Bhalwal Se Wakhnangan Episode 8 .... RangoN Kay Sath Sath - Article No. 1392

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 8 .... RangoN Kay Sath Sath

بھلوال سے واخننگن قسط 8 ۔۔۔۔۔۔ رنگوں کے ساتھ ساتھ - تحریر نمبر 1392

جتنا نظم ہم نے وہاں کی فریزیئن گایوں میں پایا اس سے کہیں کم ہمارے انسانوں میں ہوتا تو ہم بھی آج ایک منظم قوم کہلانے کے حقدار ہوتے

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ پیر 24 جولائی 2017

وہ ایک سہانی روشن صبح تھی جو سِنڈی کو دیکھ کر مزید روشن ہو گئی۔ عموماً ہفتے کے دن وہ چھٹی کرتی تھی مگر اس روز وہ نہ صرف ناشتے پر موجود تھی بلکہ زاد راہ کے لئے کافی کا ایک اضافی کپ بھی بنا لائی۔ شکر ڈالنے لگی تو انجم بولا "پانچ ڈال دو، باقی میں خود ڈال لوں گا"۔ اس سے پہلے کہ اس کی پُتلیاں مزید پھیلتیں، میں نے کہا "میرے کپ میں بس انگلی ہلا دینا، حساب برابر ہو جائے گا"۔

وہ کتنی حیران ہوئی یہ تو وہی جانتی ہو گی مگر ہمیں حیرت اس وقت ہوئی جب وہ بھی ہماری بس میں سوار ہو گئی۔ جانے یہ pre-arranged تھا یا محض اتفاق کہ وہ البرٹو کے ساتھ خالی نشست پر جا بیٹھی۔ البرٹو پہلی بار مجھے برا لگا۔ کوئی بوہا چھوڑتا ہی نہیں کم بخت، وڈا آیا کاسترو کا پُتر۔ ادھر میرے ساتھ بیٹھے انجم نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا گویا میں ہی وصالِ یار میں آخری رکاوٹ تھا، جیسے میں نہ ہوتا تو اس کا چانس روشن تھا۔

(جاری ہے)

