Karachi Ka Safar (Pehli Qist) - Article No. 2330

Karachi Ka Safar (Pehli Qist)

کراچی کا سفر ( پہلی قسط) - تحریر نمبر 2330

بلآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی اور وہ لمحہ آگیا جب میں نے اپنے رشتہ داروں کا دیدار کر لیا۔ اب پہلی ہی نظر میں فیصلہ کرنے سے رہی کہ ان کے ساتھ اس طویل مسافت کا کیسا تجربہ حاصل ہوگامگر اس کے باوجود شروع کی سرسری ملاقات سے کوئی مثبت خیال ذہن میں نہ آیا

نورین شفا جمعہ 8 مئی 2020

اپنی اب تک کی زندگی میں پہلی بار کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ سفر تو تھا خا صالمبا مگرچاہے سفرجتنا بھی طویل کیوں نہ ہو،میں تو تھی ہی سفر کی شوقین۔ جب بھی کبھی ابو عید یا کسی اور خاص موقع پہ گاؤں لیجانے کا فیصلہ سناتے،تب بھی گاؤں پہنچنے سے زیادہ رستے کے بارے میں سوچ کر خوشی ہوتی۔ خیر کیونکہ کراچی رہا پاکستان کے اس کونے میں اور گلگت رہا اس کونے میں تو سفر تو تھا دو دنوں پہ مشتمل خاصا لمبا لیکن سفر کی شوقین ہونے کی وجہ سے اس دو دنوں کی طویل اور مسلسل طے کرنے والی مسافت اوراس سے جڑی سختیوں کو زیادہ سر پہ سوار ہونے نہیں دیا مگر جب ابو نے چھٹیوں پہ اچانک سے کراچی بھیجنے کی نوید سنادی توسب سے پہلا مسئلہ ہی یہی پیدا ہوا کہ جاؤں کن کے ساتھ۔
گھر پہ ابؤ یا بھائی اتنے فارغ تو تھے نہیں کہ مجھے کراچی پہنچا کر میرے ساتھ دو مہینے پھوپھی کے گھرشغل کرنے ٹھہرتے مگر ابؤ نے کہیں نہ کہیں سے قریبی جاننے والے رشتہ دار نکال ہی لیئے جو کہ اتفاق سے انہی دنوں کراچی جانے کے لیے اپنا رختے سفر باندھ چکے تھے۔

(جاری ہے)

ان رشتہ داروں میں ایک مرد جو کہ رشتے میں میرے چچا بنتے تھے،ساتھ ان کی زوجا اوران دونوں کے ساتھ چچاحضرت کی ساس بھی شریک سفر تھی اور اب ان تینوں کے ساتھ میرا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔

جن دنوں کراچی جانے کا فیصلہ کیا سردیوں کی تعطیلات چل رہی تھیں۔ گلگت کے دسمبر کی یخ سردی سے بچنے کا یہ ویسے بھی اچھا راستہ تھا کہ میں اپنا بوریا بستر باندھ کر کراچی کی طرف روانہ ہوجاتی۔ابؤ نے ہمسفر کے طور پر جب رشتہ داروں کا انتظام کر ہی لیا تو یہ سب سے اہم مسئلہ بھی حل ہو گیا تھا۔ یہ رشتہ دارتھے تو ہمارے قریب کے مگرکبھی ملنے کا اور تھوڑا بہت بھی جاننے کا اتفاق نہیں رہا تھا۔
خیر جب یہ سب سے اہم مسئلہ حل ہوا توچٹ ٹکٹ کٹایا اور پٹ سے روانگی کی تاریخ بھی آگئی۔ موسم تو تھا سردیوں کا اور مہینہ بھی کڑکتی ٹھنڑ پہ مبنی دسمبر کا مگر اس کے باوجود کراچی کی گرمی جو اس مہینے میں بھی ہم جیسے برفانی علاقے سے تعلق رکھنے والوں کو جون جلائی کی گرمی کی یاد دلاتی تھی،اپنے سارے کاٹن اور اون کے سوٹ سمیٹ کر ابؤ اوربھائی کے ساتھ اڑّے کی طرف روانہ ہوئی۔
اڑےّ پہنچنے تک پورا رستہ اپنے انجان رشتہ داروں جو کہ میرے اتنے لمبے سفر کے ساتھی تھے جاننے کے لیئے تجسس میں اضافہ ہوتا رہا۔ نجانے کیسے لوگ ہونگے، کیسے مزاج ہونگے۔ چلواگر کچھ گھنٹوں کے سفر کی بات ہوتی تو جیسے تیسے گزارہ کر لیتی چاہے جس قسم کے بھی مزاج سے تعلق رکھتے ہو مگر سفر وہ بھی مسلسل دو دنوں کا، پریشانی تو حق بجا تھی۔سفر چاہے جتنا بھی طویل کیوں نہ ہو اگر ہم سفر ہم خیال اور ہم مزاج ہو تو سفر کی سختیوں میں کافی حد تک کمی محسوس ہونے لگتی ہے اوراگر سفر کی تلخیاں اپنا اثر دکھا بھی دے تب بھی اپنے ہم خیال شریک سفر کے ساتھ ان تلخیوں کو بانٹ کر بدلے میں کچھ زیادہ نہ سہی تو تھوڑے بہت بھی زبانی کلامی تسلیوں پر مبنی جملے حاصل کرکے اپنے سفر کی تکلیفوں پہ مرہم کا کام کر لیتے ہیں۔
بلآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی اور وہ لمحہ آگیا جب میں نے اپنے رشتہ داروں کا دیدار کر لیا۔ اب پہلی ہی نظر میں فیصلہ کرنے سے رہی کہ ان کے ساتھ اس طویل مسافت کا کیسا تجربہ حاصل ہوگامگر اس کے باوجود شروع کی سرسری ملاقات سے کوئی مثبت خیال ذہن میں نہ آیا مگر جو بھی تھا کوئی دوسرا اختیار تو پاس تھا نہیں چاہے مثبت خیال آتے یا پھر منفی سفر تو انہی کے ساتھ ہی طے کرنا پایا تھا۔ اڑّے پہنچنے تک بس کی روانگی کا وقت آن پہنچا تھا تو زیادہ انتظار کرنے کی نوبت نہ آئی۔ رشتہ داروں سے تھوڑے بہت تعارف کے بعد بسم اللہ پڑھ کر اس امید کے ساتھ کہ دو دنوں کا سفر خیر و عافیت اور اچھے تجربے کے ساتھ اختتام پزیر ہو دایاں قدم بس میں رکھ کر اپنے سفر کا آغاز کر دیا۔ لیکن یہ کیا؟؟؟

Browse More Urdu Literature Articles