ ہوا تھا، ایک اور سفر نواز نے اس کا منبع بھی دکھا دیا جو صدیوں سے اس غیر زی زرع میں تشنہ لبوں کو سیراب کرتا آ رہا ہے مگر اس کے دامن کی وسعت میں فرق نہیں آیا۔ ظہر کی نماز کے بعد حلق کرانے اسی جگہ پہنچ گئے جہاں سامان چھوڑا تھا۔ لائلپور وہاں بھی ہمارا منتظر تھا۔ جاوید کا تعلق ینگ والا سے تھا جس کے نواح میں ہم نے زندگی کے چند حسین سال گزارے تھے۔
طارق ہال کے دوستوں کے سنگ رات کی تاریکی میں ینگ والا کے کھیتوں، باغوں اور مرغی خانوں سے لائے گئے اسباب کا ذائقہ آج بھی زبان پر رکھا ہے۔ اسی نسبت سے جاوید نے بیلٹ کی جانب بڑھتے میرے ہاتھ روک دیئے۔ اصرار اور انکار کی جنگ میں ینگ والا جیت گیا، اصرار ہار گیا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کا جملہ یاد آ گیا "تم ارادہ کر لو، باقی الله پر چھوڑ دو"۔
ہوٹل کی تلاش میں ہم نے آسائشوں کی بجائے قربت کو ہر شے پر مقدم جانا۔ کمر سیدھی کرنے کے علاوہ ہوٹل میں کرنا بھی کیا تھا، سو جو مل گیا لے لیا۔ ساتھ ہی بنگالی کا ہوٹل تھا، کم خرچ بالا ذائقہ۔ ہم نے پچھلے چند ماہ کی حسی محرومی کا خود سے ٹکا کے انتقام لیا۔ اس میں آب زمزم نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔ دو گھنٹے کے بعد ہی انجم سوال کرتا "آج ہم نے کھانا کھایا ہے؟" اور ہم پھر سے بنگالی سے کیمون آچھے کا جواب لینے پہنچ جاتے۔ یہ الگ بات کہ کچھ کھانے کے بعد بھالو آچھے کہہ کر جواب بھی خود ہی دینا پڑتا۔

Browse More Urdu Literature Articles