Bhalwal Se Wakhnangan Episode 9 .... Hum Kisi Se Kam NahiN - Article No. 1395

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 9 .... Hum Kisi Se Kam NahiN

بھلوال سے واخننگن قسط 9 ۔۔۔۔۔۔ ہم کسی سے کم نہیں - تحریر نمبر 1395

میرے گیسٹ روم سے منسلک غسل خانے سے اس جانب ہونے والی مشکوک سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جا سکتا تھا اور یہی ہوا۔ میری بے غم کمرے کی صفائی کروا رہی تھی کہ میرا نام سن کر اس کے کان کھڑے ہوئے

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ منگل 25 جولائی 2017

ناشتے کے لئے ملک حمید نے دستک دی تو میری صبح کہہ رہی تھی مری رات کا فسانہ۔ میں کوئی بات خود سے پوشیدہ رکھ سکتا ہوں ملک حمید سے نہیں۔ ڈائننگ ٹیبل پر ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کہاں سے بات شروع کروں کہ سنڈی بول پڑی "رات کس کے ساتھ گزاری ہے، تمہارے منہ پر اب تک رات کے بارہ بجے ہوئے ہیں؟" جلا بھنا ہوا تو میں پہلے سے تھا، بھنا اٹھا "البرٹو کے ساتھ"۔

سنڈی سمجھی یا نہیں لیکن رفوچکر ضرور ہو گئی اور یہی میں چاہتا تھا۔ میں نے ملک حمید کو براہ راست اپنا فیصلہ سنا دیا کہ میں پہلی فلائٹ سے واپس جا رہا ہوں۔ "خیر تو ہے، رات تک تو تم ٹھیک تھے، رات کوئی القا ہوا ہے کیا؟" "منہاجی چوکھٹ پر سجدہ ریز ماتھے نے کام دکھا دیا ہے۔" دراصل اس کلاوٴن نے میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر میری ٹرانسفر کرا دی تھی اور میری جگہ حیدرآباد سے ممتاز بریڑو کے آرڈر کروا دیئے۔

(جاری ہے)

اگرچہ وہ مجھے تو حیدرآباد بھجوانے میں کامیاب نہ ہو سکا لیکن---- میرے اور اس بے چین اور ہر آن بڑبڑاتی روح کے بنگلوں کے بیچ دیوار نہیں تھی۔ میرے گیسٹ روم سے منسلک غسل خانے سے اس جانب ہونے والی مشکوک سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جا سکتا تھا اور یہی ہوا۔ میری بے غم کمرے کی صفائی کروا رہی تھی کہ میرا نام سن کر اس کے کان کھڑے ہوئے۔ فون تو اس زمانے میں اتنے عام تھے نہیں، اس لئے اس نے جو سنا اس سے مجھے آگاہ کرنے کے لئے اسے سرگودھا جانا پڑا۔

بے چین روح کسی سے کہہ رہی تھی: "بریڑو تم مان جاوٴ، آرڈر میرے پاس ہیں۔ میں ابھی اسے سٹینڈ ریلیوڈ کرتا ہوں اور اس کے آنے سے پہلے اسے حیدرآباد نہ پہنچایا اور دو دنوں میں اس کا بنگلہ تمہیں نہ دلوایا تو میرا نام ک ۔۔ سے رکھ دینا اور پھر ہم تم ہوں گے جنگل ہوگا، جنگل میں پھر منگل ہوگا۔" "نہیں سئیں پراچہ میرا دوست ہے، کئی بار میرے کام آیا ہے، میں اس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا۔
سئیں تم سے بھی کہوں گا کہ وہ کام کا بندہ ہے اسے لوز مت کرو۔ وہ ٹیڑھی انگلی والا آدمی نہیں ہے اور اس کے آنے سے پہلے بنگلہ خالی کرانے کا سوچنا بھی نہیں۔" یہ ممتاز بریڑو تھا۔ مرحوم کی شہرت تو کچھ اور طرح کی تھی مگر میرا ایسا دوست کہ جو کہا اس نے مان رکھا۔ میں نے اور بریڑو نے دو تین کورس اکٹھے کئے تھے اور دوست حیران ہوتے تھے کہ تمہارے پاس ایسی کون سی گیدڑسنگھی ہے کہ بریڑو جیسا شخص تمہارے اشاروں پر چلتا ہے۔
اب میں کیا کہتا سوائے اس کے کہ شاید تم لوگ اس کو سمجھے ہی نہیں۔ یہی کچھ بتانے کو میری بے غم نے فون کیا تھا۔ میں نے بے غم کو تو 'غم مکو' کہہ کر چپ کرا دیا مگر میری نیند اس لئے حرام ہو گئی کہ میں خود وہاں نہیں تھا اور پالا ایک کمینے سے پڑا تھا۔ بے غم کو البتہ میں نے کہہ دیا تھا کہ آنکھیں کھلی رکھنا اور 'صورت حال بگڑے تو آپ کا پہلا اور آخری جواب ہونا چاہیے Get Lost، جو کہنا ہے اسے کہو۔
آپ اپنے گھر میں بیٹھی ہو اور گھر میں تو بلی بھی شیر ہوتی ہے۔ بھلوال تین، بھیرہ بیس اور سرگودھا صرف پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔"

میں نے دفتری سیاست میں حتی الوسع ملوث نہ ہونے اور دفتر کے مسائل گھر کے اندر نہ لانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کے باوجود شام کے بعد سارا دفتر میرے گھر بھی گھس آتا اور مجھ پر ایسے ایسے دفتری راز افشا ہوتے کہ میں اپنی لاعلمی پر حیران ہوتا۔

یہ سارے انکشافات خاتون خانہ شام کی سیر سے واپسی پر خواتین کی یونائٹڈ نیشنز سے لے کر آتیں۔ شاید سبھی ایسے دفاتر جہاں رہائشی کالونی کے اندر ہی دفاتر ہوں ایسا ہوتا ہو مگر یہاں یہ اپنے عروج پر تھا۔ وہاں ہوتے ہوئے تو ہمیشہ میں نے اس صورت حال کو ناپسند کیا تھا مگر اب میں نے خاتون خانہ کو خصوصاً پابند کیا کہ شام کی سیر کو باخبر رہنے اور اپنا مدعا آگے پہنچانے کے لئے کام میں لاوٴ۔
پہلی بات جو اس نے پھیلائی وہ یہ تھی "دیکھتے ہیں کون پہلے جاتا ہے، ویسے ہم تو بچوں کے امتحان کے بعد ہی جائیں گے" (امتحان میں ابھی پانچ ماہ باقی تھے)۔ پیغام کا مقصد حاصل ہو گیا۔ بریڑو نے Arrival Report دے کر واپس لے لی، مگر اس دوران مجھے خلاف قاعدہ Stand Relieved کر دیا گیا، مجھے پتہ چلا تو میرا جواب تھا So what۔ ٹی بریک کے دوران ملک حمید کو بتا کر KLM کے دفتر چلا گیا۔
دو دن بعد کراچی براستہ جدہ فلائٹ پر جگہ ملی۔ قلق اس لئے ہوا کہ ہم واپسی پر عمرہ کا پروگرام بنا کر آئے تھے لیکن ۔۔۔

لنچ کے بعد کلاس میں پہنچے تو مسٹر جسپر اور برٹ پہلے سے کلاس میں موجود تھے۔ جسپر نے سب کو خوشاب سکارپ کے بارے میں مختصر سے تعارف کے بعد بتایا کہ "ہالینڈ کی کمپنی یوروکنسلٹ اس کی کنسلٹنسی کی ذمہ دار ہے۔ مگر ہمارے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کورس کے ایک شریک کو پراجیکٹ میں کوالٹی کنٹرول کی اہم ذمہ داری کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔

چونکہ پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے اس لئے ہم نے پاکستان میں اپنے نمائندے سے کہہ دیا ہے کہ واپڈا کے حکام سے رابطے میں رہ کر ان احکامات کے عمل درآمد کو یقینی بنائے۔" اس سے پہلے کہ جسپر کچھ اور کہتا، میں نے اس کی نیک خواہشات کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ "موجودہ صورت حال میں میرے لئے کورس جاری رکھنا مشکل ہے، اس لئے میں ابھی ابھی دو دن بعد کی واپسی کی سیٹ کنفرم کروا کے آ رہا ہوں۔
" مسٹر جسپر نے میری بات کو یہ کہہ کر یکسر رد کر دیا کہ ٹکٹ اور پاسپورٹ تو ہمارے پاس ہیں، ان کے بغیر جانا چاہو تو بے شک چلے جاوٴ۔ پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے والی اس صورت حال کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا، سو وہی کیا جو کیا جا سکتا تھا یعنی انتظار اور خود کو تسلی دینے کی کوشش۔

خاتون خانہ باقاعدگی سے مجھے update کرتی رہی۔

اس نے خوشاب میں بھی ایک رپورٹر تلاش کر لیا جو وہاں ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کرتا رہا اور ہمارے نقطہٴ نظر سے فرضی شگوفے بھی چھوڑتا رہا۔ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (پراجیکٹ کنٹریکٹر) کے کرنل نیاز اور وہاں کے سیاسی لوگ تبادلہ رکوانے کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ واپڈا کے متعلقہ حلقے کیا کارروائیاں کر رہے ہیں؟ کون خوش ہے، کون نالاں؟ منہاجی چوکھٹ پر سجدہ ریز ماتھا کیا حرکتیں کر رہا ہے؟ سب تفصیل مجھے ملتی رہی۔
ویسے وہ کر بھی کیا سکتا تھا سوائے ہراساں کرنے کے، سو کرتا رہا۔ تنخواہ اس نے بند کروا دی، میرے گھر کام کرنے والے ریاض نامی ملازم کا اس نے تبادلہ کر دیا۔ یہ میرے بچوں کی طرح تھا اور تب سے میرے ساتھ تھا جب اس کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں اور چھ روپے چالیس پیسے یومیہ اجرت پر ملازم ہوا تھا۔ آفرین ہے اس شخص پر کہ اس نے تربیلا جانا گوارا کر لیا مگر کسی اور کے گھر کام کرنا پسند نہ کیا۔
خاتون خانہ نے نہ صرف ہمت سے صورت حال کا مقابلہ کیا بلکہ مجھے بھی تسلی دیتی رہی کہ کورس ختم کرنے سے پہلے نہ آنا۔ مجھے عبداللہ خان مرحوم یاد آ گئے۔ وہ تب پراجیکٹ ڈائریکٹر تھے جب مجھے امریکہ جانے کا موقع ملا۔ مرحوم نے مجھے تب جانے دیا جب انہیں میری سخت ضرورت تھی۔ مرحوم اس باپ کی طرح تھے جو سامنے تو بیٹے کو شیر کی نگاہ سے دیکھتا ہے مگر غیر موجودگی میں اس کے گن گاتا ہے۔
ان سے میرے مراسم مناسب ہی تھے مگر میری غیر موجودگی میں انہوں نے میری فیملی کو کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں شاید یقین نہ کریں کہ وہ میرے بیٹے نعمان کو، جو تب چھ سال کا تھا، باقاعدہ بلوا کر کمپنی دیتے تھے بلکہ لاہور جاتے ہوئے اپنے گھر کی چابی اسے دے جاتے تھے تاکہ بوقت ضرورت ٹیلی فون استعمال کر سکیں۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو تھا جس سے کم از کم میں ناآشنا تھا۔
سچ ہے انسان چلے جاتے ہیں اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات بھی یادگار تھی جو ان کے مزاج کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ میں ماسٹرز کی ریسرچ کے لئے بنکاک سے آیا تو انہیں پراجیکٹ کا چارج سنبھالے کچھ عرصہ ہو چکا تھا۔ میں ملنے گیا تو ڈانٹ ڈپٹ چل رہی تھی۔ دو تین بار نائب قاصد نے بتایا کہ باہر دھوبی انتظار کر رہا ہے مگر انہوں نے توجہ نہ دی۔
اتنے میں اندر کا ماحول کافی بہتر ہو چکا تھا۔ جب نائب قاصد نے ایک بار پھر دھوبی کی جانب توجہ دلائی تو کہنے لگے "میں نے اسے ڈانٹنے کے لئے بلایا تھا مگر میرا آج کا ڈانٹ کا کوٹا ختم ہو گیا ہے، اسے کہو پھر کبھی آئے۔"

وقت سے پہلے واپس جانا کالعدم ہو گیا مگر ابھی دل ادھر ہی اٹکا تھا کہ ہالینڈ کوئز کا غوغا شروع ہو گیا۔ یہ کوئز ایک سالانہ روایت تھی جس کا مقصد جملہ participants کو اپنے ملک سے متعارف کروانا تھا۔

مقابلہ تمام انسٹیٹیوٹس کی ٹیموں کے درمیان ہوتا تھا۔ معلوم نہیں مجھے کس نے دھکا دیا مگر مجھے، محمود مصری اور البرٹو کو اپنے انسٹیٹیوٹ کی نمائندگی کے لئے منتخب کیا گیا۔ ممکنہ سوالات اور جوابات کی فہرست اور کچھ کتابیں اور پمفلٹ تھما کر گویا ہمارے منتظمین اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو گئے جبکہ ہم دیکھ رہے تھے دیگر کورس والے دن رات اپنی ٹیموں کی مالش اور پالش کر رہے تھے۔
اوپر سے ہم سے پچھلے اٹھارہ سال کا ریکارڈ توڑنے کی توقع۔ پوچھا پچھلا ریکارڈ؟ بتایا گیا وہ تو مصلی کے پتر والا ہے، اب دیکھتے ہیں تم کیا تیر مارتے ہو۔ ادھر نہ تو ڈاکٹر ایم جی باس اور ڈاکٹر کائنے کی اسائنمنٹس میں کمی آئی نہ محمود یلے نے اپنی سرگرمیوں کا رخ بدلا، وہ ہر جانب سے مایوس ہو کر ان دنوں برمی ڈول کم پر ڈورے ڈال رہا تھا۔ البرٹو کا معاملہ البتہ زبان یار من کیوبن کہ من کیوبن نمی داند والا تھا۔
اوپر سے میری بے غم کے فون موسلا دھار بارش کی طرح برس رہے تھے، ہر روز نیا انکشاف، اب یہ ہو گیا، اب وہ ہونے والا ہے۔

ایک دن خود پر جبر کرکے کوئز کے مواد پر نظر ڈالی تو عجب سوال اور اس سے بھی عجب جواب، مثلاً،KLM کن ڈچ لفظوں کا مخفف ہے؟ جواب نے گھمن گھیری میں ڈال دیا، سیدھا سادە جواب تو تھا رائل ڈچ ایئرلائنز مگر وہاں لکھا تھا "کونی کلوچے لخت فارت مارت سخا پائی"۔

اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ اگلا سوال تھا ملکہ بیٹرس کے اورنج محل کے کتنے بوہے تے کتنیاں باریاں نیں؟ ہماری بلا سے۔ ایک اور سوال "اگر کسی صحن میں ٹائلٹ پیپر سوکھنے کے لئے لٹکے ہوئے ہوں تو آپ کا دھیان کس قومیت کی طرف جائے گا، جرمن، ڈچ یا بیلجیئن؟" اس سوال کے جواب میں ہاتھ تو ناک کی طرف جا سکتا تھا، دھیان ڈچ کی طرف نہیں --- اشارہ ان کی قومی خصوصیت 'کنجوسی' کی طرف تھا۔
"نیدرلینڈز کی قومی ڈش؟" جواب تھا "کترے ہوئے گنڈے اور اچار"۔ "دنیا کا بائیسکل کیپیٹل؟" فخریہ جواب "ایمسٹرڈیم"۔ "ملک میں میوزیم کی تعداد؟" کر لئو گل، ایک نہ دو "پورے ایک ہزار"۔ "وان گوگ کے فن پاروں کی تعداد؟" ہمیں کیا خبر، ہمارے ہاں تو ویسے بھی حرام ہے۔ جواب "دو ہزار سے زائد"۔ "نیو ایمسٹرڈیم کس مشہور شہر کا پرانا نام ہے؟" جواب "نیویارک جو کبھی ڈچ کالونی تھا"۔
"کون سے دو بڑے ممالک ڈچ کی دریافت ہیں؟"۔ جواب "آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ" وغیرہ وغیرہ۔ یہ ملک ہے یا حیرت کدہ؟ میں نے سوچا۔

آخر مقابلے کی گھڑی آن پہنچی۔ ہال کا جوش و خروش، نعرے، ہوٹنگ، یونیورسٹی کے زمانے کی پنجابی ڈیبیٹ کا سا ماحول۔ ادھر توقعات اور ادھر خدشات۔ کئی راوٴنڈ، کبھی پلڑا اوپر کبھی نیچے اور بالآخر نتائج کا اعلان ہوا اور میری توقعات کے برعکس ہم دوسری پوزیشن لے ہی گرے۔

مسٹر جسپر کی خوشی دیدنی تھی، پہلی بار ہمارا انسٹیٹیوٹ وکٹری سٹینڈ پر تھا۔ اتنے سال گزرنے کے بعد آج بھی جب کبھی میری بیٹی اپنا گورنر جنرل میڈل جھاڑ پھونک کے لئے نکالتی ہے، میں اپنا ٹھیپہ اس کے سامنے رکھ دیتا ہوں "اسے بھی چمکا دینا"، صرف یہ بتانے کے لئے کہ "ہم کسی سے کم نہیں۔"

Browse More Urdu Literature Articles