Kafirastan K Musalman - Article No. 2134

Kafirastan K Musalman

”کافرستان کے مسلمان“ - تحریر نمبر 2134

”کافرستان کے مسلمان“

حسنین ملک جمعرات 12 ستمبر 2019

ہم چترال کے جس بھی گاؤں میں جاتے زلزلہ متاثرین کی فہرست بناتے ، پھر ان کے گھروں کو جا کر دیکھتے جو زیادہ تر ملبہ کے ڈھیر بن چکے تھے ۔ہمارے پاس بھی فنڈ اور ادویات محدود تھیں اسلئے ہم نے سوچا کہ ہم ہر گاؤں میں تیس افراد کو پیسے دیں گے اور تین سو افراد کو دوائیاں تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ گاؤں میں جاکر حسبِ توفیق کام کر سکیں۔ہر گاؤں کے ناظم ، کونسلر،قریبی تھانے یا چوکی کے کسی ملازم کو ساتھ رکھتے ۔
وہ ہمیں بیس یا تیس افراد کی فہرست بنا دیتے اور ہم ان سب کوملنے،دیکھنے پرکھنے کے بعد ایک جتنے پیسے دیتے، میڈیکل کیمپ لگاتے اور اگلے گاؤں کی طرف چل پڑتے۔
زیادہ تر لوگ وہاں دریا کے آس پاس رہتے ہیں تاکہ پانی حاصل کرنے اور کھیتی باڑی میں آسانی ہو۔ کچھ لوگ پہاڑوں کے اوپر گھر بناتے ہیں تاکہ سیلابوں سے بچے رہیں ۔

(جاری ہے)

ایسے افراد کو پہاڑ سے نیچے اتر کر دریا کے پاس آکر لکڑیاں اور پانی اکٹھی کرنی پڑتی ہیں اور سر پر اُٹھا کر واپس پہاڑ کے اوپر گھروں میں جانا پڑتا۔

ایسے ہی ایک پہاڑ سے اترتے ہوئے سامنے سے دریا کی طرف سے ایک اماں جی نظر آئی جنکی عمر کم سے کم ساٹھ سال ہوگی۔ انھوں نے سر پر ایک بہت بڑا لکڑیوں کا گٹھا اُٹھایا ہوا جو انکی عمر اور انکی صحت سے بہت بڑا لگ رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست سے جو انکی زبان جانتا تھا، کہا کہ ان سے پوچھے کہ اتنی زیادہ لکڑیاں کیوں اٹھائی ہیں اتنی لکڑیاں تو ایک ہفتے کے لئے کافی ہوں گی تو بہتر نہیں کہ دو یا تین دن کے حساب سے اٹھا لیا کریں تاکہ اتنی مشکل نہ ہو۔

اماں جی نے چلتے چلتے پھولی سانس سے جواب دیا کہ اوپر گاؤں میں کچھ لڑکیاں ہیں جنکے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تو میں نے سوچا کہ نیچے آہی گئی ہوں تو انکے لئے بھی لے جاؤں انکو آنا نہیں پڑے گا۔انکے چھوٹے بچے ہیں انہی کو سنبھالنا اتنا مشکل کام ہے۔۔۔

قرآن نے میرے کان میں سرگوشی کی ”لوگوں کی مدد کیا کرو“
میری ایک ساتھی سوشل ورکر عورتوں کو گھر کے اندر جا کر ان کی مالی مدد کر دیتی تھی خاص کر وہ عورتیں جن کے گھر والے نہیں تھے ۔
وہ ایک گھر کے اندر گئی ہم باہر انتظار میں کھڑے تھے وہ واپس آئی تو اس کے گلے میں ایک موتیوں کی مالا تھی جو کیلاش کی عورتیں عموماً پہنی ہو ئی نظر آتی ہیں ۔ وہ بولی جب میں نے اِس گھر کی خاتون کو پیسے دیے تو وہ اتنی خوش ہوئی کہ اسنے اپنے گلے سے یہ مالا اتار کر مجھے پہنا دی۔
کیلاش کے اندر ہی چترال روڈ پر ایک دوکا ن تھی جس میں مقامی چیزیں، موتی ، جیولری اور کپڑے پر کشیدہ کاری کے نمونے میسر تھے ۔
ہم وہاں رکے تو ویسی ہی ایک مالا مجھے وہاں نظر آئی۔ میں نے دوکاندار سے اسکی قیمت معلوم کی تو وہ اس رقم سے دو گُنا زیادہ تھی جتنی ہم نے اس عورت کو مدد کے طور پر دی تھی۔
قرآن کی مالا میں سے سورة اٰلِ عمران کا موتی نمبر 92 میرے سامنے آکر چمکا
”جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے الله کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ،ہرگز نیکی تک نہیں پہنچ سکتے“
کافرستان کے ایک گاؤں کے عین وسط میں جب ہم میڈیکل کیمپ لگا چکے تھے تو ہمارے پاس کچھ عام ادویات بھی تھیں جو بخار، گلا خراب، الرجی یا کھانسی کے لئے مفید ہوتی اورہمارے ہاں تقریباً ہر گھر میں پائی جاتی۔
ہم نے سوچا یہ ادویات سب لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں تاکہ بعد میں بھی ان کے کام آتی رہیں۔ایک چھوٹی سی پیاری سی بچی آکر میرے پاس کھڑی ہو گئی ۔ میں نے اس سے پوچھا آپکو اُردو آتی ہے تو اسنے کہا جی آتی ہے میں سکو ل بھی جاتی ہوں۔ میں نے اسے پاس بٹھایااُس سے کہا کہ یہ دوائی بخار کی ہے دوسری گلا خراب ہو تو تب لینی چاہیے تیسری فلاں اور چوتھی فلاں وقت۔
۔۔اُس بچی نے جس کا نام گلُ فاریہ تھا کہا کہ میں بیمار نہیں ہوں، میں نے کہا گھر میں کوئی ہوگا اسکے لیے لے جاؤ، وہ بولی گھر میں بھی سب ٹھیک ہیں، میں نے کہا رکھ لو کبھی بیمار ہو جاؤ تو یہ ٹھیک کر دیں گی تو اب اُس نے فیصلہ کُن جواب سُنا دیا ۔جب بیمار ہونگی تو ’دیزاؤ‘ ٹھیک کر دے گا۔ مجھے واپس چترال پہنچ کر Google نے بتایا کہ دیزاؤ انکے خدا کا نام ہے اور بچی کو پورا یقین ہے کہ جب بیمار ہونگی تو وہ ٹھیک کرے گا۔
ایسے لگا جیسے گل فاریہ نے مجھے اُس آ یت پر یقین کر ناسکھا دیا ہو
”جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے “ سورة الشعرا ء
وہیں مجھے ایک گھر کے باہر انگلش میں لکھا ہوا بورڈ نظر آیا English Language Academy
مجھے تجسس ہوا کہ اتنے غریب اور پستہ حال علاقے میں بھی انگلش اکیڈمی موجود ہے ۔ پتہ کرنے پر معلوم ہواکہ ایک مقامی صاحب جو اب کافی بزرگ ہو چکے ہیں وہ کسی دور میں کراچی میں نوکری کرتے رہے جہاں انھوں نے کچھ بنیادی انگریزی بولنا اور پڑھنا سیکھی تھی ۔
ان سے ملاقات کرنے پر انھوں نے بتایاکہ ان کو ایسی اور کوئی چیزسمجھ نہیں آتی تھی جووہ اپنے گاؤں والوں کے ساتھ بانٹ سکتے تو انھوں نے سوچا کہ سب کو انگریزی سکھائی جائے کیونکہ یہی ایک واحد چیز تھی انکے پاس جو گاؤں والوں کے پاس نہیں تھی اور وہ یہ خدمت پچھلے بیس سالوں سے مفت میں کر رہے تھے “
سورة بقرة نے پھر وضاحت فرمائی
”اگر اپنے صدقات اعلانیہ دو تو اچھا ہے اور اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ بھلا ہے تمھارے لئے“
کیلاش میں تھانہ کے ایک ملازم شروع سے ہمارے ساتھ رہے ۔
میں نے ان سے گپ شپ کے دوران پوچھا
”یہاں تھانہ کے کیا حالات ہیں اور کس قسم کے مسائل زیادہ آتے ہیں آپکے پاس“
ان کا جواب ایٹم بم کی طرح پھٹا جس کے اثرات آج چارسال بعد بھی محسوس ہوتے مجھے۔ وہ بولے
”یہاں سارا دن کچھ بھی نہیں کرنا ہوتا ،پاکستان بننے کے بعد سے لیکر آج تک ایک بھی ایف آئی آر نہیں درج ہوئی، یہاں نہ کوئی کسی کی جائداد پر قبضہ کرتا ہے ، نہ یہ لوگ لڑتے ہیں آپس میں، نہ کوئی کسی کی چوری کرتا ہے ، بہت سے پولیس افسر تو یہاں آنے کو سزا سمجھتے ہیں کیونکہ یہاں کوئی ’کمائی‘ نہیں ہوتی زیادہ سے زیادہ کسی کا جانور گُم جاتا جو اگلے دن یا توکہیں سے مل جاتا یا خود ہی واپس آجاتا “
کہیں سامنے سے البقرہ نے پھر آواز لگائی ”اے ایمان والو! اایک دوسرے کے مال نہ ہڑپ کرو“
ایسے ہی ایک دن ہم کیلاش کے ایک اورگاؤں میں پہنچے ۔
وہاں کے ایک مقامی کیلاشی ملازم سے ملے، اس سے کہا کہ ہمیں بیس افراد کی فہرست بنا دو۔ وہ کافی دیر ایک کاغذ پر کچھ لکھتا رہاپھر آکر کہتا ہے
”سر ! ہمارے گاؤں میں صرف 19گھر ایسے ہیں جن کو مالی امداد کی ضرورت ہے باقی سب ٹھیک ہیں“
میرے ایک ساتھی جو چترال سے ہمارے ساتھ تھے وہ مجھے تنہائی میں لے جا کر کہنے لگے یار یہ عجیب آدمی ہے ۔
ہم جس بھی گاؤں میں گئے کسی کو 30گھرکہا تو اسنے 30پورے کر دیے کسی کو20 کہا تو اسنے 20پورے کر دیے اور یہ پہلا ہے جو کسی بھی آدمی کو ملا کر20 پورے کر سکتا تھا اور تقر یباً سارا گاؤں ہی غریب سا ہے مگر یہ کہہ رہا ہے کہ صرف 19گھر ہی ایسے ہیں۔۔۔
کہیں سے قرآن کی آواز آئی ”سچ بولا کرو“
اور ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا تھا ”مسلمان جھوٹ نہیں بول سکتا“
ایسا لگا پورے کافرستان میں صرف مسلمان رہتے ہیں۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles