Goroon K Des Ka Safarnama - Article No. 2100

Goroon K Des Ka Safarnama

گوروں کے دیس کا سفرنامہ - پہلی قسط - تحریر نمبر 2100

"جان جی اور جانجی" میں کیا فرق ہے ۔۔ انگلینڈ، یوکے، برطانیہ، گریٹ برٹین میں فرق کیا ہے۔۔ "بچپن میں انگریزی کا بس اتنا پتہ تھا کہ "وڈی میں پڑھتے ہیں اور چھوٹی انگلش میں لکھتے ہیں۔

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری ہفتہ 20 جولائی 2019

تحریر: اعجاز وسیم باکھری۔۔۔
جان جی۔۔۔۔ یہ لفظ تو آپ سب سنتے ہیں اور اس کے بارے میں جانتے بھی ہیں، جو شادی شدہ ہیں وہ محبت سے اپنی بیوی کو ”جان جی“ کہتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہونگے جو بیوی کو دکھاوے کیلئے ”جان جی“ کہہ کر جان بخشی کرواتے ہیں ۔ بعض دوست بھی طنزیہ یا فقرے بازی میں دوست کو ”جان جی“ کہہ کر بلا لیتے ہیں، حالانکہ یہ ”جان جی“ اردو کا لفظ ہے مگر پنجاب میں خصوصاً نوجوان شوہر اور دوست کبھی کبھار اس کا استعمال کرتے ہیں۔
مگر جب سے انگریج فلم مجھ سمیت میرے دوستوں کی نظر سے گزری ہے، نجانے کیوں ہم سب نے ”جان جی ”کی بجائے“جانجی“ کا لفظ پکڑ لیا اور ایسا اس لفظ کو پکڑا کہ اگر کسی کو بلانا ہو تو ”جانجی“ گل تے سنو،،، اگر فون کیا تو سلام کے بعد پہلا جملہ یہ ہوتا ہے ”او جانجی کتھے او“۔

(جاری ہے)

۔۔ اگر کوئی ایک دوسرے سے فنکاری لگارہا ہو تو یوں کہتے ہیں ”جانجی، ہن ساڈے نال وی اینج کرو گے؟۔

۔۔۔۔
آپ کنفیوژ ہونگے کہ میرے دوست یا ہمارا حلقہ احباب ”جان جی“ کی بجائے ”جانجی“ کا لفظ کیوں استعمال کرتا ہے تو اس کی وجہ میں بتا دیتا ہوں، وہ یہ کہ انگریج فلم میں جب سے ”او جانجی آں تاڈے“ کا ڈئیلاگ سنا تو ”جان جی“ سے زیادہ ہم سب کو یعنی میرے حلقہ احباب کو“جانجی“ لفظ زیادہ بھایا، یہ لفظ کہنے میں بھی مزہ آتا ہے اور جب کوئی دوست“جانجی گل تے سنو“ کا لفظ کہتا ہے کہ تو سامنے والے کی ٹون سمجھ آجاتی ہے کہ کیا کہنا چاہ رہا ہے اور کس موڈ سے کہنا چاہ رہا ہے۔
اگر کسی سے غلطی یا بھنڈ ہوجائے تو ڈانٹ یا ناپسندگی کا اظہار کرنا ہو تو عموماٰ یہ لفظ بولا جاتا ہے ”او یار کون لوگ او تسی۔۔۔۔۔؟ اس پر غلطی کرنے والا بڑے پیار سے ہمیشہ یہی جواب دیتا ہے ”جناب جانجی آں تہاڈے۔کی ہویا، ۔۔۔۔؟
”جانجی“ لفظ کو آغاز میں تفصیل کیساتھ بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ورلڈکپ کے دوران دورہ برطانیہ یعنی گوروں کے دیس کی سیر اور سفر نامہ میں ”جانجی“ کا بار بار ذکر آنا ہے اور آپ جانجی کو جانے بغیر لطف نہیں اٹھا سکتے تھے اس لیے یہ پیرا گراف میں انگلینڈ سے واپسی پر فلائٹ میں بیٹھا لکھ رہا ہوں اور میرے سامنے لگے بڑے سے نیویگیشن نقشے کے مطابق اس وقت ہمارا طیارہ ترکی کے شہر انقرہ کے اوپرسے محو سفر ہے۔


انگلینڈ دیکھنے کی خواہش ہم سب ایشین کو بچپن سے ہوتی ہے، کیونکہ سکول کے دنوں میں ہم کتابوں میں یہ پڑھتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے یہاں انگریز ہم پر حکمرانی کرتے تھے، ایک تو پاکستانی بچہ، اوپر سے جب یہ پڑھ لیتا ہے کہ ہم تو خود ماشاء اللہ اچھے خاصے ہیں تو انگریز کیسے یہاں آکر ہمارے بڑوں پر حکمرانی کرگئے،؟ آخر یہ انگریز چیز کیا تھے ؟
انگلینڈ دیکھنے کی دوسری خواہش تب پیدا ہوتی ہے جب سکول میں انگریزی پڑھائی کا آغاز ہوتا ہے اور گھر والے بھی روزانہ پوچھتے ہیں کہ بیٹا انگریزی کتنی آتی ہے،؟۔
۔۔۔ میرا بس چلے تو جواب دوں۔۔۔۔۔اتنی جتنی انگریزوں کو اردو آتی ہے۔۔۔۔
خیر انگلینڈ جانے کی خواہش تو بچپن سے تھی اور مجھ پر یہ خواہش انگریزی ونگریزی کی وجہ سے سوار نہیں تھی، ماشاء اللہ جب ہم سکول پڑھتے تھے تو انگریزی ایک تو پانچویں جماعت سے شروع ہوئی اور اوپر سے چھوٹی اور بڑی انگریز ی کے چکر میں ایسے الجھ جاتے تھے کہ بات بات پر نال بیٹھے اپنے جیسے کلاس فیلو سے پوچھتے رہتے تھے کہ ”اوے مریں، A فار ایپل۔
۔۔۔۔ اے چھوٹی انگریزی وچ اے، یا وڈی وچ اے؟۔۔۔
انگریزی میں ماشاء اللہ پوری کلاس کا یہ حال تھا کہ تقریباٰ چھ ماہ بعد جا کر ہمیں یقین ہوا کہ ہم انگلش بھی پڑھ رہے ہیں ورنہ ہمیں بس یہ پتہ تھا کہ ہم ”وڈی، اے بی سی پڑھتے ہیں اور چھوٹی اے بی سی میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
انگلینڈ دیکھنے کی خواہش مجھ پر نہ انگریزی پڑھنے سے جاگی اور نہ کتابوں میں یہ پڑھ کر جاگی کہ 1947ء سے پہلے یہاں انگریز امب لینے آئے تھے ؟
مجھ پر ایسا کوئی اثر نہیں تھا، مجھے انگلینڈ کا پہلا بار معلوم ہی کرکٹ کی وجہ سے ہوا کہ یہ بھی کوئی ملک ہے، کیونکہ کتابوں میں ہم نے ماشاء اللہ انگلستان یا برطانیہ پڑھ رکھا تھا۔
جب علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح پر لکھے گئے مضمون پڑھے، کنفیوژن اور بڑھ گئی، یا تو کتابی نصاب لکھنے والے سادہ تھے یا ہمارے ماسٹر صاب۔۔ یا پھر کہیں ہم ہی عقل سے پیدل تھے کہ کئی برس تک ہمیں ”لندن“بھی کوئی ملک سا لگتا تھا۔ انگلستان کا اردو کی کتابوں میں بار بار ذکر پڑھ کر ایسا لگتا تھا کہ ہمارے مشرق میں ہندوستان ہے، اور یہاں درمیان میں پاکستان ، مغرب میں افغانستان، تھوڑا دور ترکمانستان اور اس کے ساتھ ہی کہیں انگلستان ہوگا۔
۔ یہ تو بھلا ہو کرکٹ کا، چائے کے کھوکھوں پر بیٹھ بیٹھ کر اخبارات کے سپورٹس صفحے پڑھ پڑھ کر پھر کہیں جا کر کچھ سمجھ آئی کہ "کتاب میں جو لکھا ہے وہ اپنی سمجھ سے باہر ہے" ۔ حقیقت تو یہاں اخبار میں لکھی ہوتی ہے کہ انگلینڈ، برطانیہ اور انگلستان ایک ہی ملک ہے اور لندن وہاں کا شہر ہے جہاں لارڈز گراؤنڈ ہے۔
آج کل کے سکول کے بچوں کو شاید اتنی مشکل پیش نہیں آتی ہوگی کہ لندن کہاں ہے کیونکہ ”الطاف حسین لندن رہتے ہیں‘‘ نواز شریف لندن کے فلیٹوں کی چکروں میں جیل میں سڑ رہے ہیں، مریم نواز نے لندن فلیٹ کیلئے جعلی کیبلبری فونٹ استعمال کیا تھا، میثاق جمہورت لندن میں سائن ہوا تھا، عمران خان کی آدھی زندگی لندن میں گزری، اسحاق ڈار لندن فرار ہوا ہے، یہ خبریں بچے روز گھر میں لگے ٹی وی پر سنتے ہونگے، اس لیے پہلی بار لندن جانے والا پاکستانی ایک بار سوچتا ضرور ہے کہ یہ لندن میں آخر ہے کیا کہ سیاستدان علاج وہیں کرواتے ہیں، فلیٹ وہاں خریدتے ہیں، بچے وہاں پڑھاتے ہیں، چھٹیاں وہاں مناتے ہیں، اس لیے میرے لیے بھی لندن جانا انتہائی ضروری ہوگیا تھا کہ پتہ تو کرکے آؤں وہاں ایسا ہے کیا۔
۔۔
بہرحال، انگلینڈ، برطانیہ، انگلستان اور گریٹ بریٹن، یو کے۔۔ ان تمام ملکوں کی سیر کرنے کا بہترین موقع یہ 2019ء کا کرکٹ ورلڈ کپ ہی لگا اور گزشتہ چار سال سے 2019ء کا انتظار کیا جارہا تھا، میں آسٹریلیا میں ہونیوالے 2015ء ورلڈکپ پر بھی تھا اور ایم سی جی میلبرن میں فائنل بھی کور کیا لیکن لندن جاکر لارڈز میں کوریج کی خواہش تھی کہ تھم نہیں رہی تھی۔
بھلا ہو آئی سی سی کا اور برطانوی حکومت کا جو وقت پر ویزہ جاری کردیا۔ اب اگلا مرحلہ تھا کہ ڈیڑھ ماہ کے ورلڈ کپ کو کتنے دن کور کیا جائے، پرائے ملک میں جاکر ایک شہر سے دوسرے شہر کی کھجل خواریوں سے پرانے واقف تھے تو فیصلہ کیا کہ روایتی حریف بھارت کیخلاف 16جون سے کوریج کا آغاز کرنا چاہیے اور ایک ماہ بعد 14جولائی کو فائنل کور کرکے گھر واپس آنا مناسب رہے گا۔

ورلڈ کپ کی کوریج کیلئے بہت سے قریبی دوست انگلینڈ گئے، ان کیساتھ زیادہ وقت نہیں گزرا لیکن میرے سفر میں ہمسفر ”جانجی“ گینگ تھا جس کی قیادت محترم جناب عبدالرحمان رضا کررہے تھے، اس میں عبدالقادر خواجہ اور ابوبکر بلال بھی پاکستان سے گئے تھے جبکہ انگلینڈ میں زاہد نور اور حسیب ارسلان پہلے سے ہی فیلڈ نگ لگا کر ہر خبر پر نظریں لگا کر کھڑے تھے۔

بہرحال، لاہور سے مانچسٹر جانے کیلئے نجانے کیوں میرا دل پی آئی اے پر سفر کرنے پر راضی نہ ہوا تو عمان ائیرلائن کا ٹکٹ کروا لیا، کسی دوست نے بتایا تھا کہ ایک تو مرد ہوسٹس زیادہ ہیں اور جو خواتین ہیں وہ بھی 45 کے ارد گرد ہیں، بس دروازے پر بورڈنگ کارڈ چیک کرنے کیلئے خوش شکل ہوسٹس ہوتی ہیں مگر جب آپ سیٹ پر جا کر بیٹھتے ہو پھر تو ماحول کسی بہت ہی دیسی ہوجاتا ہے۔ خیر میرے پی آئی اے پر سفر نہ کرنے وجہ ایسی کوئی نہیں تھی، مجھے پی آئی اے کی بجائے عمان ائیرلائن کا مانچسٹر تک کا ٹکٹ سستا مل رہا تھا حالانکہ پی آئی اے میں سفر کرنے پر اوپر بیان کی گئے نقصانات تب میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔۔ جاری ہے۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles