Janat Bibi - Article No. 1767

Janat Bibi

جنت بی بی - تحریر نمبر 1767

عارف کئی مرتبہ جنّت بی بی سے مل چکا تھا بلکہ ایک دو بار اس کے گھر پر رات بھی گزارچکاتھا۔ آج پھر وہ جنّت بی بی کے مکان کے سامنے کھڑا ہوا تھا لیکن ایک بت کی طرح ساکت ۔ اس کے پاؤں نے جذبات کی کشمکش کی وجہ سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔

جمعہ 14 ستمبر 2018

حبیب شیخ
عارف کیٔ مرتبہ جنّت بی بی سے مل چکا تھا بلکہ ایک دو بار اس کے گھر پر رات بھی گزارچکاتھا۔ آج پھر وہ جنّت بی بی کے مکان کے سامنے کھڑا ہوا تھا لیکن ایک بت کی طرح ساکت ۔ اس کے پاؤں نے جذبات کی کشمکش کی وجہ سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ جنّت بی بی سے بات کرنا عارف کے لۓ شائد زندگی کا مشکل ترین کام تھا۔ عارف کو محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی زندگی کا سفر رک گیا ہے۔

اس کے لۓ ضروری تھا کہ جنّت بی بی سے حساب چکا کر اپنی زندگی کو دوبارہ رواں دواں کرے۔
وہ جنّت بی بی کے مکان کی اتنی اچھی حالت دیکھ کر حیران تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے دوسروں کے بچے بیچ بیچ کر ایک چھوٹا مگر خوبصورت مکان کھڑا کر لیا ہے۔ آج وہ اس سے ہر بچے کا حساب لے گا ۔

(جاری ہے)

مگر کیسے؟ وہ جنت بی بی کا احسان مند بھی تو تھا!
عارف کو اچھی طرح یاد آ رہا تھا جب وہ آٹھ نو سال کا تھا ۔

جنت بی بی اس کے گھر گاہے بگاہے آتی تھی اور عارف کو گھور کر دیکھتی تھی ۔ عارف سے بڑی دو بہنیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے تھے ۔ باپ کافی کمزور تھا اور ماں کپاس کے کھیتوں میں کام کر کے کچھ پیسے کما لیتی تھی ۔ ہر وقت گھر میں کھانے پینے کے لالے پڑے رہتے تھے ۔ کی ٔمرتبہ عارف اور اس کے گھر والے بھوکے ہی سو جاتے تھے۔
عارف کے گھر سے کوئی بھی اسکول نہیں جاتا تھا ۔
ایک سرکاری اسکول ساتھ والے گائوں میں تھا لیکن کپڑے ، جوتے ، کتابیں وغیره کہاں سے آتیں۔ گائوں میں ایک نوجوان جسے سب استاد کہ کر پکارتے تھے اس کی ماں سے کہتا۔
’تو سارا دن کپاس کے گالے چنتی ہے لیکن تجھے اتنے پیسے نہیں ملتے کہ اس کپاس کا بنا ہوا کپڑا خرید سکے۔ چودھری سے بول کہ تیری اجرت بڑھائے ۔ ‘
عارف کے چھوٹے سے دل کو استاد کی یہ بات ایک تیر کی طرح چھلنی کر جاتی۔
لیکن عارف کی ماں یہ سن کر مسکرا دیتی ۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس میں خوشی کا قحط ہو ۔
’استاد، بولوں گی بولوں گی، ضرور بولوں گی۔ ‘ لیکن پھر مجبوریوں اور چودھری کے کارندوں کے بارے میں سوچ کر ڈر جاتی ۔
ایک دن جنت بی بی قدرے خوشی خوشی ماں سے ملنے آئی۔ عارف دونوں کی بات چیت سن رہا تھا ۔ جنت بی بی نے عارف کی ماں کو بیس ہزار روپے دیئے ۔
ماں نے عارف کو اپنے پاس بلایا، پیار کیا اور بولی۔
"اب تو جنت بی بی کے ساتھ جا۔ یہ تجھے آس پاس کے شہر میں کام پر لگا دے گی اور تجھ کو کبھی کبھی ہم سے ملانے کے لئے گھر لایا کرے گی ۔ "
عارف بہت سہم گیا ۔ اس نے جنت بی بی کے ساتھ ایک نا معلوم دنیا میں جانے سے انکار کردیا اور رونے لگا ۔ عارف کے باپ نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور سمجھایا۔

"میں بوڑھا ہوں ، گھر میں کھانے پینے کو نہیں ہے ۔ تو بڑابیٹا ہے اور تجھے اپنی ماں کا ہاتھ بٹانا ہے ۔ بیس ہزار روپے تیری ایک سال کی تنخواہ ہے جو جنت بی بی ہمیں پیشگی دے رہی ہے ۔ خدا اس کا بھلا کرے اور تجھےاپنی حفاظت میں رکھے ۔ جنت بی بی تجھ کو ہم سے ملوانے لایا کرے گی ۔ اور تو کام بڑی محنت سے کرنا ۔"
یہ کہہ کر باپ نے عارف کو پیار سے بھینچ لیا اور اٹھ کر جنت بی بی کے حوالے کر دیا ۔

جنت بی بی عارف کو کوئی پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر لہیہ شہر میں اپنے گھرلے گئی اور اندر سے تالا لگا لیا ۔ گھر میں ان دونوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا ۔ جنت بی بی اور عارف نے کھانا کھایا ۔ کئی مرتبہ جنت بی بی نے عارف سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن عارف نے ہوں ہاں کے علاوہ کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ یہ بیس ہزار روپے میں اس کے ماں باپ نے اسے بیچ دیا ہے ۔
اس نے کنکھیوں سے باہر کی دیوار کی اونچائی کا اندازہ لگایا ۔ دیوار بہت اونچی تھی اور اس پر چڑھ کر چھلانگ لگانا ممکن نہیں تھا ۔
اگلے دن جنت بی بی کے گھر کوئی آدمی آیا ۔ اس نے جنت بی بی کو کچھ روپے دیئے اور عارف کو اپنے ساتھ لے گیا ۔ یہ آدمی حلئے سے کچھ خوفناک تھا ۔ اسے دیکھ کر عارف کو اپنے گھر والے بہت یاد آرہے تھے ۔ وہ ان اجنبی لوگوں سے خوف زدہ تھا ۔
وہ ماں باپ کی منت کرے گا کہ جنت بی بی کو بیس ہزار روپے واپس کر دیں اور وہ بھی ماں کی طرح کپاس کے کھیتوں میں کام کر کے گزارا کر لے گا ۔ اس نے پھر سوچا کہ وہ بھاگ جائے لیکن بھاگ کر کہاں جائے ۔ اس کو پتہ نہیں تھا کہ اپنے گاوں واپس کیسے پہنچنا ہے ۔
عارف نے سسکیاں لینی شروع کر دیں ۔ اس کے ساتھ جو مرد تھا اس نے عارف کو بتایا کہ وہ بھی اسی کے خاندان میں سے ہے اور رشتے میں اس کا چاچالگتا ہے۔
اور وہ عارف کا اچھا خیال رکھے گا ۔ چاچا اور عارف نے ایک دھابے میں بیٹھ کر جی بھر کے کھانا کھایا ۔ چاچا نے عارف کو بتایا کہ کل وہ ریل گاڑی سے کراچی شہر جارہے ہیں ۔ یہ سن کر عارف نے رونا شروع کر دیا ۔ چاچا نے دو تھپڑ زور کے رسید کئے تو عارف سہم کر چپ ہو گیا ۔
تھوڑی دور جا کر چاچا نے تانگہ کیا اور ایک گھنٹے بعد عارف چاچا کے ساتھ ریل گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا ۔
ریل کے ہر پہیے کا چکر اسے اپنے گھر والوں سے دور لئے جارہا تھا ۔ لیکن وہ بالکل بےبس تھا۔ اس کی سمجھ میں بہت کچھ نہیں آ رہا تھا لیکن اس کو اتنا پتہ تھا کہ جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہو رہا تھا وہ غلط ہو رہا تھا۔
