Bhalwal Se Wakhnangan Episode 5 ... Aor Koi PanioN MeiN ZameeN Dhoondta Raha - Article No. 1378

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 5 ... Aor Koi PanioN MeiN ZameeN Dhoondta Raha

بھلوال سے واخننگن قسط 5 ۔۔۔۔ اور کوئی پانیوں میں زمیں ڈھونڈتا رہا - تحریر نمبر 1378

ولندیزی قزاقوں کی دھاک بچپن سے ہمارے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی تھی مگر یہ سمجھ نہ آئی تھی کہ پدی جتنا ملک کیسے امریکہ سے انڈیا تک، انڈونیشیا سے ماریشس تک اور گھانا سے سوری نام تک آدھی دنیا کو سرنگوں کئے ہوئے تھا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ پیر 17 جولائی 2017

ولندیزی قزاقوں کی دھاک بچپن سے ہمارے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی تھی مگر یہ سمجھ نہ آئی تھی کہ پدی جتنا ملک کیسے امریکہ سے انڈیا تک، انڈونیشیا سے ماریشس تک اور گھانا سے سوری نام تک آدھی دنیا کو سرنگوں کئے ہوئے تھا۔ تاریخ کے اپنے تقاضے ہیں، جغرافیے کی اپنی ضروریات اور پیٹ کی اپنی مجبوریاں۔ کوئی اور پیٹ کی آگ بجھانے کو ادھر ادھر منہ مارے تو لٹیرا ، ڈاکو اور قاتل اور ہم دنیا پر چڑھ دوڑیں، دوسروں کے معبد اجاڑیں، خزانے لوٹیں، باندیاں بنائیں تو غازی کہلائیں۔
شاید یہی تاریخ کا جبر ہے۔ ہماری تاریخ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ کس نے کس طاقت کے بل پر دنیا کو سرنگوں کیا، بس فتوے دیتی اور الزام لگاتی ہے، تجزیہ نہیں کرتی۔ یہاں آ کر اس قوم کی طاقت کا راز کھلا کہ استقلال اور سمندر کو مسخر کرنے کے جذبے نے اس قوم کو ایک وقت میں دنیا کی بڑی طاقت بنا دیا۔

(جاری ہے)

جو قوم مسلسل سمندر سے عالم جنگ میں ہو، اپنے رہنے کے لئے سمندر سے زمین چھین لینے کی صلاحیت رکھتی ہو، اسے کارآمد بنانے کے لئے پچاس سال انتظار کر سکتی ہو، جس کا Schipholایئرپورٹ سطح سمندر سے تیرہ فٹ نیچے ہو اوراس سے بھی نیچے انڈرگراوٴنڈ کا سٹیشن ہو، جس کے زمینی رقبے کا ایک چوتھائی حصہ سطح سمندر سے نیچے ہو، جس کے قابل کاشت رقبے کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ مستقل فصلوں کے لئے استعمال ہوتا ہو، پھر بھی اس کی زرعی پیداوار کا زرمبادلہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے بھی زیادہ ہو، وہ قوم تو سلیوٹ کی حقدار ہے نہ کہ الزام تراشی کی۔

تقریباً ہر ہفتے ہمیں فیلڈ ٹرپ پر لے جایا جاتا۔ سفر کے دوران ایسا بھی ہوتا کہ بیچ بیچ میں کبھی بس بیلجیم میں گھوم رہی ہوتی، کبھی لکسمبرگ میں اور دو موڑ کے بعد پھر نیدرلینڈز میں۔ ہم حیران ہوتے کہ نہ تو کسی نے بس روکی، نہ پاسپورٹ مانگا نہ ویزہ پوچھا اور ہم ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں آزاد پنچھیوں کی طرح۔ ماضی کے یہ دشمن صدیوں کی مارا ماری اور لمبی چوڑی چخ چخ کے بعد شنگن معاہدے کے بعد ایک ایسی لڑی میں پروئے گئے جو مزید موتیوں کی شمولیت کے بعد لمبی ہوتے ہوتے یورپین یونین کی شکل اختیار کر گئی۔
یوں تو پنجاب کے پانچویں حصے کے برابر ملک میں متاثر ہونے کے بہت سامان تھے، مگر جن تین باتوں نے خصوصاً ہمیں بہت متاثر کیا وہ تھے: Polders and Dykes کا نظام، کیٹل فارمز اور ٹیولپ کی کاشتکاری۔ Polders and Dykes کے نظام کے تحت ریت اور مٹی سے بند بنا کر رفتہ رفتہ سمندر کو پیچھے دھکیل کر سمندر سے زمین حاصل کی جاتی ہے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے۔سمندر سے چھینی گئی زمین کو کارآمد بنانے کے لئے چالیس سے پچاس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
فالتو پانی کو Dykes کے ذریعے سمندر میں پھینکا جاتا ہے اور high tides میں بند کے ذریعے سمندر کے پانی کو واپس آنے سے روکا جاتا ہے۔ گئے وقتوں میں اس مقصد کے لئے ونڈملز کو استعمال کیا جاتا تھا جبکہ آجکل اس کام کے لئے بڑے بڑے پمپ استعمال کئے جاتے ہیں۔ زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے ٹائل ڈرینیج کی مدد سے نمکین پانی پمپ کرکے dykes کے ذریعے مسلسل سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔
سب سے بڑا مر حلہ peat (دلدل کا کوئلہ) والی زمین کو قابل کاشت بنانا ہے جو مسلسل پمپنگ کے نتیجے میں مزید دھنستی چلی جاتی ہے۔ یہ قوم اس دھندے میں گزشتہ دو ہزار سال سے لگی ہوئی ہے۔ اس "کار لا حاصل" میں مسلسل شمالی سمندر (Noordzee) سے اور اب کچھ عرصے سے جنوبی سمندر سے (Zuiderzee) سے حالت جنگ میں ہے۔ اس لڑائی میں سمندر کے حصے میں تو کچھ اور نمکین پانی ہی آتا ہے جبکہ یہ 'قزاق' اپنے کل رقبے کا ستائیس فیصد رقبہ سمندر سے چھین کر اس پر رنگ برنگے ٹیولپ اگاتے ہیں، دساور کو بھیجتے ہیں، ڈالر کماتے ہیں اور اب بھی ایک وقت کا تتا کھانا (hot meal) کھاتے ہیں۔
ادھر ہم ہیں کہ ساٹھ سال میں بے حساب رقبہ سیم تھور کے حوالے کر کے کلمہٴ شکر ادا کرتے ہیں اور بوریا بستر اٹھا کر آگے چل پڑتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات اس ساری کہانی میں یہ ہے کہ ان کے اپنے پاس نہ مٹی ہے نہ ریت، ضرورت آباد کاری کے لئے ہو یا تعمیرات کے لئے، گوانڈیوں کے محتاج ہیں۔ سو جرمنی سے مٹی اور ریت جہازوں میں بھر کر لاتے ہیں دریائے رائن کے راستے۔
دو شاخے دریائے رائن کو گہرا کرکے اور جہاز رانی کے قابل بنا کر انہوں نے سیلاب کے خطرے کو نہ صرف ختم کر دیا ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کا بہتر متبادل نظام بھی بنا لیا ہے۔ ہم بھی چاہتے تو یہ سب کچھ کر سکتے تھے۔ امن کے محدود زمانوں میں فوج کی منظم مین پاور کے کچھ حصے کو باری باری دریاوٴں کو گہرا کرنے پر لگا دیتے تو سیلاب کے خطرات سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتے، سپاہی بھی خندقیں کھودنے اور پھر پاٹنے کی ایکسرسائز کی بجائے کچھ پروڈکٹو کام کرتے، افسران بھی ترقیاتی عمل کا حصہ بنتے اور شاید اس عمل کے ذریعے ہم کچھ اور قسم کی سرگرمیوں سے بھی محفوظ رہتے۔
قدرتی بہاوٴ (flow) کے ذریعے سیم کے مسائل سے بھی کسی حد تک عہدہ برآ ہو جاتے۔ یہ نہیں کہ ہم نے اس مین پاور کو بالکل ہی استعمال ہی نہیں کیا۔ کیا ہے، مگر کبھی محصول چونگی اکٹھا کرنے کے لئے اور کبھی کھالوں کی بھل صفائی کے لئے۔ اس سے آگے کی سوچ ہم میں تھی ہی نہیں، اور یوں وہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ ہمارے مزاج میں تعمیر سے زیادہ تخریب کا جذبہ ہمیں ایک دوسرے کو 'واصل جہنم' کرنے کے دھندے پر لگائے ہوئے ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles