Ankahi Dastaan, Taqseem E Hind (Muhammad Naseem) - Article No. 1867

ان کہی داستانیں ۔ تقسیمِ ہند 1947ء (محمدنسیم ۔ ڈیفنس لاہور) - تحریر نمبر 1867

تقسیمِ ہند 1947ء پر ہارورڈ مِتل ساﺅتھ ایشیاءانسٹیٹوٹ کی تقسیمِ ہند کی کہانیوں میں سے یہ کہانی محمد نسیم صاحب کی ہے۔محمد نسیم صاحب اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُن کے والد برٹش آرمی میں تھے۔ جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو ہمارے والد محترم ہمیں ہمارے آبائی علاقے گھکھڑ میں چھوڑ کر جنگ میں حصہ لینے چلے گئے۔جنگ کو ختم ہوئے تین سال گزر گئے اور ہمارے والد صاحب جنگ سے واپس نہ آئے ۔ سب لوگوں نے یہی سمجھا کہ میرے والد کی جنگ میں وفات ہو گئی ہے۔

Dr Mariam Chughtai ڈاکڑ مریم چغتائی جمعرات 10 جنوری 2019

تقسیمِ ہند 1947ء پر ہارورڈ مِتل ساﺅتھ ایشیاءانسٹیٹوٹ کی تقسیمِ ہند کی کہانیوں میں سے یہ کہانی محمد نسیم صاحب کی ہے۔محمد نسیم صاحب اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُن کے والد برٹش آرمی میں تھے۔ جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو ہمارے والد محترم ہمیں ہمارے آبائی علاقے گھکھڑ میں چھوڑ کر جنگ میں حصہ لینے چلے گئے۔جنگ کو ختم ہوئے تین سال گزر گئے اور ہمارے والد صاحب جنگ سے واپس نہ آئے ۔

سب لوگوں نے یہی سمجھا کہ میرے والد کی جنگ میں وفات ہو گئی ہے۔ تین سال بعد ہم سب ناامید ہوگئے تھے کہ جنگ کو ختم ہوئے تین سال گزر گئے ہیںاور اُن کا کوئی پتا نہیں ہے۔پھر اچانک ایک دن ایسا ہوا کہ میں دوسرے بچوں کے ساتھ میدان میں کھیل رہا تھا کہ دور سے ایک فوجی آدمی آتا دکھائی دیا۔

(جاری ہے)

سب لوگ حیران تھے کہ کون فوجی ہمارے علاقے میں آگیا ہے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو میرے والد صاحب تھے۔

اُس دن پورے گاو¾ں میں جشن منایا گیا۔ واپس آنے کے کچھ دن بعد میرے والد صاحب کی پوسٹنگ دہلی ہو جاتی ہے۔ہم سب اپنے والد صاحب کے ساتھ دہلی میں آجاتے ہیں۔دہلی میں ہمارا قیام دہلی شہر کے ایک علاقے میں ہوا جس کا نام محلہ سوئیاں والاتھا۔یہ محلہ شاہی مسجد ، لال قلعہ اور چاندنی چوک کے بالکل قریب ہے۔میرے والد صاحب نے مجھے ایک مسلم سکول میں داخل کروا دیا اور میں نے ابتدائی دو جماعتوں کی تعلیم اسی سکول سے حاصل کی۔
میرے والد صاحب اکیلے ہی اپنی رجمنٹ میں مسلمان تھے اُن کی رجمنٹ کا نام آئی ای ایم ای (انڈین الیکڑیکل مکینکل انجنیئر)تھا۔اِس رجمنٹ میں سالانہ لوگوں کو ترقی دی جاتی تھی۔ مگر مسلمان ہونے کے ناطے با صلاحیت ہونے کے باوجود میرے والد صاحب کی ترقی کی درخواست کو اعلیٰ قیادت تک نہیں پہنچنے دیا جاتا تھا۔میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ ایک دفعہ ایک برٹش کرنل اُن کی یونٹ میں آیا۔