اگلے دن ریل گاڑی کراچی پہنچی ۔ عارف زندگی میں پہلی بار ایک بڑے شہر میں آیا تھا ۔ وہ بے حد حیران اور گھبرایا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔
چاچا نے ایک موٹر رکشہ لیا اور عارف کو ایک فلیٹ میں لے گیا ۔ چاچا نے نیچے ایک ہوٹل سے پھر بہت سارا مزیدار کھانا منگوایا اور پھر اندر سے دروازے پر تالا لگا کر سو گیا۔
عارف بہت تھکا ہوا تھا ۔ لیکن اسے ساری رات نیند نہیں آئی۔ وہ خاموشی سے روتا رہا اور چاچا کو بری نظر سے دیکھتا رہا جو زور کے خراٹے لے رہا تھا ۔
اگلی صبح چاچا نے ایک دھلی ہوئی قمیض پتلون عارف کو دی اور تیار ہونے کے لئے بہت ساری ہدایات دیں ۔
عارف تیار ہو گیا تو چاچا پھر اسے موٹر رکشے میں بٹھا کر ایک بڑے مکان کے سامنے لے آیا ۔ موٹر رکشے سے اتر کر چاچا نے عارف کو کہا۔
"یہ بہت بھلے مانس لوگ ہیں ۔ یہاں محنت سے کام کرنا ۔ اسی میں تمہارا اور تمہارے گھر والوں کا فائدہ ہے ۔ میں کچھ عرصے بعد تمہیں گھر والوں سے ملوانے کے لئے گاوں لے جاؤں گا ۔"
مکان کے اندر سے ایک بڑی عمر کی عورت آئی۔
چاچا نے اس سے کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں اور پھر عارف سے بولا۔
"یہ تمہاری چاچی ہے ۔ یہ تمہیں سب کام سکھا دے گی اور تم یہاں عیش کرو گے ۔ جو مرضی جتنا مر ض کھاؤ پیؤ۔"
چاچی نے عارف پر کافی وقت لگایا اور اسے اس گھر کے طور طریقے سکھائے ۔ چاچی کا برتاؤ عارف کے ساتھ نرم تھا ۔ اسی لئے اسے گھر والوں کی یاد کم ستاتی تھی ۔
عارف صبح سے رات تک صفائ، ستھرائی ، برتن دھونا اور کئی مختلف کام کرتا ۔
اس نے یہ سب کام جلدی سیکھ لئے ۔ رات کو سب کام ختم کر کے وہ چاچی کی ساتھ اس کے ٹوٹے پھوٹے گھر چلا جاتا جو کوٹھی کے قریب ایک خالی پلاٹ پر بنا ہوا تھا ۔ یہاں چاچی عارف کو کچھ لکھنا پڑھنا سکھاتی ۔ کچھ عرصے میں عارف نے حساب کرنا اور اردو پڑھنا سیکھ لیا ۔ اب وہ تھوڑا بہت اخبار بھی پڑھ لیتا تھا ۔
کوٹھی کے سب لوگ عارف کے ساتھ اچھے تھے لیکن مالکن جسے چاچی بیگم صاحبہ کہہ کر پکارتی تھی بد تمیز تھی اور زرا زرا سی بات پر ہر ایک کو ڈانٹتی تھی۔
عارف کو جب ڈانٹ ڈپٹ پڑتی تو اس کو ابا جی بہت یاد آتے اور اکثر چھپ کر رونے لگتا ۔ اور پھر اسے اپنے سب گھر والوں کی یاد خوب ستاتی ۔ اس کا گھر واپس جانے کا اضطراب بڑھ جاتا ۔ اسے خوفناک چاچا کا انتظار رہتا جو اس کو گاوں لے جائے ۔ وہ ہر روز چاچی سے اس بارے میں پوچھتا اور چاچی اسے تسلّی دیتی کہ اس دفعہ وہ کراچی آ ئےگا تو واپسی میں اسے ساتھ لے جائے گا ۔

عارف کو باورچی خانے میں کام کرنا اچھا لگتا تھا ۔ اس نے چا ئے بنانا اور عمدہ طریقے سے پیش کرناسیکھ لی، وہ غور سے دیکھتا رہتا کہ آٹا کیسے گوندھتے ہیں ، روٹی کیسے بنتی ہے ۔ چند ماہ بعد وہ خود آٹا گوندھ کر روٹی پکانے لگ گیا ۔ جب کوٹھی کے رہنے والے عارف کی بنی ہوئی چائے یا پکی ہوئی روٹی کی تعریف کرتے تو وہ پھولے نہیں سماتا۔
آخر کار وہ دن بھی آیا کہ خوفناک چاچا آ گیا اور چاچی کو بتایا کہ عارف کے گھر والوں نے جنت بی بی کو بہت تنگ کیا ہو ا ہے ۔
اس کو گھر لے جانا ضروری ہے۔ سولہ ماہ بعد عارف اپنے گاوں گیا تو خوشی کے مارے پاگل ہوا جا رہا تھا ۔ گھر والوں سے خوب گلے ملا ۔ پھر دو تین دن تک شہر کی باتیں سناتا رہا ۔ اس کی ماں کو عارف کی تنخواہ باقاعدگی سے مل رہی تھی اور گھر کے مالی حالات قدرے بہتر تھے ۔ لیکن ایک ہفتے بعد ہی عارف کا جی اکتانے لگ گیا ۔ وہ کوٹھی کے باورچی خانے میں واپس جانا چاہتا تھا جہاں و ہ چا ئے بنائے اور اسے اچھے اچھے برتنوں میں پیش کرے، روٹیاں پکائے اور کھانا پکانا سیکھے۔
اب وہ جنت بی بی کا انتظار کر رہا تھا ۔ جب تین ہفتے اور گزر گئے تو جنت بی بی اسے گاوں سے لے آئی اور چاچا کے حوالے کر دیا ۔ اس دفعہ عارف خوشی خوشی کراچی جا رہا تھا ۔
عارف جب واپس کراچی پہنچ کر کوٹھی کے باورچی خانے میں گیا تو اسے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔ اس کو روٹی پکانے ، چائے بنانے اور پیش کرنے کے عمل سے ایک تسکین ملتی تھی ۔
وہ اس تسکین اور فخر کے لئے بیگم صاحبہ کی پھٹکار کو نظر انداز کر دیتا تھا ۔
اب عارف کی نظریں کہیں اور تھیں ۔ وہ کھانے پکانے کا فن سیکھنا چاہتا تھا جن میں سے زیادہ تر کھانوں کے نام اسے نہیں آتے تھے ۔ اس نے چاچی سے پیاز اور سبزی کاٹنے کے لئے پوچھا اور کچھ ہی دنوں بعد وہ آسان آسان کھانے پکانے لگ گیا ۔ چودہ برس کی عمر میں وہ ایک پکوانچی بن گیا ۔
جب اسے موقعہ ملتا تو چھوٹے موٹے کھانوں کے تجربے بھی کر لیتا۔ اب تو بیگم صاحبہ کا رویہ بدلا ہوا تھا اور وہ بھی اس سے من پسند کھانوں کی فرمائش کرتی۔
عارف اب بیگم صاحبہ کی تین سہیلیوں کے گھر کھانے پکانے جاتا تھا اور بیگم صاحبہ کی کوٹھی میں بھی وہ صرف پکانے کے لئےہی آتا تھا ۔ بیگم صاحبہ اس کی اجرت کے پیسے چاچی کو دیتی تھیں جس کے بارے میں اس نے چاچی سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا ۔
وہ چاچی سے بھی ماں کی طرح محبت کرتا تھا یا شاید اس سے بھی زیادہ ۔ بیگم صاحبہ کی سہیلیوں سے اس کی آمدنی اچھی تھی ۔ اور وہ مجموعی طورپر خدا کا بہت شکر گزار تھا۔
اس دفعہ چھوٹی عید کے موقع پر وہ گاوں گیا تو اسے پتہ چلا کہ باپ کا ایک ہی دن پہلے انتقال ہو ا ہے۔ چھوٹے بھائی نے رو رو کر بتایا کہ آخری وقت تک ابا جی کی نظریں دروازے پر لگی رہیں ۔
