Chand Din Amilda Kay Des MeiN Part Four ... Shaer Kay Munh MeiN - Article No. 1457

Chand Din Amilda Kay Des MeiN Part Four ... Shaer Kay Munh MeiN

چند دن امیلڈا کے دیس میں قسط چہارم ۔۔۔۔۔ شیر کے منہ میں - تحریر نمبر 1457

اس وقت تو شیر نے کچھ نہ کہا مگر جب پہلی بار پاکستان میں سائیکل پر سوار ہو کر آیا تو ملک اعجاز کو کچا چبا لینے کی کوشش کی

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ جمعہ 25 اگست 2017

گیسٹ ہاوٴس میں یہ ہماری آخری رات تھی۔ رات دیر سے آنے اور صبح جلدی جانے کی وجہ سے ہم مچھروں اور کھٹملوں کی خاطر خواہ تواضع نہ کر سکنے پر شرمساری کی کیفیت میں باگیو سٹی جانے کے لئے تیار ہوئے۔ علی کو خدا حافظ کہنے اور قیمتی ٹپس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اس کے کمرے میں جھانکا ضرور مگر سوئے ہوئے شیر کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ آج سے ہماری سرکاری میزبانی کا آغاز ہو رہا تھا، اس کا اندازہ دو نئے ساتھیوں اور لگژری بس کو دیکھ کر ہو گیا۔

ان ساتھیوں کا تعلق افغانستان کی کسی وزارت سے تھا۔ تھے تو وہ بھی سرکاری مہمان مگر ہمارے ساتھ نتھی ہونے سے ہی ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو گیا۔ بیچارے جتنے دن ہمارے ساتھ رہے، ان کی حالت گواچی گاں سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ نہ تو وہ ہماری بین الاقوامی برادری کے ساتھ فٹ ہو سکے نہ ہی پریٹی اور ہمجولیوں کی توجہ کا مرکز بن سکے۔

(جاری ہے)

