Bhit Ka Bhitai - Article No. 2152

Bhit Ka Bhitai

بھٹ کا بھٹائی - تحریر نمبر 2152

شاہ عبداللطیف بھٹائی ۱۱۰۱ھ بمطابق ۱۶۸۹ء کو ضلع حیدرآباد کے تعلقہ ہالا میں پیدا ہوئے، والد کا نام سید حبیب تھا، جو کہ علاقہ میں تقوی اور پرہیز گاری کے لئے مشہور تھے اور قریب و جوار کے علاقوں میں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے

Waris Bin Azam وارث بن اعظم ہفتہ 12 اکتوبر 2019

بھٹ شاہ کی سرزمین کو ایک بار پھر سجایا دیا گیا ہے، شاہ سے منسوب تمام مقامات کی بھی خصوصی تزئین و آرائش کی گئی ہے جس سے پورا علاقہ بقع نور بنا ہوا ہے، اس سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اپنے کلام سے لوگوں کی نظروں سے فریب کے پردہ چاک کر کے اپنے کلام سے معرفت، محبت اور اخوت کا پیغام عام کرکے انہیں حقیقی عشق سے روشناس کروانے والے بزرگ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مسکن ہے۔
ہالا میں پیدا ہونے والے عبدالطیف جسے دنیا شاہ عبدالطیف بھٹائی کے نام سے جانتی ہے دنیا سے رخصت ہونے کے276 سال بعد بھی اپنے کلام کے ذریعے زندہ ہیں، آج بھی بھٹ شاہ میں روزانہ کی بنیاد پرشاہ کے سینکڑوں مرید شاہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد شاہ کے راگی فقیروں کے کلام پر جھومتے ہیں۔ پیر سے سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تین روزہ 276 واں سالانہ عرس شایان شان طریقے سے شروع ہوجائے گا، اس ضمن میں سندھ حکومت کی جانب سے عرس کے پہلے روز عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی ۱۱۰۱ھ بمطابق ۱۶۸۹ء کو ضلع حیدرآباد کے تعلقہ ہالا میں پیدا ہوئے، والد کا نام سید حبیب تھا، جو کہ علاقہ میں تقوی اور پرہیز گاری کے لئے مشہور تھے اور قریب و جوار کے علاقوں میں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔

(جاری ہے)

شاہ عبدالطیف کی والدہ کا تعلق بھی سادات خاندان کے علمی گھرانے سے تھا، پانچ سال کی عمر میں شاہ عبدللطیف کو آخوند نور محمد کی علمی درسگاہ میں داخل کیا گیا، روایت ہے کہ شاہ عبدالطیف نے الف سے آگے پڑھنے سے انکار کردیا تھا لیکن شاہ صاحب کے کلام میں انکی علمی کوششوں کا عمل دخل نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے ۔ شاہ صاحب کے مجموعہ کلام ’شاہ جو رسالو‘ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کو علم سے بخوبی واقفیت تھی، شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ میں فارسی اور عربی کا دور دورہ تھا اور شاہ صاحب کو سندھی کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور متعدد علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی اور ان زبانوں کے ادب سے بھی واقفیت تھی۔
شاہ صاحب کے مجموعہ کلام میں عربی اور فارسی کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے، نوجوانی میں اس زمانے کے انقلابات نے بھی شاہ عبدللطیف کو بہت متاثر کیا۔شاہ صاحب کے کلام میں محبت، وحدت اور اخوت کا پیغام ہے، شاہ صاحب کا مطالعہ اتنا گہرہ تھا کہ اپنے آس پاس جو دیکھا، جو محسوس کیا اسے اپنے شعر کے قالب میں ڈھال لیا۔ عشق مجازی کے پردے میں عشق حقیقی کی چنگاری دل میں بھڑکی شاہ صاحب کی شاعری میں والہانہ روحانی کیفیت، تصوف سے گہری شاعری میں شاہ صاحب کے مخاطب عوام ہیں۔
شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں انسان کو مالک حقیقی کی یاد دلائی ہے۔ شاہ جو رسالو شاہ عبدالطیف بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے جسے ایک روایت کے مطابق شاہ صاحب نے کرار جھیل کے کنارے بیٹھ کر لکھا ہے۔ شاہ جو رسالو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ کی سرزمین پر قرآن و حدیث کے بعد اسے سب سے زیادہ مانا جاتا ہے، شاہ جو رسالو میں اشعار اس طرح کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ شاعر نے ان اشعار کو روحانی وجد کی حالت میں گایا ہے۔
شاہ صاحب کی پوری شاعری تلاش و جستجو کی شاعری ہے، شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں علاقے کی مشہور داستانوں مومل رانو، عمر ماروی، لیلا چینسر اور سسی پنوں سے تمثیلات کے طور پر بھرپور استفادہ کیا ہے، شاہ عبداللطیف کی شاعری کا یہ حسن و کمال ہے کہ یہ موسیقی کی عصری روایت سے مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے اور گائے جانے کے قابل ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری سے سندھی زبان کو ہمیشہ کے لیئے زندہ کر دیا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا وصال تریسٹھ سال کی عمر میں ۱۴ صفر ۱۱۶۵ھ بمطابق ۱۱۷۶ عیسوی کو بھٹ شاہ میں ہوا۔ اس زمانے کے حکمران غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ صاحب کے مزار پر ایک دیدہ زیب مقبرہ تعمیر کروایا جو آج محکمہ اوقاف سندھ کے زیر اثر ہے اور سندھی تعمیرات کا ایک شاہکار ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے عرس کے موقع پر بھٹ شاہ میں ادبی کانفرنس میں نامور دانشور اورمحققین شاہ عبدالطیف بھٹائی کی طرززندگی پرمقالے پیش کرتے ہیں، ثقافتی لباس میں ملبوس مقامی افراد بھی ٹیبلوزکے ذریعے ہرسو ثقافتی رنگ بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
عرس پر بھٹ شاہ کے گھوڑا گراوٴنڈ میں گھوڑوں کی بھی دوڑ ہوتی ہے جس میں غمدور، سندھی، دوگلے سمیت نایاب نسلوں کے گھوڑے حصہ لیتے ہیں جبکہ دوسری طرف مختلف نسلوں کے بیلوں کی جوڑیوں کو بھی نہ صرف نمائش کیلئے پیش کیا جاتا ہے بلکہ انہیں بھی تپتی ریت پر دوڑایا جاتا ہے۔ سندھ کے روایتی زور آزمائی کے کھیل ملاکھڑے کا بھی ملک کا سب سے بڑا مقابلہ شاہ بھٹائی کے مسکن کے قریب ہی ہوتا ہے، جہاں پہلوان ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے زور آزماتے نظر آتے ہیں۔
شاہ جوباغ میں ثقافتی گوٹھ قائم کیاجاتا ہے جہاں دستکاری کے اسٹالز زائرین کواپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ سگھڑوں کی کچہری، لطیفی راگ، نئی جہت پر تحقیقی مقالے، خصوصی موسیقی محفل سمیت دیگر پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے فنکار شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کو گائیکی کے انداز میں پیش کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles