Ann Khe Dastane,taqseem E Hind 1947 - Article No. 1844

Ann Khe Dastane,taqseem E Hind 1947

ان کہی داستانیں ۔ تقسیمِ ہند 1947ء - تحریر نمبر 1844

تقسیمِ ہند 1947ء پر ہارورڈ مِتل ساؤتھ ایشیاء انسٹیٹوٹ کی تقسیمِ ہند کی کہانیوں میں سے یہ کہانی جناب میجر ریٹائرڈ عبدالرحمٰن صاحب کی ہے۔میجر صاحب نے تقسیم کے وقت جموں سے سیالکوٹ کو حجرت کی تھی۔میجر صا حب بتاتے ہیں کہ تقسیم کے وقت اُن کے پانچ تایا زاد بھائی جموں میں پرنس آف ویلز کالج میں پڑھتے تھے اور میجر صاحب کو بھی تعلیم کے سلسلے میں جموں بھیج دیا گیا۔ابھی تعلیم کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ اچانک فسادات پھوٹ پڑے۔ تقسیم سے پہلے سب کچھ نارمل تھا مگر جیسے ہی اعلان ہوا حالات ایک دم سے خراب ہو گئے۔ اُس وقت یہی سنا گیا کہ لاہور سے کچھ ہندو امرتسر بھیجے جائیں گے اور اِسی طرح تبادلہ آبادی میں اتنے ہی مسلمان جموں سے سیالکوٹ بھیجے جائیں گے۔میری عمر اُس وقت سولہ سال تھی اور اتنی چھوٹی عمر میں یہ فیصلہ کرنا کہ کس طرح پاکستان جایا جائے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ جموں میں ہندوں اور مسلمانوں کے الگ الگ محلے تھے

Dr Mariam Chughtai ڈاکڑ مریم چغتائی جمعہ 28 دسمبر 2018

تقسیمِ ہند 1947ء پر ہارورڈ مِتل ساؤتھ ایشیاء انسٹیٹوٹ کی تقسیمِ ہند کی کہانیوں میں سے یہ کہانی جناب میجر ریٹائرڈ عبدالرحمٰن صاحب کی ہے۔میجر صاحب نے تقسیم کے وقت جموں سے سیالکوٹ کو حجرت کی تھی۔میجر صا حب بتاتے ہیں کہ تقسیم کے وقت اُن کے پانچ تایا زاد بھائی جموں میں پرنس آف ویلز کالج میں پڑھتے تھے اور میجر صاحب کو بھی تعلیم کے سلسلے میں جموں بھیج دیا گیا۔
ابھی تعلیم کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ اچانک فسادات پھوٹ پڑے۔ تقسیم سے پہلے سب کچھ نارمل تھا مگر جیسے ہی اعلان ہوا حالات ایک دم سے خراب ہو گئے۔ اُس وقت یہی سنا گیا کہ لاہور سے کچھ ہندو امرتسر بھیجے جائیں گے اور اِسی طرح تبادلہ آبادی میں اتنے ہی مسلمان جموں سے سیالکوٹ بھیجے جائیں گے۔میری عمر اُس وقت سولہ سال تھی اور اتنی چھوٹی عمر میں یہ فیصلہ کرنا کہ کس طرح پاکستان جایا جائے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔

(جاری ہے)

