Intezar Khatam - Goroon K Des Ka Safarnama - Qist 2 - Article No. 2101

Intezar Khatam - Goroon K Des Ka Safarnama - Qist 2

انتظار ختم ۔۔۔ گوروں کے دیس میں ۔۔۔ ۔۔قسط 2 ۔۔ - تحریر نمبر 2101

مانچسٹر اترتے ہی کرکٹر حسن علی کیساتھ جھڑپ نے موڈ ہی خراب کردی جب جہاز زمین پر لینڈ کرتا ہے تو ٹچ ڈاؤن کے وقت نیند میں ایسا لگتا ہے کہ ” اوے کدھرے وج تے نیں گیا ؟

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری اتوار 21 جولائی 2019

تحریر۔۔۔ اعجازوسیم باکھری۔۔ ۔
لاہور سے مانچسٹر تک کی فلائٹ کیسی تھی یہ آگے چل کر آپ کو بتاؤں گا، بہرحال مانچسٹر میں شام سات بجے جہاز لینڈ ہونے سے تھوڑا پہلے بادلوں سے نیچے آیا تو میں نے ونڈو سے نیچے دیکھنا شروع کیا تو ہرطرف سبزہ ہی سبزہ نظر آیا۔ میں کیونکہ اس سے پہلے آسٹریلیا 2015 ورلڈ کپ کے دوران سڈنی اور میلبرن کا سفر کرچکا تھا تو میرا خیال تھا سڈنی، میلبرن، اوردبئی کی طرح مانچسٹر میں بڑی بڑی بلڈنگز استقبال کریں گی لیکن گورے شاید بڑی بڑی بلڈنگز کو تعمیر کرنا بیوقوفی سمجھتے ہیں ،اس لیے میری بے وقوفانہ توقعات کے برعکس جہاز کے نیچے کا منظر دیکھا تو گو روں سے متاثر ہونے کو جی چاہا یہ لوگ بڑی بڑی بلڈنگز کے رولے میں نہیں پڑتے۔

بہرحال۔

(جاری ہے)

۔ عین لینڈنگ سے قبل میری آنکھ لگ گئی، اور میرے ساتھ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ لینڈنگ سے پہلے آنکھ لگ جاتی ہے اور جب جہاز زمین پر لینڈ کرتا ہے تو ٹچ ڈاؤن کے وقت نیند میں ایسا لگتا ہے کہ ” اوے کدھرے وج تے نیں گیا ؟ “ اس بار ایسا ہی ہوا، اور شاید عمان ائیرلائن کی لینڈنگ ایسی تھی کہ مجھے لگا کہ “دھڑم“ کہیں جہاز ٹکرا گیا مگر یہ لینڈنگ تھی اور میری آنکھ کھل گئی۔

جہاز ابھی رن وے پر ٹیکسی کررہا تھا کہ چند پاکستانی اٹھ کھڑے ہوئے اور اوپر سے اپنے اپنے بیگ اتارنے لگے، مگر گورے اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہے ۔تو میں نے بھی خود کو” جعلی گورا“ ثابت کرنے کیلئے بیٹھنے کو ترجیح دی ،تاکہ برطانوی یہ نہ سمجھیں کہ ” اے ۔لو۔۔ اک ہور” پینڈو“ انگلینڈ آگیا۔۔۔لہذا جب تک جہاز کے دروازے نہیں کھلے میں بیٹھا رہا۔
جہاز میں سفر کے دوران میں ہمیشہ احتیاط کرتا ہوں کہ ساتھ بیٹھے مسافر کہیں یہ نہ سمجھیں کہ ”وڑائچ طیارے“ میں سفر کرنے والے کو ہوائی جہاز میں سفر کرنے کی تمیز ہی نہیں ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 2008ء میں مجھے پہلی بار ہوائی جہاز میں سفرکرنے کا اتفاق ہوا، کراچی سے میں ایشیا کپ کی کوریج کے بعد ائیر بلیو پر لاہور آرہا تھا ۔ دوران پرواز تقریباً 20منٹ تک میں سوچتا اور تلاش کرتا رہا کہ واش روم کہاں ہے ؟جب ادھر ادھر دیکھ کر معلوم نہ ہوا تو میں نے اپنی سیٹ کے سامنے رکھے ”ایمرجنسی لینڈنگ “والے چاٹ کو اٹھا کر پڑھنا شروع کردیا کہ جہاز میں ہنگامی حالات کی تمام ضروریات یہاں درج ہوتی ہیں تو شاید اسی مینیو میں واش روم کا نقشہ بھی ہوگا اور ہدایات بھی۔
مگر یہاں تو تمام آپشن ہنگامی لینڈنگ کے درج تھے۔ اب ساتھ والی سواری سے بھی پوچھنا غیر مناسب تھا کیونکہ موصوف کراچی کے لگ رہے تھے تو مجھے ڈر تھا کہیں یہ نہ کہہ دیں ” ابے ۔۔۔ ”باولا“ ہوگیا کیا، پہلے کبھی نہیں بیٹھا جہاز میں ؟۔۔ اس ڈر سے میں نے خود ہی تلاش کرنا مناسب سمجھا۔ میں سیٹ سے اٹھا اور پیچھے چل دیا اور واش روم کی تلاش میں ائیرہوسٹس کے کیبن جا گھسا ، ایک محترمہ نے حیرانی سے پوچھا “ جی خیریت ؟؟ میں نے شرم سے کہہ دیا ” پانی ملے گا“ ؟ ۔
۔ اس وقت میری کیا حالت ہوگی ، صرف وہی لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں جو کبھی کبھی میڈیکل سٹور پر (کچھ) خریدنے کی غرض سے جاتے ہیں اور گھبرا کر پیناڈول کا پتہ لے آتے ہیں۔۔۔ یہی اس وقت میری حالت تھی۔
بہرحال ائیر ہوسٹس کے کیبن سے نکلا تو ساتھ ہی واش روم نظر آگئے اور دھکا دے کر اندر چلا گیا۔ اس واقعہ کو 11برس بیت گئے مگر آج بھی جب بھی کسی فلائٹ کے واش روم جاتا ہوں تو کراچی سے لاہور کی زندگی کی پہلی فلائٹ یاد آجاتی ہے۔
اس دن واش روم سے نکلتے وقت میں نے ابھی دروازہ نہیں کھولا تھا تو ” فلش “ کابٹن پریس کیا تو ایسا شور مچا کہ میرا کلیجہ حلق میںآ گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ فلش بٹن کی جگہ شاید میں نے جہاز کے کسی سوراخ کا بٹن دبا دیاہے جہاں سے تیز ہوا نکل رہی ہے۔ عین اسی وقت جہاز تھوڑا سا نا ہموار ہوا تو میرا ڈر اور بڑھ گیا،ایسا لگا کہ اس بٹن کو پریس کرکے جو شور مچا ہے شاید جہاز میں سوراخ ہوگیا ہے۔
۔۔ اب وارش روم میں کھڑے ہوکر سورتیں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا، تو آنکھیں بند کرلیں۔ دو منٹ بعد جب دروازہ نوک ہوا تو ٹیشو سے پسینہ خشک کیا اور باہر نکل کر دیکھا تو مسافر سو رہے تھے اور جہاز میں سناٹا تھا۔ لڑکھڑاتے پاؤں کے ساتھ اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھا تو اطمینان ہوا کہ جہاز میں سوراخ ہونے کے باوجود 300مسافروں سمیت اللہ نے مجھے بھی نئی زندگی عطا کی ہے اور کافی دیکر تک شکر پڑھتا رہا۔

بہرحال ۔۔مانچسٹرائیرپورٹ پر امیگریشن کاؤنٹر پر لمبی لائن لگی تھی ، ائیرپورٹ کے مفت انٹرنیٹ سرو س کو موبائل پر ایکٹیو کیا تو زاہد نورصاحب کا واٹس ایپ پیغام ملا ” بھائی کتھے او “ میں نے بتایا کہ لمبی لائن ہے اور تقریباً 45منٹ لگ جائیں گے، جب میری باری آئی تو امیگریشن آفیسر سیاہ فام تھا تو مجھے اطمینان ہوا کہ یہ خودبھی کہیں ویسٹ انڈیز سے یہاں بھاگ کر آیا ہوگا تو زیادہ سوال جواب نہیں کریگا او ر ایسا ہی ہوا۔
عموماً انگلینڈ کے ائیرپورٹس پر موجود عملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دور سے بندہ پہچان لیتے ہیں کہ یہ مشکوک ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں مشکوک نہیں تھا، اس لیے مجھے وہ سیاہ فام خود ہی پہلی نظر میں مشکوک لگا ۔یا شایدمیں نے دل میں خود کو ایک تسلی دی تھی کہ کہیں ویسٹ انڈیز سے بھاگا ہوا لگتا ہے تو زیادہ سوال جواب نہیں کریگا۔ میرا پاسپورٹ دیکھ کر موصوف گویا ہوئے کہ ۔
آپ یہاں کرکٹ کیلئے آئے ہیں تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ جی صرف اس بار ۔۔۔۔ شاید وہ میری مسکراہٹ اور میرے جواب کا معنی سمجھ گیا اور ٹھپا لگا کر پاسپورٹ واپس کردیا ، جب میں کاؤنٹر چھوڑنے والا تھا تو کہتا ہے کہ “ گڈ لک فار گیم اگینسٹ انڈیا“ میں نے جواب میں مسکراہٹ دی اور شکریہ ادا کرکے بھاگ کھڑا ہوا۔
ائیرپورٹ آرئیول لاؤنج سے باہر نکلا تو حسیب ارسلان جو دنیا نیوز کے ساتھ وابستہ ہیں، اور زاہد نور جو اے آر وائی نیوز کے ساتھ وابستہ ہیں اور دونوں ”جانجی گروپ“ کے اہم ممبر ہیں استقبال کیلئے موجود تھے۔
زاہد نور نے بتایا کہ یہاں سے بریڈ فورڈ جانا ہے جہاں پاکستان پریس کلب نارتھ برطانیہ کے دفتر میں میرا شدت سے انتظار ہورہا ہے۔ جہاں سابق صدر اور ہم سب کے محسن ارشد رچیال صاحب کا حکم ہے کہ اعجازباکھری کو راستے میں کچھ نہیں کھلانا ، یہاں ایک ساتھ کھانا کھائیں گے اور عبدالرحمان رضاجو دبئی میں دنیا نیوز کے بیورو چیف بھی ہیں اور دنیا نیوز کی جانب سے ورلڈ کپ کوریج پر ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل پہنچے تھے وہ بھی رچیال صاحب کے ڈیرے پر موجود ہیں۔
زاہد نور بریڈ فورڈ جانے کی بجائے مجھے مانچسٹر کے کسی ریسٹو رنٹ لے گئے جہاں دیکھا تو حسن علی، فخر زمان، شاہین آفریدی، محمد حسنین اور شاداب خان موجودہ تھے اور ان کے ساتھ نہ تو انٹی کرپشن یونٹ کا کوئی اہلکار تھا اور نہ ہی کوئی پی سی بی آفیشل ،بھارت کیخلاف میچ سے دو روز قبل کرکٹرز ایسی سرگرمیاں دیکھ کر میرے اندر کا صحافی جاگ اٹھا اور میں نے پاکستانی ہیروز کی ویڈیو بنانا شروع کردی تو حسن علی میرے پاس آئے اور بہت تکبرانہ انداز میں کہتا ہے ۔
۔۔ ویڈیو کیوں بنا رہے ہیں آپ ؟ ۔۔ میں نے کہا کہ حسن، آپ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہو اور میں سپورٹس جرنلسٹ ، آپ ورلڈ کپ کھیلنے آئے ہو اور میں ورلڈ کپ کی کوریج پر آیا ہوں ۔سو میں اپنا کام کررہا ہوں۔۔۔ میرا جواب سن کر حسن علی نے دوبارہ کہا آپ ویڈیو ڈیلیٹ کردیں ، میں نے کہا کہ ۔۔۔۔ حسن ۔۔۔آپ کا مجھ سے ایسے بات کرنا نہیں مناسب نہیں۔۔ اتنے میں زاہد نور نے مداخلت کی اور حسن علی پیچھے ہٹ گیا ۔

حسن علی کی رویہ دیکھ کر میرا دل چاہ رہا تھا کہ بھارت کیخلاف میچ سے قبل قومی ہیروز ہوٹلوں میں کیا کررہے ہیں یہ خبر ویڈیو سمیت ٹی وی پر چلا دوں مگر مجھے ترس آگیا اور میں نے دیگر تمام ساتھیوں کو بھی منع کیا کہ بھارت کیخلاف میچ ہونے دو۔۔ اس کے بعد اس ویڈیو اور یہاں کھلاڑیوں کی سرگرمیوں کی خبر کو دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔۔ حسن علی کے رویے سے موڈ سخت خراب ہوا مگر مانچسٹر سے بریڈ فورڈ جاتے ہوئے سڑک کے اطراف سبزہ ، ہریالی، خوشحالی، خوبصورتی اور اتنی صفائی، اس قدر صفائی نفاست دیکھ کر موڈ اچھا ہوگیا کیونکہ راستے میں کوئی نہ تو کوئی چنگ چی نظر آیا، نہ سائیکل یا موٹرسائیکل رکشہ، نہ کوئی ویگن والا ہارون بجاتے نظر آیا تو ہی کسی نے اشارہ توڑا اور نہ ہی کسی گاڑی کی شیشہ کھول کر کسی نے پان کی پچکاری باہر ماری۔
میں زاہد نور سے کہا کہ “ بھائی یہ ملک صرف سیر کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ مستقل رہنے کے قابل ہے۔۔میرے ان الفاظ پر۔ زاہد صاحب نے جان چھڑانے والی شرارتی نظروں سے دیکھا اورکہا ۔۔۔۔۔بھائی آپ 6ماہ کے ویزے پر ہو ، اورصرف ورلڈکپ تک یہاں ہو ۔ آگے کا مت سوچو۔۔یعنی مختصر ، زاہد نور کا مطلب تھا کہ “ ایناں فری ہون دی ضرورت نہیں “۔۔۔۔جاری ہے

Browse More Urdu Literature Articles