Bhalwal Se Wakhnangan Episode 13 .... Pallay Kharch Na, Saakh Na Kaai - Article No. 1421

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 13 .... Pallay Kharch Na, Saakh Na Kaai

بھلوال سے واخننگن قسط 13 ۔۔۔۔ پٓلّے خرچ نہ، ساکھ نہ کائی - تحریر نمبر 1421

عبدو تصدیق نہ بھی کرتا تو بھی بے قابو دل اور متلاشی آنکھیں راز کھول رہے تھے۔ دور روشنی کا ہالہ دیکھ کر انجم کی بولتی بھی بند ہو گئی۔ نور کا یہ سیلاب نہ بھی ہوتا تو بھی دل کی بے ترتیب دھڑکنیں ہی نشاندہی کے لئے کافی تھیں

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ پیر 7 اگست 2017

رات اور ٹیکسی دونوں اڑتے جا رہے تھے۔ ریت ملی پُرے دی ہوا میں جانے کیا گھُلا ہوا تھا، نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھ لگ گئی۔ شدید جھٹکے اور چرچراتی بریک سے اندازہ ہوا نیند عبدو کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ مجھے یوں لگا گویا سارا اہتمام ہمیں بیدار کرنے کے لئے کیا گیا ہو، "اُٹھ جاگ گُھراڑے مار نہیں، ایہہ سون ترے درکار نہیں"۔ لگتا تھا لاہور کے جغرافیے پر انجم کے تعارفی لیکچر کے بعد سوال جواب کا سیشن بھی تمام ہو چکا تھا۔

ہمارے علاوہ وہ دونوں بھی مشترکہ دلچسپی کے مدار سے باہر آ کر نیند کے حصار میں چلے گئے تھے۔

جاگنے اور سونے کے اس راز سے سیف الملوک نے یوں پردہ اٹھایا "جاگدیاں ایہہ نعمت کتھوں مت میں سُتی ہوواں جاں جاگاں تے یار نہ لَبھے تلیاں ملدی روواں" انجم اور عبدو کو باتوں میں لگا کر ہم پس نشست ایک بار پھر اپنے دامن کو ٹٹولنے لگ گئے۔

(جاری ہے)

دامن میں کچھ ہوتا تو ملتا، دل کی دل میں رکھنے کا جواز البتہ ضرور مل گیا اور وہ بھی سیف الملوک ہی سے، "ﺩﻝ ﺩﺍ ﺟﺎﻧﯽ ﮐﻮﻝ نہ میرﮮ ﻧﺎﻝ کیدﮮ میں ﺑﻮﻻﮞ، ﺍﻭﺩﮮ ﻭﺭﮔﺎ ھﻮﺭ نہ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺲ نل ﺩﻝ ﺩﯾﺎﮞ ﮐھﻮﻻﮞ" اسی اُدھیڑ بُن میں تھے کہ دل کی دھڑکنیں اوقات سے باہر ہونے لگیں، آثار سے نظر آ رہا تھا منزل دو گام کے فاصلے پر ہے۔

عبدو تصدیق نہ بھی کرتا تو بھی بے قابو دل اور متلاشی آنکھیں راز کھول رہے تھے۔ دور روشنی کا ہالہ دیکھ کر انجم کی بولتی بھی بند ہو گئی۔ نور کا یہ سیلاب نہ بھی ہوتا تو بھی دل کی بے ترتیب دھڑکنیں ہی نشاندہی کے لئے کافی تھیں۔

ہماری خواہش تو یہی تھی کہ سیدھا حاضری دے کر اپنی آمد کو سپھل کریں لیکن عبدو کا اصرار تھا کہ مسجد کے در کھلنے تک ٹھکانہ تلاش کر لینا بہتر ہے۔

در حبیبؐ سے قربت ہی یہاں بھی ہماری واحد مُراد تھی، سو ہمیں باب فہد کے قریب فروکش کروا کے عبدو تو رخصت ہو گیا اس وعدے کے ساتھ کہ "بس ذرا ہانک مار دینا، زیارتوں کے لئے حاضر ہو جاوٴں گا"۔ سامان کمرے میں پھینک کر ہم تین فرزانے سوئے در نبی چل دیئے ۔۔۔ لب پہ درُود و سلام، دل میں درُود و سلام، چشمۂ رحمت سے فیض یاب ہونے کو ایک قدم آگے اٹھتا تو دل میں بسی ندامت دو قدم پیچھے جانے کو اُکساتی۔
عطا ہی عطا اور جُود و سخا کی امید کے سہارے ہم آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔ عزت بخاری بیچ بیچ میں مسلسل احتیاط کی تلقین کرتے رہے "ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر، نفس گُم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا"

ہم گھوم گھام کر باب جبریل پہنچے تو عُشاق کی لمبی قطار دیکھ کر مڑے اور دیسی طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایک بغلی دروازے سے بآسانی مسجد نبویؐ میں داخل ہو گئے۔

ریاض الجنہ سے ہوتے ہوئے عُشاق کی اس قطار میں شامل ہو گئے جو آقائے دو جہاںؐ کی سلامی کے منتظر تھے- یاران نبیؐ کے درمیان آسودۂ خاک رحمت دو عالمؐ کے سامنے جو بھی پیش ہوتا اس کے قدم وہیں جم سے جاتے مگر جالی اور ریلنگ کے درمیان مُعلق ہاتھ حرکت میں برکت کے قائل نظر آتے تھے۔ وہ کسی کو ایک ساعت سے زیادہ دینے کے روادار نہیں تھے۔ ایسے میں لبیک یارسول اللہؐ کے سوا کوئی کہہ بھی کیا سکتا تھا۔
قطار رینگ رہی تھی، دل دھڑک رہا تھا، آنکھیں جھکی جا رہی تھیں۔ میری باری آئی تو اشکوں کی زبانی سلام عرض کرنے کے علاوہ کچھ بھی تو نہ کہہ سکا، گر قبول افتد زہے عز و شرف۔ سب ندامت بہہ گئی تو قرار سا آ گیا۔ پہلی حاضری ہو گئی تو زیادہ سے زیادہ رحمتیں اکٹھی کرنے کی طمع جاگ اٹھی۔ یہ طمع ہمیں سیدھا ریاض الجنہ لے گئی۔ ابھی نماز میں کافی وقت تھا، پھر بھی کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔
ہر کوئی اسی حسرت سے مغلوب تھا کہ سبز پھولوں والے سفید قالینوں پر زیادہ سے زیادہ وقت نوافل اور درود و سلام میں گزارنے کی سعادت حاصل کر لے۔ شاید کسی ایسی جگہ کے لمس سے اس کی اگلی منزلیں آسان ہو جائیں جہاں سرور کائنات کے پاوٴں مَس ہوئے ہوں۔ دونوں کیفیات نمایاں تھیں خود غرضی کی اور اخوت کی۔ پہلی کیفیت، "حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے" کی مظہر تھی۔
جبکہ دوسری کیفیت والے حرکت میں برکت کے قائل تھے، جہاں جگہ ملی دو نفل ادا کئے، کسی اور کے لئے جگہ خالی کی اور نئے مقام کی تلاش میں چل دیئے۔

جتنے دن وہاں رہے کوشش یہی رہی کہ جو بھی وقت نبیؐ کی مسجد میں گزرے، یہیں پہ گزرے اور رب کا کرم رہا کہ یہ خواہش حسرت نہ بنی۔ منبرِ رسولؐ کے آس پاس اور اصحابِ صُفہ کے چبوترے پر گزرا وقت آج بھی میری یادوں کو روشن رکھتا ہے۔

شاید ہی کوئی نماز ہو جو دوران قیام ریاض الجنت سے باہر ادا کی ہو اور یہاں بھی فیصل عجمی کے اس شعر کا سا عالم تھا جو شاید اسی جگہ کہا گیا ہوگا "آخری صف بھی ہے معراجِ مُقدر فیصل، پھر بھی خواہش ہے کہ مل جائے جگہ اور آگے"۔ دوسرا دن تھا کہ عبدُو سے زیارتوں کے لئے رابطہ کیا، وہ خود تو کسی مسافر کو لے کر جدَہ جا رہا تھا، ہمارے لئے ایک دوست کا بندوبست کر گیا۔
یہ افضل تھا ہمارا گرائیں۔ مدینے کا کون سا مقام تھا جہاں وہ ہمیں نہیں لے گیا۔ اسے جلدی تھی نہ طمع۔ ہر مقام پر ہمارے ساتھ رہا اور ایک اچھے گائیڈ کی طرح پورے سیاق و سباق اور پس منظر سے آگاہ کرتا رہا۔ افضل نے مسجد قبلتین، مسجد قبا، مسجد الشجرہ، مسجد الایجابہ، مسجد جمعہ، مسجد غمامہ، مساجدِ احد، مسجد جن اور غزوہٴ خندق کے دوران مختلف صحابہٴ کرامؓ سے موسوم مساجد میں پوری یکسوئی سے نوافل کی ادائیگی کے مواقع فراہم کئے۔
قلتِ آب سے ستائے مسلمانوں کے لئے یہودیوں سے خرید کر وقفِ تشنہ لباں کیا گیا بِیرِ عثمانؓ، وادی خاکِ شفا، باغِ سلمان فارسیؓ، الغرض کون سا مقام تھا جہاں افضل ہمیں لے کر نہ گیا۔ وہ تو ہمیں وادئ جن کی طرف لے جانے پر بھی بضد تھا لیکن ہم نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہاں جا کر کہیں ہمارے اندر کا جن مچل نہ جائے حالانکہ اصل بات کچھ اور تھی ۔
۔ ۔ ہمارے اندر کا خوف، سنی سنائی کا اثر۔

