Chand Din Almeda K Dyss Me - Article No. 1641

Chand Din Almeda K Dyss Me

چند دن امیلڈا کے دیس میں - تحریر نمبر 1641

گیارہویں/آخری قسط۔۔ تو کہ ہر عکس میں در آتی ہے صورت تیری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تجھ کو بھولے تو کسے یاد کریں گے ہم لوگ

پیر 25 دسمبر 2017

ظہیر پراچہ:
ڈاکٹر صاحب کی کھانے کی دعوت جیب میں ڈال کر اور ان کی خاتون اوّل کو تیاری کا مناسب موقع دے کر ہم پھر سے اپنے قبیلے کا حصہ بن گئے جو فاریسٹری ڈیپارٹمنٹ کے کمالات دیکھنے دکھانے کے لئے ہمارا منتظر تھا۔ پہاڑی پر کء موڑ مڑنے کے بعد پہنچے تو جنگل اپنے پورے جنگلی پن سے بانہیں کھولے ہمارا منتظر تھا۔ دسمبر کے مہینے میں یہ واحد جگہ تھی جہاں خْنک ہوا ادھر ادھر سر پٹخ رہی تھی اور بقول منور قریشی اردگرد ‘سبز اتنی پی کے جیسے زہر بیٹھی ہو زمیں’۔
بْو باس بھی وہی جو جنگلوں کا خاصہ ہوتی ہے۔ اگر یہ جنگل ہے تو وہ کیا تھا جو زرعی یونیورسٹی لائلپور میں تھا؟ خود سے سوال کرتے ہوں وہ ابتداء دن یاد آ گئے جب زرعی یونیورسٹی میں شعبہ جنگلات کا آغاز ہوا تھا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر شریف کی سربراہی میں گوبندپورہ سے یونیورسٹی آنے والی اْدھڑی سڑک پر پرنٹنگ پریس سے ذرا آگے ایک ڈی ٹائپ کوارٹر کے برآمدے میں پڑے گملوں میں پورا جنگل سمایا ہوا تھا۔

اصغر منیر سمیت دو تین دوست تب جنگلی ماہر بننے کے عمل سے گزر رہے تھے اور وہ بن بھی گئے جنگل کی دھوپ چھاوٴں کا حسن دیکھے اور اپنے اندر اتارے بغیر۔ جنگل کے ساتھ ہم نے وہی سلوک کیا جس کا وہ حقدار تھا۔ درختوں سے اٹھکیلیاں کرتے، خوشبو بھری ہوا سے خود کو سرشار کرتے اور مہ وشاوٴں کو باندری باندری کھیلتے دیکھتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
احساس تب ہوا جب کیمرے نے مزید تصویریں خود میں سمیٹنے سے انکار کر دیا۔ اونچاء سے ابھی یونیورسٹی کے کء مناظر ہمارے کیمرے میں سمٹے جانے کے منتظر تھے اور ہم اپنی کوتاہ دامنی کے باوصف بے بسی کی تصویر۔ اب یہاں مزید رکنے کا کوئی جواز نہ پا کر واپس اتر آئے۔ بس ایک بار پھر مین کیمپس پہنچی تو بس والوں سے جدا ہونے کا وقت آ گیا۔ بس انٹرنیشنل ہوسٹل اور ویمن ہوسٹل کے بیچ والی سڑک پر آئی تو میں اور ملک ‘بس بھئی بس’ کہہ کر بس سے اتر آئے کہ اس کے بعد ہمیں راستے بدلنے تھے۔
ہمارا رْخ اب انٹرنیشنل ہوسٹل کی طرف تھا جہاں کے کمرہ نمبر بارہ سے آئے منور قریشی کے خطوں میں لفظ بولتے اور خوشبو امڈتی تھی۔ اسی خوشبو کے تعاقب میں ہم جا رہے تھے۔ چھٹیاں نہ ہوتیں تو شاید لفظوں کو مجسم دیکھنے کا موقع بھی مل جاتا اور ان کی تلاش کا بھی جو مجھ سے قلمی دوستی کی متمنی تھیں۔ سڑک سے ہوسٹل کے کمرہ نمبر بارہ تک کا فاصلہ منور قریشی کے خطوں کے ٹوٹے اور شعر دہراتے لمحوں میں بیت گیا۔
میں کہیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ‘اگر میں چند جملے لکھ لیتا ہوں تو یہ منور کے انہی خطوں کا فیض ہے’۔ ‘ہمارے ہوسٹل کے ساتھ ہی ویمن ہوسٹل ہے لیکن اس کا وہ concept نہ لیں جو ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ لڑکے لڑکیاں آزادی سے ملتے ہیں (مجھے ابھی شامل نہ کریں) لیکن pollution اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی ہم لوگ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاسٹل سے کالج گیٹ اتنا ہی دور ہے جتنا طارق ہال سے گوبندپورہ۔
گیٹ کے باہر لزبانئس قصبے کا حصہ ہے، گوبندپورہ کی ہی طرح لیکن یہاں کیفے عظیم کی بجائے نائٹ کلب ہیں، بس یہی فرق ہے۔۔۔۔۔ میس بھی میرا مسلمانوں والا ہے، حالانکہ یہاں یہ چیز معجزہ ہے۔ یوں سمجھو بھاء! کہ یہاں آ کر مسلمانی عود کر آء ہے’۔ ‘اس مرتبہ آپ کا خط کسی ممی کے ہاتھ کی طرح سرد تھا کہ جتنی مرتبہ پڑھا، ایک جھْرجھْری سے طاری ہوء اور سب جذبات سرد! خط کیا خاک لکھا جاتا، مجھے تو اپنے سرد ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا لیکن بھلا ہو آپ کے ‘عزم سر دار’ کا کہ کام پھر چل نکلا ہے’۔
‘اگر آپ کو خط میں ڈالنے کے لئے کوء مصالحہ نہ ملے تو ملکی سیاست کی خبریں نشر کیا کیجے۔ اس چیز سے ہمیں یہاں دلچسپی رہتی ہے کہ اپنے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ بْگتی صاحب نے کیا بھْگتی؟ کھر صاحب کے کھْر پکے فرش پر ہیں یا کچے پر؟ خٹک صاحب آرام سے ہیں یا خٹک ڈانس کر رہے ہیں؟ ہمیں کبھی کبھی سفارت خانے سے دو ہفتے کا باسی اخبار مل جاتا ہے اور یقین کریں ‘جنگ’ سے لے کر ‘اس کے پڑھنے سے بہتوں کا بھلا ہو گا’ اور پرنٹ لائن تک سب پڑھ جاتے ہیں’۔
‘وہ جو آپ کے ہاتھ کی لکیر ہے نا وہ فلپائن کی ہی ہو گی کیونکہ میرے خیال میں میری یہاں موجودگی کا اگر آپ کو کوء فائدہ نہ ہو سکا تو پھر تْف ہی ہے۔۔۔ آپ جب فلپائن آئیں گے تو میری طرح کسی مشکل میں مبتلا نہ ہوں گے کیونکہ کافی لڑکیوں سے میں نے آپ کا غائبانہ تعارف ڈٹ کے کروا دیا ہے کہ یہ صاحب پاکستان کے ابھرتے ہوئے دانشور ہیں، دو ایک تو آپ سے قلمی دوستی میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں، ان کو پتہ بھی دے دیا ہے اور یہ بھی کہ دیا ہے کہ یہ صاحب خط تو لاجواب لکھتے ہیں اور بڑے ماہر قلمی دوست ہیں، اگلے سال ایم ایس کے لئے یہاں آ رہے ہیں، چنانچہ صاحب آپ کے لئے قبل از وقت ہی دیدہ و دل فرش راہ ہیں’‘۔
۔۔ میرے محبت ناموں کا جواب نہ آنے کا اگر یہی عالم رہا تو میں بطور احتجاج پاکستان واپس آ جاوٴں گا۔ اتنے پیارے خط میں اپنی محبوبہء دل نواز (اگر ہوتی تو) کو بھی نہ لکھتا، ادھر آپ ہیں کہ اینٹھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ بمہربانی جلد اچھا سا خط لکھئے کہ اچھی اردو کافی دن نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے میں کمزور پڑتا جا رہا ہوں۔ راتوں کو نیند بھی نہیں آتی۔
اب کیا آپ دشمنی ہی کئے جائیں گے؟’ ‘کون سی خطا کا بدلہ لے رہے ہیں آپ؟ آپ کو منانے کے لئے کیا ہنری کسنجر کا سفارتی مشن بھیجنا پڑے گا؟ میں نے فلپائن میں پہلا شعر کہا ہے، سنیے گا؟ تو کہ ہر عکس میں در آتی ہے صورت تیری تجھ کو بھولے تو کسے یاد کریں گے ہم لوگبہت کچھ ہے کہنے کو۔۔۔۔ مگر آپ پوچھیں بھی!’