کچھ دیر تو پوری بس پر حیرتوں کا غلبہ رہا مگر جونہی ہائی وے کے دونوں جانب قوس قزح کے رنگ بکھرنے لگے اور سب کے اوسان بحال ہوئے تو مسٹر جسپر کے اسسٹنٹ برٹ نے برتھ ڈے کیک سامنے رکھ کر مائیک پکڑ لیا "مہربانو، قدردانو، ایک اعلان، آج ایک دلربا کی سالگرہ ہے، سب مل کر بولو ہیپی برتھ ڈے، مگر ٹھہرو، پہلے ہر نیشنلٹی سے ایک ایک گانا، جس کا گانا سب سے زیادہ پسند کیا جائے گا، اسے وہ حسینہ اپنے ہاتھ سے کیک کھلائے گی اور---"۔
اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ سکور کارڈ وہ پہلے سے بنا کر لایا ہوا تھا، کرنا صرف یہ تھا کہ پسندیدہ تین ملکوں کی رینکنگ کرنی تھی۔ مقابلہ شروع ہوا، کئی رنگ، کئی سُر، کئی پاٹے ڈھول سننے کو ملے۔ ہماری باری آئی، ملک حمید خوبصورت آواز کے مالک تھے۔ مجھے یقین تھا ان کا کوئی مقابلہ نہیں، مگر انجم چانس مِس نہیں کرنا چاہتا تھا، بڑی مشکل سے اسے سنبھالا۔
ملک صاحب نے مائیک ہاتھ میں لیا اور گانا شروع کیا "اے ننھی سی فرشتی، تجھ سے یہ کیسا ناتا، کیسی یہ دل کی بستی، اے ننھی سی فرشتی، ھیپی برتھ ڈے ٹو یو" ملک حمید نے دل نکال کر سامنے رکھ دیا۔ ان کی آواز کے جادو سے تو میں واقف تھا مگر موقع کی مناسبت سے جو کھیل وہ لفظوں سے کھیل گئے، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ سب اپنی سیٹوں سے اٹھ کر تالیاں بجا رہے تھے۔
علینا کا گلال چہرە بتا رہا تھا، سجناں ایہہ محفل اساں تیرے لئی سجائی اے۔ آخر وہی ہوا جس کا اندازہ تھا۔ ملک حمید کی آواز نے قومی پرچم بلند کر دیا۔ جنم دن والی کے ہاتھوں کیک کے بڑے ٹکڑے کے علاوہ ایک کس اور ایک ہگ ملک صاحب کو بونس میں ملے۔ شاید یہی وہ انعام تھا جو برٹ نے اعلان میں ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ اس پر انجم کا قدرت سے شکوہ بے جا نہ تھا "ربا تیرا کیہ جاندا سی جے ساڈے گلے وچ بھگوان دا بچہ ای رکھ دیندا"۔
ڈیلف کا انسٹیٹیوٹ آف ہائیڈرالکس اینڈ انوائرمنٹل انجینئرنگ ہمارا پہلا پڑاوٴ تھا۔ جتنا تعارف درکار تھا وہ ہمیں پہلے سے تھا اس لئے ان کے مزیدار لنچ کے بعد زیادہ وقت زیر تعلیم پاکستانی دوستوں سے گپ شپ لگانے میں گزرا یا قریب کی دکانوں میں وہاں کے قدیمی نیلے پھولوں والے برتن دیکھنے میں۔ عظیم تر قومی مفاد میں خریداری میں زیادہ دلچسپی نہ لی کہ اپنے ملتان میں یہی مال بنتا اور ملتا ہے۔
ہوا چکی کا ایک ماڈل یہاں کی نشانی کے طور ضرور لے لیا۔ سِنڈی وہاں ہمیں چھوڑ گئی۔ آج پہلی بار اس کے جانے پر تسکین کا احساس ہوا مگر اس میں 'حب سِنڈی' سے زیادہ 'بغض البرٹو' کو دخل تھا۔ اگلی منزل ٹیولپ کی کاشتکاری کے لئے زمین کی تیاری کا مشاہدہ کرنا تھا۔ زمین کیا تھی سیاہ راکھ تھی جس میں پاوٴں دھنس رہے تھے۔ اس "ناتراشیدہ" زمین میں ٹائل ڈرینیج بچھانے کا کام جاری تھا۔
سوراخ دار پلاسٹک پائپ excavators کے ذریعے مقررہ گہرائی پر زمین کے نیچے بچھائے جا رہے تھے تاکہ زیر زمین پانی کو ایک خاص سطح تک برقرار رکھ کر ٹیولپ کی کاشتکاری کے قابل بنایا جا سکے اور فالتو پانی کو sump سے پمپ کرکے براستہ dykes واپس سمندر کو دان کیا جا سکے۔ اس پر فی ہیکٹر پچیس ہزار ڈالر کی لاگت کو ٹیولپ کی کاشت سے تین چار سال میں سود سمیت وصول کر لیا جاتا ہے اور اگلے سات سال منافع ہی منافع کہ اس کے بعد peat soil کی وجہ سے پائپوں کا دم گھٹ جاتا ہے اور پھر نئے سرے سے سارا سیاپا۔
ہم جو سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لئے بھی حکومتی مدد کے منتظر ہوتے ہیں، یہ جان کر جیتے جی مر گئے کہ یہ خرچہ زمیندار خود کرتے ہیں۔ یہ حیرانی کی بات تھی، پریشانی کی اس لئے نہیں کہ پاکستان وہ وکھری ٹائپ کا ملک ہے جہاں کاشتکاروں کی زرعی ضروریات کی قیمتوں کا تعین فروخت کنندہ کرتے ہیں اور ان کی پیداوار کی قیمتوں کا تعین خرید کنندە۔ گویا کاشتکار ہر حال میں اوروں کے رحم و کرم پر ہیں یعنی چُنیں بھی کسی کی چُناں بھی کسی کی۔
کیٹل فارم پہنچے تو سہ پہر ہو چکی تھی۔ بیک ہوم ہوتا تو کب کا قیلولہ فرما رہے ہوتے۔ دفتروں میں سارا دن گپیں ہانکنے اور سیاست لڑانے کے بعد بدن بیچارے کو بھی آرام کی کچھ ساعتیں تو درکار ہوتی ہیں۔ مگر یہ بیک ہوم نہیں تھا اور یہاں ہم مسٹر جسپر اور برٹ کے رحم و کرم پر تھے۔ فارم مالکان کے سٹنگ روم میں لینڈ کیا تو پہلے سے چائے کافی کا سامان تیار دیکھ کر کچھ تسلی ہوئی۔
کافی کا کپ لے کر ٹیرس کا رخ کیا تو منظر دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ نیچے dyke بہہ رہی تھی جس کے کنارے تاحد نظر ہوا چکیاں قطار در قطار عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔ بیچ بیچ میں ٹیولپ کے پھولوں کی رنگ برنگی سیج بچھی تھی۔ نچلی منزل پر شاید بیڈ رومز تھے جن کے ساتھ گھاس کے تختے پر بطخیں قیں قیں کر رہی تھیں۔ پچھلی جانب بہت بڑی خاردار تاروں میں گھری چراگاہ۔
یہ فارم بھی تھا، فام ہاوٴس بھی، گایوں اور گھوڑوں کا فارم بھی، چلر بھی اور کمیونٹی سنٹر بھی۔ مختصر سی بریفننگ کے دوران ہمیں بتایا گیا کہ سو سے زیادہ گایوں کا یہ فارم وہ دو میاں بیوی مل کر چلاتے ہیں بغیر کسی ہیلپر کے۔ یہی نہیں میاں صاحب طویل عرصہ سے مِلک پروڈیوسرز کی کوآپ سے وابستہ ہیں اور اپنی صدارت کے زمانے میں دودھ کی قیمت کے تعین کے معاملے میں مل مالکان کو ناکوں چنے چبوا چکے ہیں۔
موضوع میری دلچسپی کا تھا اور اپنے کاشتکار طبقے کی حالت زار سے باخبر ہونے کی بنا پر میں سارا dynamics سمجھنا چاہتا تھا۔ پہلے ہوتا یہ تھا کہ فارمز والے مل مالکان کے رحم و کرم پر تھے جو اپنی مرضی کی قیمت پر اور ضرورت کے مطابق دودھ خریدتے۔ کچھ درد مندوں نے منظم ہونے کی کوشش کی تو مل والوں نے صنعتکاروں والے حربے اختیار کرنا شروع کر دیئے۔
طویل اور صبر آزما مراحل آئے جس میں مل مالکان کو دودھ کی فراہمی بند کرنا، شہروں میں براہ راست کنزیومرز کو دودھ فروخت کرنا اور فالتو دودھ سستی قیمت پر بیچنے کی بجائے dykes کے حوالے کرنا جدوجہد کا حصہ قرار پایا۔ جب نیسلے ایسی بڑی کمپنیاں خام مال نہ ملنے کی بنا پر طویل مدت کے لئے بند ہوئیں تو مصالحت کی راہیں کھلتی گئیں۔ علاقائی کوآپریٹوز تشکیل پائیں، کیٹل فارمز والے حصە بقدر جثہ کے اصول پر حصہ دار بنے، ہر کسی کا کوٹا مقرر ہوا، کوٹا قابل تبادلہ قرار پایا۔
مویشی مالکان اب مل مالکان کے بجائے اپنے جیسوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ فارمز میں چلرز لگے ہوئے ہیں، متعلقہ مل کی گاڑی ہفتے میں دو بار آ کر مقررہ قیمت پر کوٹا کے مطابق دودھ لے جاتی ہے۔ دودھ کوٹے سے زیادہ ہو تو اب بھی dyke کے پانی کے کھارے پن کو کم کرنے کے کام آتا ہے۔ میں نے سوال کیا "کبھی قیمت کم کرنے کی نوبت بھی آئی؟"۔ جواب نے میری آنکھیں کھول دیں "جب تک ہمارے ملک میں dykes موجود ہیں اور ہم میں اتحاد ہے، دودھ کی قیمت ہماری مرضی کے مطابق مقرر ہوگی"۔
میں سوچنے لگا کیا کبھی ہمارے ہاں بھی ایسا ممکن ہے؟ غیب سے جواب آیا، جب تک ہمارے کاشتکار کے یہ تیور نہیں ہوں گے تب تک نہیں۔ سوال ابھی اور بھی تھے مگر اچانک گھڑی کی طرف دیکھ کر دونوں میاں بیوی کھڑے ہو گئے" ہماری شہزادیاں ہمارے انتظار میں ہیں، باقی باتیں بعد میں"۔ شیڈ میں پہنچے تو واقعی شہزادیاں باہر پھاٹک سے لگی انتظار کر رہی تھیں دودھ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے۔
اور جب پندرہ بیس لٹر دودھ کا بوجھ اٹھا رکھا ہو تو گایوں کی بے چینی سمجھ میں آنے والی ہے۔ بیگم کنٹرول پینل پر بیٹھ گئی اور میاں نیچے گایوں کے پاس۔ ایک ایک کرکے گائیں آتی گئیں بغیر کسی بھگدڑ کے اور دودھ مشینی گوالے کے حوالے کرکے اپنی اپنی جگہ شب بسری کے لئے اور دودھ پائپوں کے ذریعے چلر میں۔ جتنا نظم ہم نے وہاں کی فریزیئن گایوں میں پایا اس سے کہیں کم ہمارے انسانوں میں ہوتا تو ہم بھی آج ایک منظم قوم کہلانے کے حقدار ہوتے۔
شیڈ کا مختصر سا راوٴنڈ لگانے کے بعد ہمیں رہائش کے نچلے حصے میں ایک کمرے میں لے جایا گیا جو گایوں کا لیبر روم تھا اور براہ راست مالکان کے بیڈ روم سے جڑا ہوا تھا۔ بیڈ روم سے video surveillance کے ذریعے ضروری سازوسامان سے آراستہ لیبرروم میں داخل مریضہ ہمہ وقت زیر مشاہدہ رہتی ہے اور اس کو بر وقت زچگی میں مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہمارے لئے ابھی حیرتوں کے اور بھی سامان وہاں موجود تھے مگر وقت کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے مسٹر جسپر نے واپسی کا بگل بجا دیا۔
راستے میں اُترخت (Utrecht) میں ہمیں دو گھنٹے ڈنر اور سیر و تفریح کے لئے دیئے گۓ، اس ہدایت کے ساتھ کہ یہاں کا Floating Brothel دیکھنے کی چیز ہے۔ یہ نہ بھی بتایا جاتا تو بھی انجم ہمیں اپنے یوروپین تجربے کی روشنی میں شہر کے مرکزی گرجا گھر کے آس پاس کے علاقے میں لے جانا کبھی نہ بھولتا جہاں بہت لوگوں کے دکھوں کا مداو کرنے کے لئے دساور کا مال بھرا ہوتا ہے۔
اسی بہانے ہمیں بنکاک میں گزرا زمانہ یاد آ جاتا کیونکہ ہر جگہ تھائی لینڈ کی سب سے بڑی Export Commodity بکثرت پائی جاتی تھی۔ رات گئے واپس پہنچے تو کمرے کے باہر پاکستان سے آنے والی مسڈ کالز کی لمبی فہرست لٹکی ہوئی تھی اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی کہ اگلے فون کا انتظار کرو۔ انتظار کیا ہوتا ہے اس کا صحیح معنوں میں احساس پہلی بار اسی روز ہوا، کئی وسوسے، کئی اندیشے۔ بات ہوئی، جواب میں تو تسلی کے دو بول کہہ دیئے مگر مجھ نیند کے متوالے کی بھی رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ صبح تک میں فوری واپسی کا فیصلہ کرکے مطمئن ہو گیا۔ مگر کیوں؟ یہ کہانی پھر سہی

Browse More Urdu Literature Articles