جموں میں ہندوں اور مسلمانوں کے الگ الگ محلے تھے۔اردوبازار جموں کی سڑک بڑی تھی اور اُس کے ایک طرف ہندوں کے محلے اور دوسری طرف مسلمانوں کے محلے تھے۔ دلپتیاں، محلہ جیون شاہ اور محلہ استاد کے ناموں سے مسلمانوں کے محلے تھے۔اُس وقت گھروں میں بیت الخلا چھتوں پر ہوتے تھے ۔ تو جب فسادات شروع ہوئے تو یہ بیت الخلا مورچوں کے طور پر استعمال ہوئے۔
ہندو اپنے گھروں سے مسلمانوں پر فائر کرتے اور مسلمان اپنے گھر کی چھتوں سے ہندوں پر فائر کرتے تھے۔یہ سلسلہ کچھ دن یوں ہی چلا پھر ہندوں کے بڑوں نے یہ سوچا کہ اگر اِن کو محلوں میں ہی مارا گیا تو مردہ لوگوں کو ٹھکانے لگانے میں مشکل ہو جائے گی تو انہوں نے مسلمانوں کو یہ چکمہ دیا کہ مل بیٹھ کر اِس مسئلہ کو حل کر لیتے ہیں۔ اور یہ طے پایا کہ مسلمانوں کو سیالکوٹ بھجوانے کا بندوبست کردیا جائے۔
پھر مسلمانوں سے کہا گیا کہ دو مِیل کے فاصلے پر پولیس گراونڈ میں سب مسلمان اکٹھے ہو جائیں تاکہ اُن کو وہاں سے سواریوں میں روانہ کر دیا جائے اور یہ ہدایت کی گئی کہ ایک چھوٹا سا اٹیچی ساتھ رکھ سکتے ہیں۔کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کہ اپنے گھروں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے تو وہ وہیں رہ گئے مگر زیادہ اکثریت میں مسلمان سیالکوٹ جانے کے لئے اُس میدان میں جمع ہوگئے۔
پہلے دِن پینتالیس گاڑیاں صبح کے وقت آگئیں۔اِن گاڑیوں میں خواتین کو اندر بٹھایا گیا جب کہ مرد وں کو گاڑیوں کی چھتوں پر بٹھایا گیا۔اِس طرح پہلا قافلہ پاکستان کی طرف روانہ ہو گیا۔ مگر جیسے ہی یہ قافلہ سامبہ روڈ پر پہنچا تو ہندوں نے جو کہ پہلے ہی وہاں چھپے ہوئے تھے گاڑیوں کو گھیر کر حملہ کر دیااور لوگوں کو چن چن کر گولیوں سے مار دیا گیا۔
بعد میں اِن گاڑیوں کو وہیں دھو کر دوبارہ اور مسلمانوں کو لانے کے لیے بھیج دیا گیا۔یہ دِن 6 نومبر 1947 ء کا تھا جب یہ گاڑیاں ہمیں لے کر روانہ ہوئیں۔ جموں ایک پہاڑی کے دامن میں ہے اور اِس کے ساتھ سے دریائے توی بہتا ہے۔اِس دریا کو عبور کر کے دوسری طرف دریا کے ساتھ ایک سڑک جاتی ہے جو کہ پاکستان کو راستہ جاتا ہے۔ ہم سب بہت خوش تھے کہ ہم پاکستان جا رہے ہیں۔
صبح کا وقت تھا سورج کی روشنی نکل رہی تھی۔ ہم نے دریا ئے توی کا پُل عبور کیا تو آگے چھاونی تھی۔ چھاونی عبور کرتے ہی آگے ایک موڑ تھا جس کے بعد تمام گاڑ یوں کو روک دیا گیا۔ہم بہت حیران ہوئے کہ گاڑیوں کو کیوں روک دیا گیا ہے۔ اتنی ہی دیر میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں ہندو بلوائی جے ہند کے نعرے لگاتے ہوئے ہماری گاڑیوں پر ٹوٹ پڑے۔
جوان عورتوں کو کھیچ کر لے گئے اور تلاشی لیتے جاتے اور مارتے جا رہے تھے۔میں گاڑی کی چھت پر بیٹھا تھااور ساتھ ہی ایک نہر جا رہی تھی میں نے اُس نہر میں چھلانگ لگا دی۔میرے دیکھتے دیکھتے اور لوگوں نے بھی چھلانگیں لگا دیں اور نہر کے دوسری طرف اترنے کے لیے تیرنا شروع کیا تو ہندوں نے گولیاں مارنا شروع کر دیں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ساری نہر خون سے سرخ ہوگئی۔
میں نے واپس نہر کے کنارے کی طرف جانا شروع کردیا سڑک اوپر تھی اور میں اُس کی اوٹ میں آگیا۔اور کنارے کے ساتھ ساتھ تیرتے ہوئے تقریباً ایک میل کا سفر طے کر لیا۔میں نے محسوس کیا کہ میں خطرے سے آگے نکل آیا ہوں تو میں باہر آگیا۔ باہر نکلا ہی تھا کہ انڈین آرمی کی ایک جیپ نے مجھے پکڑ لیا اور پیسوں کا تقاضہ کیا جو کہ میرے پاس نہیں تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ اِس کو قتل کر دو۔
دوسرے نے کہا کہ سکھوں کو دے دیتے ہیں وہ خود ہی قتل کر دیں گے۔انہوں نے سکھوں کو بلایا تو اِسی دوران وہاں کچھ اور مسلمان بھی چھپے ہوئے تھے وہ سمجھے یہ تو مارنے لگے ہیں تو انہوں نے دوڑ لگا دی۔ سب کی توجہ اُن کی طرف ہو گئی۔ میرے قریب ہیں ایک گڑھا تھا جس میں صرف میرا جسم آسکتا تھا میں نے خود کو اُس کے اندر چھپا لیا۔اِس طرح میں کافی چیخ و پکار سنتا رہا اور یہ سلسلہ دوپہر تک جاری رہا۔
دوپہر کے بعد مکمل خاموشی چھا گئی۔مگر پھر بھی ہم اپنی اپنی جگہوں پر چھپے رہے۔ شام کو مغرب کا وقت تھا جب انڈین آرمی کے ایک مسلمان بریگیڈیئرعثمان کی وہاں آمد ہوئی تو اُس نے کہا کہ ہمیں تو لوگوں کی مدد کے لیے بھیجا گیا تھا۔ یہ ہم کیا کر رہے ہیں۔اُس نے اعلان کروایا کہ جو لوگ باقی زخمی اور زندہ ہیں وہ نکل آئیں ہم اُن کو ہسپتال لے جائیں گے۔
لوگ اپنی جگہوں سے نکل آئے اور میں بھی نکل آیا۔ وہ ہمیں ہسپتال لے کر گئے مگر ہسپتال والوں نے ہمارا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ہمیں وہاں سے جموں توی کے قریب ایک میدان میں لایا گیا جس کا نام تنگیانہ تھا۔ جہاں جموں کی زیادہ تر گجر آبادی کے اور بھی لوگوں کو لایا گیاجن میں سے اکثر زخمی حالت میں تھے۔زیادہ تر لوگ بوڑھے تھے ۔نہ وہاں کچھ کھانے کو تھا نہ پینے کو ۔
لوگ وہاں گھاس کھا کر گزارا کر تے تھے۔اِسی کیمپ میں میری ملاقات میرے ایک کزن سرور سے ہوئی تو مجھے ایک سہارا مل گیا۔ میرے باقی رشتہ دار کزن جو کہ جموں میں تھے اُن کا کوئی پتا نہ چل سکا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔میرے اِسی کزن کا ایک قریبی رشتہ دار انڈین آرمی میں نائیک تھا تو اُن کو یہ اجازت مل گئی کہ اگر آپ کا کوئی رشتہ دار اِس کیمپ میں ہے تو آپ اُس کو لے جا سکتے ہیں ۔
اِس طرح وہ ہمیں وہاں سے لے کر سیالکوٹ آیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری والدہ کہاں ہیں اور کن حال میں ہوں گی۔ میں ہجرت کرکے آئے لوگوں سے پوچھتا ہوا کہ میرے علاقے کے لوگ کس جگہ ہجرت کرکے آئے ہیں اُس جگہ تک پہنچ گیا جس گاوں میں میرے علاقے کے لوگ ہجرت کرکے آئے تھے۔میں نے اندازے سے ہی ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹا یا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا تو سامنے میری والدہ گھڑی تھیں۔
ہم دونوں لپٹ کے بہت روئے۔ سارا گاؤں اکھٹا ہو گیا ۔ مائیں اپنے بچوں کے نام لے کے مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ میرا زمان کہاں ہے ۔ میرا اکرم کدھر ہے۔ میرا منصور ، میرا فصل کدھر ہے۔ اب میں اُن کو کیا بتاتا کہ ہم پر کیا ظلم کے پہاڑ گرے تھے اور میں کیسے اُن کو بتاؤں کہ اُن کے بچے کس حال میں ہوں گے اور کدھر ہوں گے۔اُن ماؤں میں سے کئی میں نے ایسی بھی دیکھی تھیں جو اپنے بچوں کا انتظار کرتے ہوئے اِس دنیا سے چلی گئیں۔ تقسیم ِ ہند کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ اِس تقسیم کے نتیجے میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا۔ بہت سے لوگوں نے جانی ،مالی اور جسمانی قربانیاں دیں۔ انسانی تاریخ میں ایسی تقسیم کی مثال نہیں ملتی۔

Browse More Urdu Literature Articles