پتھر سے تراشے ہوئے چہروں میں گھرا ہوں
میں اپنے ہی احساس کی دوزخ میں جلا ہوں
۔
۔۔۔۔۔۔۔
احساس آگہی کو بھی مر جانا چاہئے
شانوں سے اب یہ بوجھ اتر جانا چاہئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آتی جاتی رت کا ماتم زندہ ہوں جڑیں تو کیوں کیجے
جب ٹوٹ چکیں سوکھے پتے تو کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جانے کہاں ڈوبے مرے جسم کی ناوٴ
ہر سمت سے ہے مجھ پہ ہواوٴں کا دباوٴ
ساحل کو خبر ہو گی کہ سیلاب سے اس کو
کس درجہ ملی مٹی تو کس درجہ کٹاوٴ
تصویروں کی تقدیر ہیں کیلوں کی صلیبیں
مجھ کو کسی دیوار کے ماتھے پہ سجاوٴ
یہ جسم ہے صحرا میں تنے خیمے کی مانند
باہر بھی الاوٴ ہے تو اندر بھی الاوٴ
۔
۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ جھپکی نہ اندھیرا ہی کھلا تیرے بعد
زندگی بن گء اندھے کی دعا تیرے بعد
زمزمے اب وہ نہیں پہلی سی خوش طبعی نہیں
قہقہہ کوء نہ سینے میں بچا تیرے بعد
کھڑکیاں بند ہیں اور گاوٴں ہے سنسان پڑا
چیختی پھرتی ہے گلیوں میں ہوا تیرے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ہی خد و خال جو دیکھے تو جل گئے
کالک کا ہاتھ شیشوں کے چہروں پہ مل گئے
میرے بدن نے تھام لیا روشنی کا بوجھ
تم کو تمہاری شب کے تقاضے نگل گئے
سر پر بٹھا کے کر دیا سورج کے سامنے
پتوں کے ساتھ پیڑ عجب چال چل گئے
اک شاخ جل اٹھی تو اٹھا جنگلوں میں شور
کتنے درخت شہروں میں چپ چاپ جل گئے
۔
۔۔۔۔۔۔۔
بچھڑ گیا ہوں مگر یاد کے حصار میں ہوں
تری کشش ہے کہ اب تک ترے مدار میں ہوں
کسی بھی دھن میں سہی تو ادھر سے گزرے گا
میں مطمئن ہوں تری راہ کے غبار میں ہوں
مجھ بھْلکڑ کے ذہن کے جانے کس کس گوشے سے منور کے شعروں کا نزول ابھی جاری تھا کہ خود کو بارہ نمبر کمرے کے باہر پایا جس کے باہر تالہ منہ چڑا رہا تھا، نہ بھی ہوتا تو کیا ہوتا۔
وہ تو یہ کہتا پہلے ہی لوٹ چکا تھا
سیر جہاں میں کیا ہے کہ اس چھت تلے نہیں
اے دل بس اب تو لوٹ کے گھر جانا چاہئے
اور وہاں سے آگے ایسے سفر پر جہاں جانے والے کے پاس واپسی کا ٹکٹ نہیں ہوتا۔ سر جھکائے میں کتنی دیر تک اس کی یادوں میں، اس کے لفظوں میں اسے تلاش کرتا رہا۔ میرا تو اس سے واسطہ تھا تعلق تھا، مجھ پر تو اس کا قرض تھا لیکن اعجاز ملک بھی اس کی موجودگی اسی شدت سے محسوس کر رہا تھا۔
بوجھل قدموں سے واپس لوٹتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر ڈاکٹر منظور کے باسمتی چاولوں کی مہک نہ بلا رہی ہوتی تو کچھ وقت اور اس کی یادوں کی نذر کیا جا سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اتنے قلیل وقت میں ہم غریب الدیار لوگوں کے لئے اتنا کچھ کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ انصاف نہ کرنا ہماری مجبوری بن گیا تھا۔ تھاء ماما کے سیمی دیسی کھانے کھا کر تقریباً ایک سال سے ہماری زبان جس ذائقے سے نا آشنا ہو چکی تھی اس کی تجدید پر زبان اپنی طرف سے اور دل اپنی طرف سے ممنون تھے۔
ابھی ڈاکٹر صاحب کی میزبانی کے لئے اظہار سپاس بھی نہ کر پائے تھے کہ بس کی پاں پاں نے اٹھنے پر مجبور کر دیا اور پھر جو کہا چلتے چلتے کہا، سو ڈاکٹر صاحب باقی کا شکریہ آج وصول کر لیں۔ منیلا تک واپسی کا سفر سوچتے جاگتے اس احساس کے ساتھ بخیر گزر گیا کہ فلپائن کا آنا سپھل ہو گیا تھا منور کے الفاظ اسی کو لوٹاتے ہوئے کہا ”تجھ کو بھولے تو کسے یاد کریں گے ہم لوگ اب اس کے بعد جو ایک آدھ دن اور وہاں گزرا ان بیبیوں کے ساتھ سودا بازی کرتے گزرا جو ایکسپو سنٹر ٹائپ مارکیٹ میں کیلے کے ریشوں سے بنے فلپائن کے قومی لباس بارانگ تگالاگ اور دیگر علاقاء مصنوعات بیچ رہی تھیں۔
اس منہ ماری کا فیض دیگر ساتھیوں کو بھی پہنچایا مگر یہ راز کھولے بغیر کہ جو پٹھانوں کے ساتھ سودا بازی کر سکتا ہو وہ ہر کہیں بہتر نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ منیلا سے رخصت ہوئے تو پریٹی اور ہمجولیوں کی فوج ‘رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے’ کے روح پرور سلیقے سے ہمیں الوداع کہنے کو ائیر پورٹ پر موجود تھیں اور ہم یہ حسرت دل میں لئے ملْول ہو رہے تھے کہ امیلیڈا نے ون آن ون ڈنر کا موقع دیا نہ اپنے شْو ریکس کے نظارے کا۔ کچھ بھی ہو یہ چند دن جو اس پھینے دیس میں گزرے یادگار تھے اور آج اتنے برسوں اور کء قومیتوں کے ساتھ ربط ضبط کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ فلپینو سے زیادہ فرینڈلی اور نائجیرین سے زیادہ معصوم کوء اور قوم نہیں۔ باقی تْہاڈی مرضی

Browse More Urdu Literature Articles