Bhalwal Se Wakhnangan Last Episode .... Khair Say Budhu Ghar Ko Aey - Article No. 1426
بھلوال سے واخننگن آخری قسط ۔۔۔۔۔۔۔ خیر سے بُدھو گھر کو آئے - تحریر نمبر 1426
عرفات کے میدان میں لے جا کر قیامت کا تصوراتی منظرنامہ بھی دکھایا اور مُزدلفہ میں کنکریوں والا بستر بھی جس پر بہت بعد میں شب بسری کا موقع آیا تو دیکھنے اور گزارنے کا فرق واضح ہوا
ظہیر پراچہ بدھ 9 اگست 2017
ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ واپسی کا سوچ کر پاؤں ایک ایک من کے ہو گئے۔ ناشتے کی میز پر دلوں کی بے چینی مزید سوا ہو گئی۔ ٹیکسی ملنے سے پہلے ہی طے پا گیا کہ عقل کی پاسبانی اپنی جگہ لیکن کبھی کبھی دل کی امامت بھی قبول کر لینی چاہئے۔ دن بھی اپنا ہے رات بھی اپنی۔ چند پہر نیند کی قربانی دیارِ حبیبؐ میں چند پہر اور گزارنے کے لئے کوئی بڑی قیمت تو نہیں۔
فیصلہ آسان ہوا تو واپس ہوٹل جا کر کاؤنٹر کلرک کی مہربانی سے چند گھنٹوں کی مزید مہلت مل گئی۔ ظہر کے وقت تک کمر سیدھی کرنے کے بعد کاؤنٹر پر سامان رکھا اور پھر سے مسجدِ حبیبؐ جا پہنچے، اس صدا کے اثر میں جس کی تاثیر کے بارے میں علی اکبر عباس نے کہا تھا "سورج کی کرنیں بھی جس کو آدھا گھیریں" ایک صدا نے اس کو پورا گھیر لیا حیّیَ عَلَی الصَلوٰة اور حیّیَ عَلَی الفَلاح کے بُلاوے پر چاروں جانب سے عُشاق دوڑے چلے آ رہے تھے، ہر رنگ و نسل کے، ہر خطے کے، ہر مکتب، ہر فرقے کے لوگ اپنی اپنی تفریق کو چھوڑ کر۔(جاری ہے)
عشا کی نماز تک ہم اسی گوشہٴ عافیت میں سرشار ہوتے رہے منبرِ رسول کے آس پاس، روضہٴ رسول کی دیوار کے ساتھ، عاشقانِ علم کے چبوترے پر۔
اور پھر چشم ِنم لئے الوداعی سلام کے لئے حاضری دے کر بوجھل قدموں کے ساتھ رخصت ہوئے۔ رات ہماری تھی تو اس کا فائدہ بھی اسی طرح اٹھایا جیسے اس کا حق ہوتا ہے یعنی میں سویا اور دنیا جاگی۔ ہمیں پچھلی شام کو پہنچنا تھا لیکن پہنچے اگلی صبح۔ جواز معقول تھا۔ جس ہوٹل میں کمرہ بُک اور سامان پڑا تھا اس نے سامان بھی لوٹا دیا اور پیشگی دیا کرایہ بھی مگر کمرہ رکھ لیا۔ کاروبار کا یہی 'اصول' ہر جگہ رائج ہے 'منافع اور زیادہ منافع'- اسی اصول کے تحت ہم پھر سڑک پر تھے۔ گواچی گاں کی طرح پھرتے دیکھ کر ایک پاکستانی ایجنٹ کو ہم سفید پوشوں پر ترس آ گیا اور ہمیں ایک کھولی نما کمرہ دلوا دیا مگر ہم پھر بھی اس کے ممنون تھے کہ کھولی بنگالی کے ہوٹل کے ساتھ اور بابِ فہد سے چار گام کے فاصلے پر تھی، کھڑکی نہیں تھی تو کیا ہوا ہم وہاں کون سا چاند دیکھنے گئے تھے۔ سامان رکھا اور عُمرہ کے لئے چلے گئے اسی جذبے، اسی ولولے اور تجربے کے ساتھ۔جمعے کا دن تھا اور کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ عجیب بات ہے رش زیادہ ہو تو جذبہ فزُوں ہو جاتا ہے اور کم ہو تو خُشوع میں خُضوع۔ فرائض اور واجبات سے فارغ ہوئے تو جمعہ کی آذان ہو گئی۔ احاطہٴ گیسُو تراشاں سے ایک بار پھر سہاگہ پھرانے کے بعد نکلے تو خطبہ شروع ہو چکا تھا۔
حرم کے اندر جانے کا موقع تھا نہ گنجائش، وہیں قریب ہی جگہ ملی مگر یہ بھی بہت تھا کہ مل گئی۔ ابھی کھولی میں پہنچے ہی تھے کہ فدا حسین کی قیادت میں بھلوالی قبیلہ لینے آ گیا۔ وہ اس جگہ کیمپ گزیں تھے جہاں آج کل عزیزیہ آباد ہے، جمرات کے قُرب میں۔ اسی حوالے سے وہ ایک دوسرے کو شیطانی قبیلہ کے اراکین گردان رہے تھے۔ سبھی تپتی ریت سے اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر چننے آئے ہوئے تھے۔ وہ سب انہی تعمیراتی سرگرمیوں کا حصہ تھے جس کے ذمے عزیزیہ کے نام سے نئی بستی کی تعمیر اور منیٰ اور جمرات کے علاقوں میں آسانیاں پیدا کرنا تھا۔ بستی تعمیر بھی ہو گئی اور آباد بھی جس کی سڑکوں میں، گلیوں اور عمارتوں میں ان سب کا پسینہ رچا ہوا ہے۔ اس حوالے سے وہ اب بھی وہاں موجود ہیں مگر معدوم پسینے کی صورت۔ان دوستوں نے وہاں اپنا اپنا بھلوال آباد کر رکھا تھا۔
اس روز ان چھڑوں کی آگ بھی جلی اور قسم قسم کے کھانے بھی بنے۔ انہی کے توسط سے پتھروں کا نشانہ بننے والے شیاطین سے دو بدُو ملاقات کا موقع بھی ملا اور اپنے اندر کے شیاطین سے موازنے کا بھی۔ عرفات کے میدان میں لے جا کر قیامت کا تصوراتی منظرنامہ بھی دکھایا اور مُزدلفہ میں کنکریوں والا بستر بھی جس پر بہت بعد میں شب بسری کا موقع آیا تو دیکھنے اور گزارنے کا فرق واضح ہوا۔ شکر گزاری کا احساس لئے رات گئے تحائف کے ساتھ لوٹے اور کھولی کا حصہ بن گئے۔ سن رکھا تھا فرض ادا ہو جائے تو اپنے اپنے لاہور کی تاہنگ شروع ہو جاتی ہے۔ یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ وہ سب یاد آنے لگے جو ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ اتنے دن ان کے بغیر جانے کیسے کٹ گئے تھے جنہیں دیکھے بنا نیند بھی نہیں آتی تھی۔ نیند آج بھی نہیں آ رہی تھی مگر ان کو پھر سے دیکھ سکنے کی خوشی میں۔صبح ربِ کعبہ کے حضور جھکنے، الوداعی طواف کرنے اور بنگالی کے پائے لسی کے ساتھ چڑھانے کے بعد جدہ واپسی ہوئی۔ دن پروفیسر غلام محمد ملک صاحب کی مسکراتی مہمانداری میں گزارنے کے بعد رات گئے لاہور روانگی ہوئی جہاں انتظار بھری کئی آنکھیں مسکراہٹیں لئے ہماری منتظر تھیں۔ اس سے آگے کی بات اگرچہ غیر متعلقہ ہے لیکن ضروری ہے۔ میری بے غم کا کسی قبولیت کی گھڑی میں کہا پورا ہو گیا، خوشاب کے لئے ہمارا سامان بندھنے سے کہیں پہلے منہاجی چوکھٹ پر سجدہ ریز ماتھا اپنی گٹھڑی اٹھا کر رات کی تاریکی میں رخصت ہو چکا تھا گویا سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔ رہے نام اللہ کا
Browse More Urdu Literature Articles
جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
Jab Masjid E Nabvi Ke Minar Nazar Aaye
وہ جو طُور ہے بہت دور ہے
Wo Ju Tor Hai Buhat Dour Hai
سفرِ کعبہ
Safr E Kabba
لاہور سے نتھیا گلی
Lahore Se NathiyaGali
کراچی سے کھٹمنڈو : دو دن کا ہوائی سفر
Karachi Se Khatmandu - 2 Din Ka Hawai Safar
قلعہ سِنگھنی، گوجر خان
Qilla Singhni - Gujjar Khan
یادیں سفر حجاز کی۔آخری قسط
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Last Qist
کراچی کا سفر - پانچویں قسط
Karachi Ka Safar - 5th Episode
یادیں سفر حجاز کی۔ قسط نمبر 7
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Qist 7
یادیں سفر حجاز کی۔قسط 6
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Qist 6
سفر حجاز: ایک ہندو جو مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی کا معلم بن گیا۔(قسط نمبر 4 )
Safar E Hijaz - Qist 4
کُسک فورٹ، چکوال
Kusak Fort Chakwal