Thar Ka Safar - Article No. 2153

Thar Ka Safar

تھر کا سفر ( آخری قسط) - تحریر نمبر 2153

یہ سفر ہر لحاظ سے دلچسپ، تاریخی اور شاندار رہا، ہم نے زر کثیر اور مشقت اٹھا کر جو کچھ دیکھا آپ سب حضرات کو اس کی مفت میں سیر کرائی اور ڈھیروں ساری معلومات فراہم کی۔اس کے ساتھ اجازت دیجیے۔خدا-حافظ

محمد احمد ہفتہ 12 اکتوبر 2019

بارش کے بعد تھر کو سندھ کا کشمیر کہا جاتا ہے، یہ بالکل بجا ہے کہ ہر طرف سبزہ اور ہریالی ہی نظر آتی ہے۔تھر کا یہ ریگستان قدرت کی طرف سے بہت سی نعمتوں سے مالا مال ہے، گرینائیٹ پتھر، کوئلہ، نمک اور چینی کی مٹی سمیت بہت سی معدنیات کے ذخائر ہیں، لیکن حکومت کی عدم توجہی کے باعث کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔نایاب قسم کے ہرن، مور، تلور، تیتر سمیت اعلی قسم کے پرندوں اور جانوروں کی ہزاروں نسلیں پائی جاتی ہیں، جن کا بے دردی سے شکار کرکے نایاب نسلیں ختم کی جارہی ہیں، یہ محکمہ وائلڈ لائف کی ناکامی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تھر ایک بہترین پکنک پوائنٹ بھی ہے، بارش کے موسم میں ہزاروں سیاح تھر کا رخ کرتے ہیں، لیکن سیاحوں کی سہولتوں کے لیے حکومت نے ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دی، حکومت سہولیات کا انتظام کرکے بہت کچھ کما سکتی ہے، لیکن ان کو کرپشن کے علاوہ کسی چیز کی فرصت نہیں۔

(جاری ہے)

کسی بھی عوامی تفریح کی جگہ پر ایک بھی ٹوائلٹ نہیں، لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اور نہ ہی کوئی معیاری اور مناسب ریسٹورنٹ اور گیسٹ ہاؤس دستیاب ہے۔کولھی گیسٹ ہاؤس کے ہوش ربا ریٹ سن کر ڈر جاتے ہیں۔سنگل بیڈ کے ایک دن کا چار ہزار اور ڈبل بیڈ کا چھ ہزار کرایہ ہے، جس کے عام سیاح متحمل نہیں ہیں۔لوگوں کی تفریح کا مرکز زیادہ تر بھوڈیسر کی مسجد، ماروی کا کنواں، جین مندر، گوری مندر اور کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ وغیرہ ہوتے ہیں، جہاں سیاحوں کا بڑا رش ہوتا ہے۔
ہم کارونجھر کے علاوہ سب مقامات کا تفصیلی تذکرہ کرچکے ہیں. اس قسط میں کارونجھر کا تعارف اور سفر کی دیگر کارگزاری پیش کریں گے۔ننگر پارکر ایک چھوٹا شہر ہے جو کارونجھر کے پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔اس شہر کا نظارہ بڑا قابلِ دید ہے۔تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے کہ ننگر پارکر کی یہ خوبصورت نگری شاہوں کا تخت بھی رہی ہے۔بالکل کوئی شک نہیں کہ اس کی جغرافیائی حدود اور موسم بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔
خاص موسم میں بادشاہ اپنی مجلسیں یہاں لگایا کرتے ہونگے۔ کارونجھر کے پہاڑی سلسلے کے بارے میں ارضیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہاڑ زمین پر اولین دریافت ہونے والے پہاڑوں میں سے ہیں۔اس کا طول 19 کلو میٹر ہے اور اونچائی 305 میٹر ہے۔اس کی سب سے بلند ترین چوٹی سطح سمندر سے ایک ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ پورا کارونجھر معدنیات کا مرکز ہے، یہاں پر قیمتی سنگِ مرمر اور گرینائیٹ کا پتھر وافر مقدار میں ہے، کچھ عرصہ قبل سفید چینی کے مٹی کے ذخائر بھی ملے ہیں،ساتھ میں قسم قسم کی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
اس پہاڑ کے اوپر سے ننگر پارکر سمیت ویراواہ، کاسبو اور رِن کَچھ کا منظر بڑا دلکش نظر آتا ہے۔رِن کَچھ دور سے سمندر کا منظر پیش کرتا ہے،رِن کَچھ کا بیابان اور علاقہ متنازعہ ہے، جس کا کچھ حصہ پاکستان کی ملکیت ہے. کارونجھر پر چڑھائی دشوار ضرور ہے اور تھکادینے والی ہے۔ ننگر پارکر شہر میں ہمارے میزبان عالمی مجلس ختم نبوت کے ضلع مبلغ مولانا محمد حنیف سیال صاحب تھے۔
(موصوف ضلع نوشہرو فیروز کے رہائشی اور جامعہ انوار العلوم کنڈیارو کے فاضل ہیں)، ہمارا رات کا قیام بھی مولانا سیال صاحب کے پاس تھا۔ہم نے مغرب کی نماز ان کے پاس پڑھی، پورے دن کے تھکے ماندے تھے، اب نیند یا چائے ہی سر درد کا علاج کرسکتی تھی، نیند کا موقع نہیں تھا البتہ چائے کا وقت تھا۔ مولانا سیال صاحب نے ایسی زبردست چائے پلائی، جس کی چاشنی نے چور چور جسم کو راحت و آرام پہنچایا اور ذہنی سکون بہم مہیا کیا، عشاء کے بعد انہوں نے مہمانوں کے اعزاز میں شاندار عشائیہ کا اہتمام فرمایا تھا۔
ہماری مجلس جاری تھی بوندا باری اور ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ بارش بڑا لطف دے رہی تھی لیکن پورے دن کے سفر نے ہمارا برا حال کردیا تھا، ہم بارش سے پوری طرح محظوظ نہ ہو سکے۔نیند نے اپنی آغوش میں لپیٹ لیا، یہ نیند کتنی بڑی نعمت ہے، ہر ایک کو بخوبی اندازہ ہوگا۔اس لیے کہتے ہیں کہ نیند جبری نعمت ہے، آپ کتنی کوشش کریں نیند نہ آئے لیکن یہ آکر ہی رہتی ہے،اور جن کو یہ نعمت میسر نہیں ان سے اس کا قدر پوچھیں۔
صبح جب ہم بیدار ہوئے تو اندازہ ہوا بڑی تیز اور موسلا دھار بارش ہوئی ہے۔ہم نے نماز ادا کی اس کے بعد مختصر ناشتہ چائے بسکٹ کھاکر روانہ ہوگئے، ہماری منزل اب کاسبو تھا۔ یہ چھوٹا گاؤں ہے اور بہت سرسبز اور شاداب ہے اس قصبہ میں ہندوؤں کا مشہور پیر ''راما پیر '' ہے. اس گاؤں کا ہمارا قصد خوبصورت مور دیکھنے کا تھا. یہاں مور بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
لیکن قسمت اس دن ہندوؤں کا میلہ تھا تو لوگوں کی بہتات کی وجہ سے مور کم دکھائی دیے، اس راما پیر پر بہت خرافات دیکھے، جاہل اور غربت کے مارے ہندو بتوں کو پوج رہے تھے. واپسی پر ہم کارونجھر کا نظارہ کرتے ہوئے اور درمیان میں ایک ڈیم پر اترے پھر کارونجھر کا رخ کیا. وہاں حکومت نے کچھ پوائنٹس بنائے ہیں جو لوگ پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتے تو وہاں سے منظر کشی کریں، کارونجھر کے بیچ میں ہم کھڑے رہے، مناظر بہت خوبصورت تھے۔
پہاڑ ایک ہی ہے کہیں سرخ تو کہیں سفید کہیں اور رنگ، ہماری زبان پر بے ساختہ باری تعالیٰ کی تعریف جاری ہوگئی۔ واپسی پر میزبان نے مختصر ناشتہ کے بعد بھرپور ناشتہ کا اہتمام فرمایا تھاہم نے ناشتہ کے بعد مجلس خوب لوٹی، پھر مٹھی شہر کی طرف روانہ ہوگئے. مولانا محمد حنیف سیال صاحب کے ذریعے ہمیں پتہ چلا کہ راستے میں نمک کی فیکٹری بھی ہے، اس کو بھی دیکھا جائے۔
دنیا بھر میں بہترین اور معیاری نمک کے مراکز دو ملکوں میں ہیں۔ایک پولینڈ اور دوسرا پاکستان، اس میں بھی وطن عزیز پاکستان کا نمک دنیا کا بہترین نمک ہے. تھر میں بارش کے بعد قدرتی نمک پیدا ہوتا ہے، پھر اس کی صفائی کے بعد نمک تیار ہوتا ہے۔ہم نے مختصر دورہ کیا اور معلومات حاصل کیں، اس کمپنی کا مرکز گوادر میں ہے۔ اب پھر مٹھی کی طرف روانہ ہوئے، جب ہم مٹھی پہنچے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ مٹھی شہر ہے. تعمیرات اور ترقی بہت عروج پر تھی۔
یہاں پر میڈیا کے پروپیگنڈہ اور واویلا کی وضاحت بھی ضروری ہے۔تھر میں غذائی قلت اور بچوں کی اموات میڈیا کا بدترین جھوٹ ہے۔حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں. مٹھی سول ہسپتال میں جو سہولیات اور ادویات دستیاب ہیں وہ حیدرآباد اور کراچی کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی نہیں. بس یہ میڈیا ہے جو رائی کے دانے کو پہاڑ بناکر پیش کرتا ہے. مٹھی میں سوائے ایک جگہ کے شہر میں کوئی خاص تفریحی مقام نہیں ہے. اس اکلوتے تفریحی مقام کا نام ''گڈھی بھٹ '' ہے۔
بِھٹَّ سندھی زبان میں ریت کے اونچے ٹیلے کو کہتے ہیں۔یہاں سے آپ کو پورا مٹھی شہر ایک نظر میں نظر آتا ہے(بالکل ایسا ہی جیسے دامن کوہ سے اسلام آباد کا منظر) بہت دلکش اور خوبصورت منظر ہے۔ اب واپسی کا وقت قریب ہوا چاہتا تھا، یہ 9 محرم الحرام پیر کا دن تھا. پورے تھر میں تین دن کے اندر ہمیں کہیں محرم الحرام کے آثار نظر نہیں آئے، جیسا کہ دیگر شہروں میں ہوتا ہے، جگہ جگہ راستے بند کرکے مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں، اور خلقِ خدا کو ستایا جاتا ہے. مٹھی شہر میں'' کیفے تھر'' کے نام سے ایک ریسٹورنٹ کا نام سن رکھا تھا، ہم نے چاہا کہ دوپہر کا کھانا یہاں کھائیں. لیکن جتنا نام تھا اتنا معیار نہیں تھا، سست سروس اور ادنی درجے کے کھانے تھے، جتنے دیسی کھانے بتائے جاتے تھے ان میں سے ایک بھی دستیاب نہیں تھا. جو کھانا پیش کیا گیا وہ بھی معیار سے کوسوں دور تھا. اب کھانا کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا. اس کے بعد ہم نے تھر کو الوداع کہا اور منزل کی طرف سے چل پڑے تو راستے میں نئون کوٹ کا شہر آرہا تھا، جہاں تالپور حکمرانوں کی یادگار ایک قلعہ ہے. جس کو ''نئون کوٹ'' کہا جاتا ہے. یہ نئوں کوٹ کا قلعہ شہر سے تین کلو میٹر دور مشرق میں واقع ہے۔
یہ قلعہ میر کرم علی خان تالپور نے 1814ء اور 1229ھ میں تعمیر کرایا تھا، جس کی سامنے کی لمبائی 366 اور چوڑائی 318 فٹ ہے. یہ قلعہ پکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے جس کی تعمیر میں چونہ اور مٹی کا گارا استعمال کیا گیا ہے. قلعہ دو حصوں پر مشتمل ہے ایک بیرک اور دوسرا حصہ رہائش گاہ ہے. قلعہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہر زمانے کے حکمران کتنی شاہ خرچی اور اپنے لیے کتنے عالی شان محل تعمیر کراتے ہیں. اس عمل میں قدیم اور جدید دور کے حکمران برابر کے شریک ہیں. اب سفر جاری ہی تھا کہ راستے میں نمازوں اور چائے کا وقفہ ہورہا تھا، جھڈو شہر کے بعد میر پور خاص کے قریب میرواہ کے ہوٹل پر اسٹاپ کیا، مغرب کی نماز ادا کی اور چائے نوش فرمائی، اس کے بعد ہمارا کوئی اسٹاپ نہیں تھا، عشاء کے وقت قریب ہم محمدی ٹاؤن جام شورو پہنچے. یہاں مجھے اور مولانا عبدالباقی صاحب نے اترنا تھا، باقی قافلہ کنڈیارو کی طرف روانہ ہوگیا جو رات دیر بخیر وعافیت اپنی منزل پر پہنچا۔
یہ سفر ہر لحاظ سے دلچسپ، تاریخی اور شاندار رہا، ہم نے زر کثیر اور مشقت اٹھا کر جو کچھ دیکھا آپ سب حضرات کو اس کی مفت میں سیر کرائی اور ڈھیروں ساری معلومات فراہم کی۔اس کے ساتھ اجازت دیجیے۔خدا-حافظ.

Browse More Urdu Literature Articles