اُحد کی پہاڑی کی طرف جاتے ہوئے قریبی آبادی کے باہر ایک چٹان کے بارے میں بتایا کہ یہ وہ چٹان ہے جو ہادئ برحقؐ پر گرنے والی تھی کہ آپؐ کی اونٹنی نے اپنے سُم سے روک کر آپؐ کی حفاظت کی۔ چٹان پر نقش اونٹنی کے پاؤں کے نشان پر تازہ پلستر فرزانوں کی عقیدت کی دست درازی کی گواہی دے رہا تھا۔ اُحد کے اس درے میں بھی جہاں تیر اندازوں کو کھڑا کیا گیا تھا ہتھوڑا بردار زائرین اپنی عقیدت کا اظہار پتھر کے ٹکڑے سمیٹنے کی شکل میں کر رہے تھے۔

عقیدتوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ نشانیاں یا تو رہنے ہی نہ دی جائیں یا وہاں تک رسائی بند کر دی جائے۔ ایک رات عشا کی نماز کے بعد مسجد نبویؐ سے باہر آئے تو جمِ غفیر سوئے آسمان دیکھنے میں منہمک تھا۔ تکبیر تکبیر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ہم بھی مجمع میں شامل ہو گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سروں کے عین اوپر ستارے مسجد نبویؐ کا عکس بنائے ہوئے تھے۔
یہ واقعی ستارے تھے یا کچھ اور، یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ سچ یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی یقین نہ کرتا۔

یہ ہماری شہرِ نبیؐ میں آخری شب تھی اور بے قراری میں قرار کی تلاش ہمیں گلی گلی لُور لُور پھراتی رہی۔ صبح کی اولین ساعتوں میں ہم پھر سے مسجدِ نبویؐ میں تھے الوداعی سلام کے لئے۔ جنگلے اور جالی کے درمیان معلق ہاتھوں کی سرعت نے زبان سے تو کچھ کہنے نہ دیا لیکن اس دل کا وہ کیا کر سکتے تھے جو چلتے چلتے بھی بہت کچھ کہہ گیا۔

دل پر بھلا کس کا زور چلا ہے۔ دل ہی کی زبان میں یہ کہتے آگے بڑھ گئے، "پھر ملیں گے اگر خدا لایا"۔ جلدی آنے کا فائدہ ہوا اور ریاض الجنت میں مقاماتِ موعود پر ایک بار پھر نوافل ادا کرنے کی سعادت مل گئی۔ "ایں سعادت بزور بازو نیست، تا بہ بخشد خدائے بخشندہ" فجر کے بعد جنت البقیع کی حاضری کے لئے جا رہے تھے تو ایک شناسا چہرے کے توسط سے اس گروپ کا ساتھ نصیب ہو گیا جس کا راہبر معلومات کا خزانہ تھا۔

السلام علیکم یا اہل القبور کہتے ہوئے داخل ہوئے تو دائیں ہاتھ شرطوں سے الجھتے سیاہ پوش خواتین و حضرات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہاں کون آسودہٴ خاک ہے۔ تفصیل راہبر بتاتے رہے اور دعا ہم کرتے رہے اس یقین کے ساتھ کہ دعائیں پلٹ کر آئیں گی۔ قبرستان کی وسعت اور تنگ دامانی کے باوجود تازہ کھدتی قبریں اس بات کی شہادت دے رہی تھیں کہ روزِ حشر ایک ایک قبر سے کئی مردے اٹھائے جائیں گے۔

میں سوچنے لگا کتنے خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جو قیامت کے روز اہلِ بیتؓ صحابہٴ کرامؓ اور دیگر مقرَبین کے ہمراہ یہاں سے اٹھائے جائیں گے۔ یہاں سے نکل کر ہوٹل سے سامان اٹھایا اور ایک بار پھر ذی الحلیفہ کی مسجد الشجرہ کی طرف چل دئیے لیکن اب یہاں جانے کا مقصد اور تھا، دوبارہ مکہ کے سفر کے لئے ویزہ کا حصول یعنی احرام پوشی۔

Browse More Urdu Literature Articles