میرے کام کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ اسماعیل تم کیوں نہیں کمیشن کے لیے درخواست دیتے۔ تم ایک باصلاحیت فوجی ہو۔ والد صاحب نے اُس کو کہا کہ میں نے تو کئی دفعہ درخواست دی ہے مگر یہ لوگ میری درخواست کو آگے نہیں پہنچاتے۔اِس پر اُس نے کہا درخواست لکھو اور مجھے دو۔والد صاحب نے درخواست لکھ کر اُس کرنل کو دے دی۔جب سلیکشن کا وقت آتا ہے تووہ کرنل آرمی چھوڑ کر ڈان دہلی کا چیف ایڈیٹر بن جاتا ہے۔
میرے والد صاحب اُس کے پاس چلے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ فکر نہ کرو ہو جائے گا۔اور پھر اُس نے والد صاحب کی درخواست ذاتی سفارش پر آگے بھجوائی۔ اِس طرح میرے والد صاحب کا نام کمیشن کے لیے منتخب ہو گیا۔ میرے والد صاحب واحد مسلمان تھے باقی سب ہندو اور سکھ کمیشن کا امتحان دینے کے لیے منتخب کئے گئے۔ امتحان دینے کے لیے سب کو انڈیا کی ایک جگہ ©"دہرا دون© " (Dehradun, Uttarakhand) جانا پڑا۔
یہاں ہندوں اور سکھوں کے مسلمانوں کے بارے میں تعصب کا کھل کر پتا چلا۔ہندو اور سکھ میرا مذاق اُڑاتے تھے۔کہ تم مُسلے کس طرح سے امتحان پاس کر سکتے ہو۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ امتحان اور میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔ اورکل سات امیدواروں میں سے صرف میرے والد صاحب کا ہی سلیکشن ہوا۔ آئی ای ایم ای میں دھوم مچ گئی کہ ایک مسلمان کا کمیشن ہوا ہے۔سب لوگ حیران تھے کہ یہ کمیشن کیسے لے گیا۔
والد صاحب کمیشن ملنے کے بعد لیفٹیننٹ ہوگئے۔اب قدرت کی مہربانی دیکھئے کہ اتفاقاً اُس وقت کیپٹن کی سیٹ خالی تھی اور لیفٹیننٹ بننے کے صرف سات دن بعد ہی برگیڈیئر نے کہا کہ کیپٹن کی پوسٹ خالی ہے اور تم یہ پوزیشن سمبھالو اِس طرح صرف سات دن بعد ہی میرے والد صاحب کی کیپٹن کے عہدے پر ترقی ہوگئی۔یہ خبر اتنی مشہور ہوئی کہ ہندو¾ں اور سکھوں نے اِس کو قبول نہ کیا اور ایک قسم کی دشمنی بن گئی۔
اِس واقع کا ذکر ڈان اخبار میں بھی آیا۔ اب چونکہ والد صاحب کیپٹن ہو گئے تھے تو ہمیں کینٹ میں گھر بھی مل گیا۔ یہ گھر بہت بڑا گھر تھا۔ اب والد صاحب نے ہمیں کینٹ کے سکول میں داخل کروا دیا۔ اِس سکول میں مسلمان ہندو اور سکھ سب پڑھتے تھے۔ہمارے سکول کے ہیڈماسٹر ایک ہندو تھے اور سیکنڈ ہیڈماسٹر مسلمان تھے۔اِس سکول میں ایک عجیب سی بات تھی اور وہ یہ کہ تین دِن تک ہندوں کی دعا پڑھی جاتی تھی اور تین دِن مسلمان لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری پڑھتے تھے اور یہ کام وہاں کے سیکنڈ ہیڈماسٹر صاحب نے کروایا تھا کہ چونکہ یہاں ہندووں اور مسلمانوں دونوں کے بچے پڑھتے ہیںاِس لیے دعا بھی دونوں کی ہو گی۔
ہیڈماسٹر صاحب بہت متعصب تھے انہوں نے وہاں مسلمانوں کے لیے الگ سے پانی پینے کی جگہ بنوائی۔ مسلمانوں اور ہندوں کے پانی پینے کی جگہ کے درمیان میں ایک دیوار کھڑی کردی گئی اور یہ اصول بنا دیا گیا کہ کوئی دوسرے کی جگہ سے پانی نہیں پیئے گا۔ ایک جگہ پر ہندو پانی لکھ دیا گیا اور ایک جگہ مسلمان پانی لکھا گیا۔ جو کسی دوسرے کے حصے کا پانی پیتے ہوئے پکڑا گیا اُس کو سزا دی جاتی تھی۔
اِس سلسلے کی ایک دوسری کڑی بھی تھی کہ ریلوے سٹیشن پر اُن دنوں میں پانی کے مٹکے لیکر ٹرالیاں چلتی تھیں۔جن کو ہندو چلا رہے ہوتے تھے۔اُن کے پاس پانی پینے کے گلاس بھی ہوتے تھے لیکن وہ اُن گلاسوں کو مسلمانوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے۔مسلمانوں کو پانی ہاتھ کا پیا لہ بنا کر پلایا جاتا تھا۔ یہاں اگر تعلیم کی بات کریں تو ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں کہ ایک دفعہ قائداعظم علی گڑھ یونیورسٹی جاتے ہیں تو وہاں کچھ ہندو لڑکے قائدِاعظم سے پوچھتے ہیں کہ آپ ہندوستان کو الگ کیوں کرنا چاہتے ہیں تو قائدِاعظم نے ایک پانی کا گلاس منگوایا اور خود اُس گلاس سے دو گھونٹ پانی پی لیا پھر اُس لڑکے سے کہا اب تم اِس میں سے پانی پیو تو اُس لڑکے نے پانی پینے سے انکار کر دیا۔
پھر قائد اعظم نے ایک مسلمان لڑکے سے کہا کہ اب تم یہ پانی پیو تو وہ لڑکا پانی پی گیا۔ تو قائد اعظم نے فرمایا یہ فرق ہے کہ جس کی وجہ سے ہم پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وہ باتیں تھیں جو ثابت کرتیں تھیں کہ مسلمانوں کے بارے میں ہندو بہت متعصب رویہ رکھتے تھے اور وہ کسی صورت مسلمانوں کو آگے نہیں آنے دینا چاہتے تھے اور صورتحال بھی یہی تھی کہ مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں بہت پیچھے تھے۔
انہی حالات میں پاکستان کا قیام ہو گیا۔ ہمارے پڑوس میں سکھوں کا گھر تھا اور ہمارے ان سے بہت اچھے تعلقات تھے۔وہ ہماری طرف آتے تھے اور ہم اُن کی طرف آتے جاتے تھے۔ مگر جیسے ہی پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا ہماری آپس میں دوریاں پیدا ہو گئیں۔سب لوگوں میں ایک تناو کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ہمارے والد صاحب کے پاس بیہار سے ایک پڑھا لکھا خاندان آیا ۔
بیہار کے لوگ زیادہ تر پڑھے لکھے تھے۔انہوں نے والد صاحب سے درخواست کی کہ ہمیں یہاں رکنے کی اجازت دے دیں ۔ والد صاحب کے پاس چھ سرونٹ کواٹر تھے جن میں سے دو اِ س فیملی کو دے دئے۔تقسیم کا پہلا واقعہ اِس طرح پیش آیا۔ سکھ خاندان کی ایک خاتون دس دن بعد ہمارے گھر لڈو لے کر آگئی اور ہم لوگ ڈر گئے کہ پتہ نہیں اِس کو کھائیں یا نہ کھائیں تو خاتوںبولی بہن جی میں مٹھائی تو ایک بہانے سے دینے آئی ہوں اصل بات یہ ہے کہ آپ کے گھر کی نگرانی کی جا رہی ہے کہ کون آرہا ہے کون جا رہا ہے اور سردار جی نے کہا ہے کہ آپ گیارہ ستمبر کو جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں تو آپ نہیں جا سکیں گے۔
بہتر ہے بھائی صاحب سے کہیں کہ تاریخ بدل دیں ۔ والد صاحب نے اُن کا بہت شکریہ ادا کیا۔تو اُس خاتون نے پھر زور دے کر کہا کہ یہ بات باہر نہ نکلے آپ لوگ واقعی نہیں جا سکیں گے۔ والد صاحب نے سب چیزیں ترتیب دے لیں اور سمندری کے رہنے والے ایک ڈرائیور خوشی محمد کو گیٹ پاس دیتے ہوئے کہا کہ خاموشی سے گیارہ تاریخ کی بجائے نو تاریخ کو صبح سویرے ٹرک لے کر آجانا اور اِس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔
خوشی محمد صبح صبح ٹرک لے کر آگیا۔ تو گھر کے سب ملازمیں حیران رہ گئے کہ کیا ماجرا ہے ۔ والد صاحب نے اُن کو بتایا کہ ہم جا رہے ہیں کوٹھی سامان سے بھری پڑی ہے جس نے جو کچھ لے کر جانا ہے وہ لے جائے۔ وہ سب رونا شروع ہوگئے۔ہمارا جمعدار جسے ہم کالو کہا کرتے تھے وہ کہنے لگا صاحب ہمیں ساتھ لے جاو۔مگر والد صاحب نے اُس سے کہا پتہ نہیں ہم سے کیا واقعات پیش آتے ہیں تو تم کیوں اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہو اور اُس کو سمجھایا۔
ہم نے گھر میں ایک دیسی کتا پال رکھا تھا جو کہ ہم سب سے کافی مانوس تھا۔ جب ٹرک چلا تو اُس کتے نے بھی ٹرک کے پیچھے بھاگنا شروع کردیا اور وہ کافی دور تک پیچھے پیچھے بھاگتا رہا۔جیسے ہی ہم دہلی ریلوے سٹیشن پہنچے تو سکھوں نے کرپانیں نکال لیں۔والد صاحب نے میرے دو بڑے بھائیوں کو پستول دے کر ایک کو ہم سے آگے چلنے کا کہا اور ایک کو ہمارے پیچھے چلنے کا کہا۔
ہم سب درمیان میں چل رہے تھے۔سٹیشن ماسٹر کے کمرے میں داخل ہو کر والد صاحب نے کہا کہ ٹکٹ جاری کرو تو سٹیشن ماسٹر نے ٹکٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ والد صاحب بغیر ٹکٹ کے سفر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ کہیں کوئی اور مصیبت نہ بن جائے تو انہوں نے سٹیشن ماسٹر سے کہا ٹھیک ہے مر تو ہم جائیں گے مگر تم کو بھی آج مار دیں گے تو سٹیشن ماسٹر نے ٹکٹ جاری کر دیئے۔
ہم ٹرین میں بیٹھے تو والد صاحب نے ٹرین کی کھڑکیاں بند کروا دیں اور کہا کہ خواتین خود کو چھپا لیں۔ سکھ گھوم پھر رہے ہیں کہیں کوئی بد مزگی نہ ہو جائے۔ دہلی سے ہماری ٹرین جبل پہنچ گئی۔جبل پور ایک بہت بڑی کنٹونمنٹ ہے اور یہاں والد صاحب کو ایک پراجیکٹ دیا گیا تھا جس کے تحت انہوں نے پاکستان کے حصے کا اسلحہ یہاں سے لیکر پاکستان جانا تھا۔
اِس کام میں دوسرے آفیسرز بھی والد صاحب کے ساتھ تھے۔جبل پور میں والد صاحب کو اُس ڈرائیور کا خط ملتا ہے جس نے انہیں سٹیشن پر چھوڑا تھا ۔ وہ لکھتا ہے کہ صاحب آپ بہت خوش قسمت ہیں آپ کے جانے کا سکھوں کو پتا چل گیا تھا اور وہ گھر آئے بھی مگر گھر خالی تھا پھر وہ لوگ سٹیشن کی طرف بھاگے مگر ٹرین بھی روانہ ہوچکی تھی۔ جبل پور ایک پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں اُس وقت سال کے بارہ مہینے ہی بارش ہوتی رہتی تھی۔
جبل پور میں ہمیں کنٹونمنٹ کے آخر میں گھر ملا جس کے ایک طرف برٹش لوگوں کا میس اور دوسری طرف سکھوں کی رہائشیں تھیں۔اِس علاقے میں شیر عام پائے جاتے تھے۔ سانپ اِس طرح پھر رہے ہوتے تھے جیسے چیونٹیاں ہوں۔آپ ایک کپڑا لیں اور اسے گھاس پر ڈال دیں تھوڑی دیر بعد اُس کے نیچے سانپ اکھٹے ہو جائیں گے۔کلورا کے پودے کی بہت خوشبو تھی اور اُس کے تنے کے نیچے سانپ بیٹھے ہوتے تھے۔
اِس علاقے میں غربت بہت زیادہ تھی۔علاقے کی عورتیں سارا دن گھاس کاٹتیں تھیں اور مرد نشہ کرتے تھے۔ جبل پور میں پراجیکٹ ایک ڈیڑھ مہینے کا تھا مگر جب اسلحہ کی تقسیم کا معاملہ آیا تو ہندوں نے جھگڑا کھڑا کر دیا کہ گولیاں تمہاری اور گنیں ہماری ہوں گی۔ اِس معاملے پر ماحول میں تلخی پیدا ہو گئی ۔ والد صاحب صبح جاتے اور رات بارہ بجے واپس آتے تھے۔
یہ معاملات اسی طرح چل رہے تھے کہ بڑی عید آگئی والد صاحب نے ہمیں کہا کہ دیکھو یہاں ہم بکرا گائے کی قربانی تو نہیں دے سکتے تو والد صاحب چار پانچ مرغیاں بازار سے لے آئے۔ ہمارے گھر میں ایک عورت کام کرتی تھی جو سکھوں کے محلے میں رہتی تھی۔ہم نے اسے کہا کہ دیکھو کل آکے اپنا کھانا لے جانا۔ اگلے دن وہ عورت نہیں آئی تو شام کو میرے بڑے بھائی نے اُن کے علاقے کی طرف آوازیں دیں اور اسے بلایا مگر وہ نہیں آئی تو بھائی صاحب خود ہی اُ س کو کھانا دینے چل پڑے۔
میرے بھائی بہت بہادر آدمی تھے انہیں وہاں سکھوں نے گھیرے میں لے لیا۔سکھوں نے کہا دیکھو یہ تمھارا پاکستان نہیں ہے جو تم یوں چِلا رہے ہو۔ بھائی صاحب نے جواب دیا کہ جب تک ہم یہاں ہیں یہ پاکستان ہی ہے۔یہ شور کی آواز سن کر برٹش آفیسرز بھی باہر آگئے اور پوچھا کیا معاملہ ہے ۔ جب اُن کو بات کا پتا چلا تو اُنہوں نے ہمارے گھر کے گرد سکیورٹی لگا دی۔
والد صاحب ہر ہفتے گھر کا سامان لینے بازار جاتے تھے ایک دن والد صاحب وہاں گئے تو اُن کو تین پٹھان ملے انہوں نے درخواست کی کہ وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں مگر یہ لوگ اُن کو ٹرین یا جہاز کا ٹکٹ نہیں دے رہے۔ تو والد صاحب نے انہیں کہا کہ یہ میرے گھر کا نمبر ہے تم لوگ وہاں آجانا مگر اکیلے اکیلے اور رات کے وقت آنا۔ اگلے دن یہ لوگ ہمارے گھر میں تھے اور والد صاحب نے اُن کو ایک کمرہ اور اسلحہ دے دیا اور کہا دن کے ٹائم تم لوگ باہر نہیں آو گے۔
