Safarnama Aik Din Ka - Article No. 2300

Safarnama Aik Din Ka

سفرنامہ ایک دن کا۔۔۔ - تحریر نمبر 2300

میں ایک دن صبح نو بجے گھر سے نکلتی ہوں۔وہ دن بھی ہزاروں دنوں کی طرح عام سا ہے۔وہی صبح کی گہما گہمی ،اوپر آگ برساتاہواسورج،نیچے جلتی ہوئی زمین

سمیرا ایم ایس دین ہفتہ 4 اپریل 2020

میں ایک دن صبح نو بجے گھر سے نکلتی ہوں۔وہ دن بھی ہزاروں دنوں کی طرح عام سا ہے۔وہی صبح کی گہما گہمی ،اوپر آگ برساتاہواسورج،نیچے جلتی ہوئی زمین۔نیزہرقسم کے شوروغل سے آراستہ دن!
میں گلی سے نکل کر سڑک پر آتی ہوں۔وہاں کافی لوگ جمع ہیں اپنی مطلوبہ بس کے لیے ،ہر کوئی چہرے پر بیزاری سجائے کھڑا ہے۔ طالب علم،کاریگر،مزدور، کلرک غرض ہر قسم کے لوگ ان میں شامل ہیں۔
سڑک کے کنارے ٹھیلے والے اپنے کام سے کام رکھے اپنی تیاری میں مشغول ہیں۔ پھر میں بس میں چڑھتی ہوں۔وہاں ہر مسافر سوچوں کے سمندر میں گم خاموش تصویر بنا بیٹھا ہے۔ ایک طالب علم اس سوچ میں گم ہے کہ امتحا نات سر پے ہیں اور گھر کے مختلف کاموں کی تھکن کی وجہ سے پڑھائی نہیں ہو پارہی۔اسکول یا کالج اور پھر کوچنگ یا پھر پارٹ ٹائم جاب ، غرض سارا وقت آنے جانے میں گزر جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایک کاریگر اس سوچ میں گم ہے کہ وہ کیا کام کرے اور کس کا کام کرے؟ یہاں تو ہر کوئی روپیہ پیسا بچانے کی خاطر کاریگر بنا ہوا ہے۔وہ اپنے دل میں سوچتا ہے کہ بلاوجہ اس نے اتنی محنت اور پیسا ضایٴع کرکے کاریگری سیکھی۔ ایک مزدور سخت ہراساں ہے کہ اگر اس مہینے بھی کام نا ملا تو نوبت فاقوں تک آجائیگی۔ جبکہ وہ ہر روز اپنے اوزار لے کر سڑکوں کی خاک چھانتا ہے۔
لیکن اسے کام نہیں ملتا۔ ایک کلرک کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اگر اس نے اب بھی دیانت داری کا لبادہ اوڑھے رکھا اور رشوت کا سہارا نہ لیا تو ہوسکتاہے اسے مستقبل میں نوکری سے ہا تھ دھوناپڑے اوراس کے گھرکا چولہا ٹھندا پڑجائے ٰ۔ میں بس سے اترتی ہوں۔سامنے نالا ہے جو کہ کوڑاکرکٹ سے بھراپڑا ہے۔سامنے ایک ٹوٹی ہوئی فٹ پاتھ کے بائیں طرف گہرے کھڈ میں پانی جمع ہے اس میں قریبی جھگیوں میں رہنے والوں کے بچے نہارہے ہیں۔
نہ انھیں سڑک پر بے دھڑک بھاگتے طوفانی ٹریفک کا ڈر ہے نہ چلچلاتی دھوپ کا اور نہ ہی ماحولیاتی آلودگی کا۔ سڑک کے بائیں جانب ایک کارخانے میں مزدور اپنی جان کی پروا کئے بغیر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں کارخانے سے اٹھتا دھواں ماحول کی آلودگی میں اضافہ کررہاہے۔میں آگے بڑھتی ہوں ایک گندی سی سڑک آجاتی ہے۔اس کے ایک کونے میں پڑے کوڑاکرکٹ میں ایک چھوٹا سا بچہ اپنے کاندھے پر ایک بوسیدہ سا تھیلا لٹکائے کاغذ چن رہا ہے۔
چنتے چنتے جب تھک جاتا ہے تو کچھ دیر بیٹھ جاتا ہے اور ایک تنکے سے کچی زمین پر لکیریں کھینچنے لگ جاتا ہے نجانے کس خوش قسمتی کی تلاش میں،اچانک اسکے چہرے پر خوشی کی لہردوڑی جیسے کویٴ خزانہ دریافت کرلیا ہویکایک اسکے ہا تھ میں ایک گاجر دیکھتی ہوں۔
جو اسے کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔وہ اسے اپنی میل زدہ قمیض سے صاف کر کے کھانے لگتا ہے۔ پھر دوبارہ اپنا تھیلا کندھے پر ڈالے ایک انجان راستے کی جانب نکل جاتا ہے۔
میں سڑک کو پیچھے چھوڑ کر ایک اور سٹاپ کی طرف بڑھتی ہوں۔ اب سورج سوا نیزے پر آگیا ہے۔ میرے سامنے ایک سٹاپ پرکچھ لوگ کھڑے بس کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ کبھی ادھر دیکھتے ہیں کبھی ادھر، کبھی کسی سوچ میں گم ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہاتھ میں پکڑی کسی چیز کو اپنے سر پر رکھ لیتے دھوپ سے بچنے کے لیے۔ ایک طرف گننے کے رس والاگرمی کی شدت سے بے خبر، لوگوں کو فٹافٹ رس نکال کر دے رہا ہے۔
کبھی کبھی وہ اپنی آستین سے اپنا ماتھا پونچ لیتا ہے ۔دور کہیں مئوذن نے اذان دی اس کے ساتھ ہی اکا دکا افراد مسجد کی طرف روانہ ہونے لگے۔ کچھ مزدور فٹپاتھ پر بیٹھے سوکھی روٹی اور جانے کتنے دنوں کا باسی سالن کھارہے ہیں۔ سورج آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور دن آہستہ آہستہ اپنی روشنی کھو رہا ہے۔ شام کی گہمہ گہمی کی ابتدا ہو رہی ہے۔
لوگ اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔کوئی کالج یا سکول تو کوئی آفس سے، کچھ اپنی گاڑیوں میں تو کچھ بس کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ اشیاء خوردونوش کے ٹھیلوں پر رش بڑھتا جارہا ہے۔ کنڈیکٹروں کی آوازیں، گاڑیوں کی آوازیں اور بیچنے والو ں کی آوازیں نیز ہر قسم کا شوروغل جاری و ساری ہے۔ سورج غروب ہوگیا ہے۔پورا شہر روشنی میں نہا گیاہے۔ٹریفک نے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔

اس وقت رات کے بارہ بجے ہیں۔ شاپنگ سینٹر ریسٹو رینٹ کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ آئے اپنے پسند کے ماحول اور کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
شاپنگ سینٹر سے کچھ لوگ اپنے مطلوبہ کپڑے لے رہے ہیں۔کچھ برتنوں کی دوکان کی جانب ہیں تو کچھ جوتے پسند کر رہے ہیں۔بچے کھلونوں کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ جبکہ زیادہ تر لوگ تو بس ونڈو شاپنگ میں ہی خوش نظر آرہے ہیں۔

چاند کا سفر جاری ہے۔ چاند کی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہی ہے۔ بڑا پر لطف ماحول ہے۔ شوروغل میںآ ہستہ آہستہ کمی واقع ہو رہی ہے۔ دوکانوں کے شٹر دھڑادھڑ گر رہے ہیں۔ریسٹورینٹ اور شاپنگ سینٹر سے لوگ نکل کر اپنے گھروں کی جانب لوٹ رہے ہیں۔
بیرے تھکے ہارے چیزوں کو جلد ازجلد سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔
گھڑی کے کانٹوں نے دو بجا دیے۔
اب سڑک بلکل سنسان ہوگئی ہے۔ سڑک پر جب کوئی اکا دکا گاڑی کی آواز سنناٹے کو چیرتی ہے تو صرف اک پل کے لیئے، اس کے بعد وہی پر اسرار خاموشی چھاجاتی ہے۔سب جگہ گھنپ اندھیرا ہے۔ نیلے آسمان تلے چاند اکیلا سورج کے دن بھر کڑنے پر مسکرا رہا ہے۔ چاند کے دائیں بائیں ستارے جگمگا رہے ہیں۔ کبھی کوئی بادل ان پر آتا ہے تو پھر وہ چھپ جاتے ہیں جیسے کوئی شرارتی بچہ کالے پردے کے پیچھے سے بار بار جھانک رہا ہو۔ رات ڈھل رہی ہے اور اسے ڈھلنا ہی ہے کیونکہ صبح پھر ایک دن طلوع ہونا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles