Mohenjo Daro Ka Dora - Article No. 1994

Mohenjo Daro Ka Dora

موئن جو دڑو کا دورہ - تحریر نمبر 1994

مادر وطن کے سارے رنگ ڈھنگ منفرد اور نرالے ہیں، اس بار ہم نے وادی مہران سندھ کی پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب موئن جو دڑو کا رخ کیا، جو لاڑکانہ سے چھبیس کلومیٹر کی دوری پر ہے

Adnan khan bonairee عدنان خان بونیری بدھ 3 اپریل 2019

پاکستان کو قدرت نے ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے، جس میں سنگلاخ پہاڑ، بلند و بالا چوٹیاں، بے آب و گیاہ صحرا، آبشاریں، دریا، سمندر، ہریالی، چار موسم، پھل، سبزیاں اور معدنیات شامل ہیں، سندھ ہو یا پنجاب، پختونخواہ ہو یا بلوچستان، سب کی اپنی تاریخ، روایت، ثقافت اور تہذیب ہے۔ مادر وطن کے سارے رنگ ڈھنگ منفرد اور نرالے ہیں، اس بار ہم نے وادی مہران سندھ کی پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب موئن جو دڑو کا رخ کیا، جو لاڑکانہ سے چھبیس کلومیٹر کی دوری پر ہے، اپنے والد محترم یوسف خان، ماموں سعید انور خان اور چھوٹے بھائی ذیشان خان نے کراچی سے لاڑکانہ کا رخت سفر باندھا اور تین سو بائیس کلومیٹر کا سفر ساڑھے چھ گھنٹوں میں طے کیا، لاڑکانہ پہنچے تو ہمارے محترم بھائی اور جنگلی حیات کے محافظ وائلڈ لائف لاڑکانہ ڈویژن کے ڈپٹی کنزرویٹر صاحب زادہ میر اعجاز تالپور صاحب نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہمیں اپنے ساتھ سڑک کنارے واقع ڈھابہ ہوٹل پر لے گئے، جہاں ہم نے کھلی فضاء اور پرسکون ماحول میں گرما گرم چائے کی چسکیاں لیں، جس کے بعد اعجاز ٹالپور نے ہمیں اپنے اسٹاف نیاز جوکھیو کے ہمراہ موئن جو دڑو کیلئے رخصت کیا اور وہاں کے ذمہ دار ارشد صاحب کو ہماری رہنمائی کا کہہ دیا، موئن جو دڑو پہنچے تو وہاں کے خوش مزاج اور ہنس مْک ملازم محمد اسماعیل نے ہمارا استقبال کیا اور سب سے پہلے ہمیں موئن جو دڑو میوزیم کی سیر کروائی۔

(جاری ہے)

آثار قدیمہ سے روشناس کروایا اور تاریخ سے مختصر آگاہی فراہم کی۔ محمد اسماعیل کے مطابق اس شہر کو انیس سو بیانوے میں دریافت کیا گیا، اس کی کشادہ گلیاں، نکاسی آب کا نظام دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں، اب تک موئن جو دڑو کی لگ بھگ دس ایکڑ اراضی کی کھدائی کا کام کیا گیا ہے، اس دوران قیمتی، نایاب نوادرات، زیورات اور اشیاء بھی ملی ہیں، جنہیں بطور یادگار میوزیم میں رکھا گیا ہے، منکوں کے ہار، سونے، چاندی کی چوڑیاں شامل ہیں، اس کے ساتھ کئی اقسام کے پتھر جبکہ گندم، جو کے دانے، منفرد چکیاں اور کھجور کی گٹھلیاں بھی ملی ہیں۔
اس کے علاوہ چند تیر، کمانیں، مختلف اقسام کی مہریں بھی ملی ہیں، جن پر جنگلی حیات کی تصاویر کی شکل میں رسم الخط تحریر کیا گیا ہے، یہ سب کچھ دیکھ کر اور جان کر خود کو کچھ لمحوں کیلئے صدیوں پیچھے جاتا ہوا پایا، پھر محمد اسماعیل نے ہمیں موئن جو دڑو سائٹ کا دورہ کروایا اور وہاں بھی ہماری بھرپور رہنمائی کی، ہم نے اپنے سفر کو یادگار بنانے کیلئے موئن جو دڑو میوزیم اور سائٹ پر تصاویر بھی بنوائیں،اس کیبعد ہم نے وہاں سے رخصت چاہی اور دوبارہ لاڑکانہ کی جانب رواں دواں ہوئے، لاڑکانہ پہنچے تو ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز تالپور صاحب نے جنگلی حیات کی محفوظ پناہ گاہ لنگ جھیل کے تاریخی ریسٹ ہاؤس میں ہمارے طعام کا اہتمام کر رکھا تھا۔
ڈائننگ ٹیبل پر مختلف انواع و اقسام کے کھانے اور سندھ کے باسیوں کی پسندیدہ میٹھے پانی کی مچھلی دستیاب تھی، ہم سب نے ساتھ ملکر کھانا کھایا اور پھر گپ شپ کارنر میں چائے کا دورہ بھی چلا، جس کے بعد اعجاز تالپور گھر روانہ ہوئے اور ہم نے ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا، کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، اگلے روز کا خوشگوار سفر اگلے مضمون کی زینت بنے گا۔۔

Browse More Urdu Literature Articles