اور وہ اسی کا نام لے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جنت بی بی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ تمہیں نزدیک کے کسی شہر میں کام پر رکھوائے گی لیکن زیادہ پیسوں کے لالچ میں اس نے تمہیں کراچی بھیج دیا ۔ وہ ہر وقت تمہارا بے چینی سے انتظار کرتے رہتے ۔ اور ماں بھی تمہاری شکل کو ترستی رہتی ہے ۔
پہلے عارف کے دل میں کبھی کبھار غصے کی لہر دوڑ جاتی کہ اس کے ماں باپ نے بیس ہزار روپے کی خاطر اسے بیچ دیا ۔
لیکن اب وہ سمجھتا تھا کی یہ ان کی مجبوری تھی ۔ انہوں نے میرا سودا تو کیا لیکن اس شرط پر کہ جنت بی بی مجھ کو ان سے ملواتی رہے گی ۔ اور مجھے اس کا فائدہ ہوا کہ میں ایک پکوانچی بن گیا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ۔
چھوٹی بہن نے عارف کو بتایا کہ جنت بی بی پچھلے سال کچھ پیسے دے کر فضلو چچا کے بیٹے اور بیٹی کو لے گئی تھی ۔ یہ کبھی گاوں ملنے واپس نہیں آئے ۔
پھر عارف اپنے دوست نثار کے بارے میں پتہ کرنے کے لئے اس کے گھر گیا۔ نثار کئی سالوں سے غائب تھا۔ جنت بی بی کے بقول وہ کام چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ اس کے ماں باپ کا رو رو کر برا حال تھا ۔ عارف اس کے ماں باپ کا دکھ سہہ نہیں پا رہا تھا ۔ پتہ نہیں جنت بی بی نے کتنے بچے کہاں کہاں جھونک دئے، کتنے لاپتہ ہوں گے اور کتنے بھاگ کر چکلوں اور غنڈوں کے گروہوں میں مجبوراً شامل ہو گئے ہوں گے یا انہیں آگے بیچ دیا گیا ہو گا ۔
وہ جنت بی بی کے گھر جائے گا اور ایک ایک بچے کا حساب لے گا ۔
جب باپ کی تدفین کی رسومات پوری ہو گئیں اور افسوس کے لئے آنے جانے والوں کا سلسلہ ختم ہو گیا تو وہ جنت بی بی کے گھر پہنچ گیا ۔ جنت بی بی نے دیکھتے ہی اس کی تعریفیں شروع کردیں ۔ اور عارف کچھ بھی نہ کہہ سکا ، کچھ بھی نہیں ۔ اندر کا لاوا اندر ہی رہا ۔ جنت بی بی کی میٹھی میٹھی باتوں نے لاوا باہر نلکلنے کے سارے سوراخ بند کر دیئے ۔
عارف بوجھل قدموں کے ساتھ واپس آ گیا۔ اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ اس کی انا جنت بی بی کی دو چار تعریفیں سن کر آسمان کو چھو رہی تھی اور یہ لا عملی اس کی انا کا قصور تھا، یعنی اس کا اپنا قصور تھا ۔
کچھ دنوں کے بعد عارف کراچی آگیا ۔ لیکن وہ پہلے کی طرح خوش نہیں تھا ۔ اپنے کام کاج میں مشغول تو ہو گیا لیکن اس کی روح میں ایک کانٹا چبھا ہوا تھا ۔ اس کو نکالنے کے لئے وہ پھر جنت بی بی کے پاس جائے گا ۔ لیکن پھر وہ تذبذب کا شکار ہو جاتا کہ وہ اپنے محسن سے کس طرح اوروں کا حساب لے گا!

Browse More Urdu Literature Articles