اسی طرح وہ دن قریب آگئے جب ہم نے یہ جگہ چھوڑنی تھی تو ایک دن پتا چلا کہ سارے مسلمان سپاہیوں کو یہ حکم دیا گیا کہ اپنے گھر کا سامان ایک میدان میں اکٹھا کرو اُس کی چکینگ کرنی ہے وہاں پر ہندوں اور سکھوں نے مسلمانوں کے سامان کی چیکنگ کے بہانے قیمتی چیزیں نکال لیں اور باقی ویسے ہی رہنے دیں۔ اسی سلسلے میں ایک دن والد صاحب بہت غصے میں گھر آئے اور کہا آج ایک سکھ آفیسر آئے گا اور ہمارے گھر کی تلاشی لے گا۔
اُس کے پاس تین گھنٹے کا ٹائم ہے تین گھنٹے بعد اُس کو اٹھا کر باہر پھینک دینا۔ وہ آفیسر آیا اور بہت اچھے سے ملا والد صاحب نے کہا تمھارے پاس تین گھنٹے ہیں جاو¾ تلاشی لو۔ مگر اُس نے دوستانہ انداز میں کہا یار اسمائیل گھر میں کچھ کھانے پینے کو ہے تو وہ پلاو¾۔ میرے والد صاحب نے والدہ سے کچھ بنانے کو کہا۔اُس آفیسر نے بتایا کہ اسمائیل تم نے مجھے نہیں پہچانا میں نے تم سے راولپنڈی میں کام سیکھا تھا اور تم مجھ سے بہت اچھے طریقے سے پیش آتے تھے۔
اِس لیے میں تمہارے گھر کی تلاشی نہیں لوں گا۔ اُس نے تین گھنٹے کا ٹائم پورا کیا اور والد صاحب سے گلے مل کر چلا گیا۔ہم یہ سوچتے تھے کہ یہ آرمی کے زیر اثر علاقہ تھا تو یہاں ہمیں کتنی پریشانیاں اٹھانی پڑیں تھیںتو سول علاقوں میں کیا صورتحال ہو گی۔ آخر کار وہ دن آپہنچا جب ہمیں روانہ ہونا تھا ۔ اُس دِن بھی ہمارے سامان کو ٹرین سے تھوڑا دور رکھا گیا اور کہا گیا کہ ایک بندہ صرف وہی سامان ٹرین تک لے جا سکتا ہے جو وہ اٹھا سکے گا اوروہ واپس بھی نہیں آسکتا۔
اِس طرح بہت مشکل سے ہم اپنا سامان ٹرین میں رکھ سکے۔ سامان رکھنے کے بعد ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا ۔ کل مسلمان آرمی کے لوگوں کی تعداد سات سو تھی انہوں نے یہ شور مچا دیا کہ تم سات سو لوگوں کی بجائے سات سو تین لوگ ہو۔ والد صاحب نے کہا سب کچھ ہونے کے بعد اب تم لوگوں نے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔والد صاحب جانتے تھے کہ تین پٹھان ہم لوگوں میں شامل ہیں ۔
والد صاحب نے غصے میں کہا اگر سات سو لوگ ہوئے تو میں تم کو گولی مار دوں گا تو سکھوں نے کہا کہ اگر سات سو تین ہوئے تو ہم تم کو گولی مار دیں گے۔ گنتی شروع ہوئی ہم تین بہن بھائی واش روم میں چھپ گئے تھے اور خوش قسمتی سے نظر میں نہیں آئے تو آخر میں گنتی میں پورے سات سو لوگ آئے والد صاحب نے اپنے بندوں سے کہا گنیں سیدھی کر لو اور جب میں اشارہ کروں تو گولی مار دینا۔
بس پھر کیا تھا وہ لوگ منتوں پر اتر آئے۔والد صاحب نے معاف کردیا۔ ٹرین چلی تو والد صاحب نے ٹرین کی کھڑکیوں میں بندوقوں والے سپاہی بٹھا دئے اور کہا اگر کوئی حملہ کرے تو گولی چلا دینا۔ اِس طرح ہماری ٹرین بمبئی پہنچ گئی۔ جہاں ہم نے 21قیام کیا۔ یہاں ہم نے مختلف جگہیں پھریں مگر ہندوں کے متعصب رویے کا سامنا یہاں بھی رہا تھا۔ ہمارے میس میں کھانے کے لیے ہم سے روزانہ تین سو روپے لیے جاتے تھے۔
اُس دور میں تین سو بہت بڑی رقم تھی۔ ایک دِن ہمارے ایک لیفٹیننٹ کریم نشے میں دھت میس میںداخل ہوا اور کھانے کا کہا تو انہوں نے انکار کر دیا ۔ لیفٹیننٹ کریم نے اُس کو تھپڑ مار دیا ۔ پھر اُس نے کھانا تو دیا مگر لیفٹیننٹ کریم چھوٹی چھوٹی روٹیاں کھا جاتا اور سالن پی جاتا۔ تو انہوں نے شور مچا دیا ۔ یہ شور ایک جھگڑے کی صورت اختیار کر گیا۔
برٹش کرنل کو ہم نے احتجاج کیا کہ یہ ہم سے تین سو روپے روزانہ وصول کر رہے ہیں۔ تو اُس نے انکوائری کی اور جب یہ ثابت ہو گیا تو اُس نے ہمیں باقی دن فری کھانا کھلایا۔ ہم لوگ شِپ کے زریعے پاکستان روانہ ہو گئے۔راستے میں ایک ریاست جونا گڑھ آتی تھی جس کے بارے میں سنا تھا کہ یہ پاکستان میں شامل ہو گی کیونکہ اُس کے مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا ووٹ دیا تھا۔
مگر ہندو¾ں نے اِس کو شامل نہیں ہونے دیا۔ ہمارا شِپ چونکہ پاکستان آرمی کا پہلا جہاز تھا جو کراچی پہنچ رہا تھا تو اُس دن ہمارا تاریخی استقبال کیا گیا۔ کراچی اُس وقت بالکل ایک گاو¾ں کی طرح بہت کم آباد شہر تھا۔ہمیں کراچی میں ملیر کینٹ میں شفٹ کیا گیا۔کراچی پورٹ سے لیکر ملیر تک ایک ہی سڑک تھی جسے شاہراہ فیصل(ڈرگ روڈ) کہتے ہیں ۔
ایک طرف کھارا در اور ایک طرف میٹھا در یا صدر تھا۔ باقی درمیان میں کچھ بھی نہیں تھا۔ملیر میں دو تین ہفتے قیام کے بعد ہمیں ایک ٹرین کے زریعے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ کوئٹہ کے پٹھانوں نے کہا یہ کون کافر آگئے ہیں تو اُن کو بتایا کہ یہ مسلمان ہیں اور انڈیا سے ہجرت کرکے آئے ہیں ۔ کوئٹہ میں ہمارا قیام کوئٹہ کینٹ میں کیا گیا جو کہ بالکل خالی پڑا تھا۔
کوئٹہ اُس دور میں بہت صاف ستھرا اور سستا شہر تھا۔ جو کہ آج بدحال کر دیا گیا ہے۔ اِس انٹرویو میں نسیم صاحب نے بہت تفصیل سے اُن حالات کا ذکر کیا جو قیامِ پاکستان کے وقت انہیں دیکھنا پڑے۔اُن کے واقعات کو جاننے کے بعد اِس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ معاشروں میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں ۔ نسیم صاحب پر گزرنے والے مصائب کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اِس کی بات پر ہمارا مذہب بھی ہمیں خصوصی تلقین کرتا یہ کہ لوگوں سے حسنِ سلوک سے پیش آو¾۔ اگر آپ اپنی یا اپنے بزرگوں کی داستان ہمیں سنا نا چاہتے ہیںتو اس نمبر پر رابطہ کریں: 0345 - 028 7832

Browse More Urdu Literature Articles