لے دے کے ہم پر ہی ہمسائیگی کا حق جتاتے رہے۔

فلپائن کا سمر کیپیٹل باگیو سٹی دو سو پچاس کلومیٹر اور چھ گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ پہلا پڑاوٴ ایک گھنٹے کی مسافت پر پمپانگا کا پراجیکٹ تھا۔ پمپانگا فلپائن کا بڑی بڑی زرعی ملکیتوں اور سب سے زیادہ پیداوار دینے والا علاقہ تھا جہاں گنے اور چاول کی کاشت ہوتی تھی۔ امیلڈا کی تصویروں والے بڑے بڑے سائن بورڈز دور سے ہی طوفان کی آمد کا پتہ دے رہے تھے۔
یہ ایک کم آمدنی والے کاشتکاروں کے لئے غربت مکاوٴ منصوبہ تھا مگر یوں لگتا تھا جیسے غربت مکاوٴ سے زیادہ زور غربت کی تشہیر پر تھا اور وہ بھی بذریعہ خادمہٴ عوام۔ جیسا کہ ہم ایسے بدقسمت ملکوں میں ہوتا ہے، وہاں بھی تختیاں لگانا ہی اصل مقصد نظر آ رہا تھا۔ ٹارگٹ گروپ اور امیج بلڈنگ کا باہمی تعلق وہی تھا جو دھیلے کی بڑھیا اور ٹکا سر منڈائی کا ہوتا ہے۔
اس تاثر کو وہ بھاری بھرکم ناشتہ بھی کم نہ کر سکا جس کے لئے اس پڑاوٴ کی محفل سجائی گئی تھی۔ یہ فلپائن کا جتنا زرخیز علاقہ تھا، غربت کی زرخیزی بھی اتنے ہی عروج پر تھی۔ ظاہر ہے جتنے بڑے وڈیرے، چودھری یا خان، اتنے ہی مجبور و مقہور ہاری یا کسان۔ ناشتے کے خمار کے باوجود اگلے پڑاوٴ تک خادمہٴ عوام ہی بس کا موضوع رہی۔ پریٹی دفاعی پوزیشن میں رہی مگر کہیں کہیں ہماری باتوں کی تائید کرتے ہوئے ہمجولیوں کی طرف ضرور دیکھ لیتی کہ کوئی سن تو نہیں رہا۔
جب میری باتوں میں کچھ تندی آ گئی تو میرے ساتھ آ بیٹھی اور شاید موضوع بدلنے کے لئے لگی میری شلوار قمیض کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے۔ میرا بس چلتا تو اسی وقت اتار کر اس کے حوالے کر دیتا کہ 'دل چیز ہے کیا جاناں، یہ جاں بھی تمہاری ہے' کا قائل اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اکیلی شلوار یا اکیلی قمیض ہی اس کی جملہ ضروریات پوری کر سکتی ہے، اس وقت تو اسے وعدہٴ فردا پر ٹرخا دیا۔
جانے سے قبل اپنا نیا جوڑا ڈرائی کلین کرانے کے بعد اس وعدے پر اس کے حوالے کیا کہ اس میں گم ہو کر تصویر ضرور بھیجنا۔ تصویر آئی مگر یوں کہ اس میں 'پریٹی تھی مگر کہیں نہیں تھی'، والا معاملہ تھا۔ کچھ سوتے کچھ جاگتے سفر کٹ رہا تھا کہ بس کے بھرپور قہقہوں نے 'کھول آنکھ ادھر دیکھ اُدھر دیکھ' پر مجبور کر دیا۔ قہقہے کا مرکز نورا تھی یا میں، یہ آج تک نہیں کھل سکا۔
نورا مجھے لڑھکی ہوئی گردن سمیت اپنے کیمرے میں محفوظ کر چکی تھی۔ میرے پاس خادمِ اعلیٰ کے دیئے ہوئے پولیس والے اختیار ہوتے تو نورا کو کیمرے سمیت بس سے باہر پھینک دیتا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا سوائے نورا سے تصویر کا غیر شرعی استعمال نہ کرنے کا وعدہ لینے کے، سو وہ لے لیا۔ بس ایک ریستوران کے باہر رکی تو ہم حاجاتِ ضروریہ کے تحت ممنوعہ علاقے میں جا گھسے۔
ہماری واپسی تک پریٹی اور ہمجولیاں سینڈوچ پیک کروا چکی تھیں۔ نورا نے لاکھ کہا کہ تمہارے مفاد کا خیال رکھا گیا ہے مگر مجھے اس کا تجربہ تھا سو اعتماد کیسے کر لیتا۔ ہوا یوں کہ ہم ایک پلاننگ ورکشاپ کے سلسلے میں تھائی لینڈ کے صوبہ تھان بوری میں چند دنوں کے لئے گئے۔ صوبے میں خاصی معقول تعداد میں مسلمان رہتے تھے، اس لئے چنداں پریشانی نہ تھی۔
عیدالاضحیٰ والا دن تھا اور اوپر سے جمعہ۔ عید کی نماز کے بعد اس حال میں روانہ ہوئے تھے کہ نہ عید ملے نہ عیدی ملی۔ وہ سارے پکوان جو ہم نے ایک روز پہلے بنائے تھے، ان پر ہمارا نام ہی نہ لکھا تھا۔ صوبے کے گورنر سے خیر سگالی ملاقات کے بعد دوپہر کے کھانے کے لئے جس مسلمان ہوٹل کا رخ کرتے، تالہ منہ چڑاتا۔ آخر ایک مسلمان سے پوچھا تو اس نے جواب دیا "آج ہماری عید ہے، کھانا مسجد میں ملے گا"۔
مسجد پہنچے تو جمعے کا وقت ہوگیا۔ نماز کے بعد کھانا تو کیا پکانے والے برتن بھی جا چکے تھے۔ انڈونیشین مسلمان لڑکی نانت میرے ساتھ تھی، وہ تو کہیں اور چلی گئی، مگر میں نے ایک ڈبل روٹی اور جیم کی بوتل خرید کر بس کی راہ لی اورپیٹ کی آگ بس میں ہی ٹھنڈی کر لی۔ شام کو جنگل میں واقع ریسٹ ہاوٴس پہنچے تو بھوک عروج پر تھی۔ کھانے کی پُکار پر پہنچے تو اُبلے چاولوں کے ساتھ شوربے والا سالن اشتہا انگیز خوشبو دے رہا تھا۔
نورا میس مینیجر تھی اور میں اسے پہلے ہی اپنے تقاضوں سے آگاہ کر چکا تھا۔ چاول ڈالنے کے بعد ہاتھ سالن کے ڈونگے کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ احتیاطاً نورا سے پوچھ لیا "کیا پکا ہے"؟ بولی "بلا جھجک ہو کے کھا لو، یہ 'وہ' نہیں ہے"۔ میں نے پوچھا "پھر بھی"؟۔ کہنے لگی "وہی جو تھائی شہزادی مہاچکری کی فیورٹ ڈش ہے، میرا مطلب ہے فارمی کتا"۔
چمچہ میرے ہاتھ سے گر گیا اور میں دور لان کے بنچ پر بیٹھ کر بچی کھچی جیم ڈبل روٹی کھانے لگا۔ "میرے محبوب" سری لنکن اسسٹنٹ پروفیسر (پہلی قسط میں موصوف کی تعریف ہو چکی ہے) کی بیوی جو کراچی کے سیونتھ ایڈونٹ ہاسپٹل میں نرس رہ چکی تھی میرے پاس آ کر بڑے پریم سے بولی So Mr. Piracha you are enjoying your Eid dinner، اسے تو کیا جواب دینا تھا، بس تلملا کر رہ گیا ۔
پریٹی اور ہمجولیوں کی ہلچل سے لگ رہا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ بس پہاڑی سڑک کا موڑ مڑی تو سامنے شیر منہ کھولے ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ چالیس ضرب بیس فٹ کا شیر کا یہ دہانہ باگیو سٹی کے لائنز کلب والوں نے شاید شہر میں آنے والوں کو خبردار کرنے کے لئے نصب کروایا تھا۔ کچھ بھی ہو مجسمہ حقیقت کے اتنا قریب تھا کہ نیپالی سمترا نے اصرار کے باوجود نزدیک جانے سے انکار کر دیا اور دور سے ہی اس سے پناہ مانگتی رہی۔
دوسری بیبیاں بھی اسے بہلانے میں لگی رہیں۔ ملک اعجاز آف بھوگیوال اور میں نے اس کے قریب جا کر تصویر بنوائی، تب کیا پتہ تھا کل کلاں اس کے جبڑوں کا شکار بننا ہے۔ اس وقت تو شیر نے کچھ نہ کہا مگر جب پہلی بار پاکستان میں سائیکل پر سوار ہو کر آیا تو ملک اعجاز کو کچا چبا لینے کی کوشش کی۔ ملک ایل ڈی اے میں ڈائریکٹر ٹاوٴن پلاننگ تھا کہ شیر کو انکار کر بیٹھا۔ وہ تو کورٹس اس کی مدد کو آ گئیں ورنہ۔۔۔ اور شیر کے خون لگے منہ کو دوسری بار آتے دیکھ کر خود ہی گھر جا بیٹھا۔ یقیناً ملک کو آج بھی وہ بے ضرر شیر یاد آتا ہوگا۔ شیر سے راہداری کٹوا کر دو تین موڑ ہی مڑے ہوں گے کہ باگیو سٹی کی کیتھولک یونیورسٹی کے مہمان خانے جا پہنچے جو اگلے دو روز کے لئے ہمارا گھر تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles