Koi Aik Amal To Hona Hi Hai - Article No. 1972

Koi Aik Amal To Hona Hi Hai

کوئی ایک عمل تو ہونا ہی ہے - تحریر نمبر 1972

میرے باپ کی ہجرت۔۔۔ تو ایک مشن ہی تھی ایک منصوبہ ہی تھا، جس کا نتیجہ بھی اس آسمان نے دیکھ لیا۔۔۔ مگر ہم نے من حیث القوم اس منصوبے اور اس مشن کو کتنا یاد رکھا ؟،یہ بات بھی سوچنے کی ہے اور پھر دْنیا کی ہاو ہو میں گم ہوجانے والوں کا انجام بھی تاریخ میں عبرت بنا ہوا ہے

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی جمعہ 22 مارچ 2019

حکایت ہے کہ ایران سے آنے والے پارسی، جب سورت (گجرات) کے ساحل پر اْترے اور حاکمِ سورت سے قیام کی اجازت چاہی تو حاکم نے اْنھیں دودھ سے بھرا ہْوا پیالہ پیش کیا جس کا مطلب تھا کہ ہماری مملکت میں تو انسانی آبادی کا تناسب ہماری زمین سے زیادہ ہے، ہم آپ کو یہاں کیسے رکھ سکتے ہیں ،!! روایت ہے کہ پارسیوں نے بھی جواباً جو عمل کیا اْس پر حاکم سورت مسکرا کر رہ گیا اور اس نے پارسیوں کو قیام کی اجازت دیدی۔
پارسیوں کا وہ عمل کیا تھا ، دیکھئے۔ انہوں نے بھرے ہوئے پیالے میں شکر ڈالی اور اسے گھول کر حاکم سورت کی خدمت میں واپس کر دِیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم یہاں کی بھری پْری بستی میں ایسے رہیں گے جیسے دودھ سے بھرے ہوئے پیالے میں شکر گھل مل جاتی ہے اور پیالہ چھلکتا بھی نہیں۔

(جاری ہے)

جو لوگ ممبئی میں دورِ قدیم سے رہ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پارسیوں کا طرزِ زندگی اور اْن کا رہن سہن یہاں تک کہ ان کی زبان وغیرہ علاقائی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

دیکھا جائے تو ان کی اصل زبان فارسی تھی مگر انہوں نے یہاں (سورت)کی گجراتی زبان کو اپنا لیا اور اب ہندوستانی پارسیوں کی مادری زبان گجراتی ہی ہے ہم نے آدھی صدی کی مدت میں کسی پارسی کو فارسی بولتے نہیں سنا۔ اب ہم خاص طور پر شمالی ہند کے مسلما نوں کی بات کرتے ہیں، جو بڑی تعداد میں ممبئی میں آباد ہیں بلکہ دیکھا جائے تو خاصی تعداد میں یہاں ایسے مسلمان بھی ملیں گے جن کی دوسری تیسری نسل نہ صرف یہیں پیدا ہوئی بلکہ یہیں پروان بھی چڑھی مگر یہاں کی مقامی زبان (مراٹھی) سے وہ (عام طور پر) اب تک نابلد ہے۔
ہم گزشتہ دوہفتوں سے اپنے سفر پاکستان کا تذکرہ اس کالم میں کر رہے ہیں۔ وہاں کے مختلف مشاہدات اور تجربات میں ہم اپنے قارئین کو شریک کر رہے ہیں۔ آج بھی وہاں کے کئی تجربے اور مشاہدے مذکور ہو رہے ہیں۔ کراچی میں امروہہ کے ایک شاعر اور ادبی جریدے کے مدیر سے ہماری ملاقات ہوئی۔ پاکستانی لباس بالخصوص کرتا، شلوار اورصدری(جاکیٹ) پر گفتگو چل رہی تھی، موصوف نے نہایت فخرکے ساتھ نہیں بلکہ حقارت آمیز انداز میں بتایا کہ میں نے تو شلوار کبھی نہیں پہنی، ہونہہ یہ بھی کوئی مَردوں کا لباس ہے۔
!! پھر انہوں نے کوئی گھنٹے بھر تک امروہے کا قصیدہ پڑھا ، ہم مسکراتے ہوئے انھیں سنتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مغل خاندان سے ہیں اور اب تک لال قلعے میں بیٹھے ہندوستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سوچا کہ انہیں شاید پتہ ہی نہیں کہ انکے اجداد کب کے،سلطنت اور حکمرانی سے بے دخل ہو چکے ہیں اور اْن کے شہزادوں کی گردنیں ناپی جاچکی ہیں۔
شمالی ہند کے ہم مسلمانوں میں ایک طرح کا فخر و امتیاز اپنے بچپن سے دیکھ رہے ہیں اب جب کہ ہَوا بھی ہماری مخالف ہو چکی ہے مگر ہم ہیں کہ ہَوا سے بھی لڑنے اور اْلجھنے پر آمادہ ہیں ، جس کا فطری نتیجہ جو ہو سکتا ہے وہ سامنے ہے مگر ہم حقیقی مناظر سے بھی اپنی آنکھیں موندیں لال قلعے میں بہادر شاہ ظفر کے دربار میں غزل سْن رہے ہیں۔ ہمارا ایک موروثی عارضہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں سے جو توقع اور طلب رکھتے ہیں وہ اپنے لوگوں کو دینے پرآمادہ نہیں ہوتے، دور نہ جائیے، قریب کے علاقوں پر نظر کیجیے جہاں مسلمان کچھ اکثریت میں ہیں ، وہاں مہاجروں میں بھی تفریق ذہنوں میں باقی ہے مثلاً ہم نے ان مسلمانوں میں دو اِصطلاحیں سنیں ایک’ ملکی ‘ اور دوسری مقامی۔
۔۔ جبکہ دونوں حلقے کے لوگ شمالی ہند سے ہجرت کر کے روٹی روزی کی تلاش میں کچھ پہلے اور کچھ بعد میں یہاں آئے اور یہیں کے ہورہے مگر احساسِ تفاخر نے ان کا دامن ایسا پکڑا کہ برسہا برس ہوگئے’ ملکی ‘اور ’مقامی‘ کی اصطلاحوں سے انہیں آزادی نہیں ملی۔ کراچی میں ایک شاعر ہیں جاوید تمثیل،ان کا ایک شعر سنا تو دل کو لگا اور یہ بھی احساس ہوا کہ ایسا شعر کوئی مہاجر ہی کہہ سکتا ہے اور بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔
وہ شعر سنئے: زخمِ ہجرت کریدنے والو ہم کو انصار کی ضرورت ہے اس شعر کے نو ، دس لفظوں نے آن کی آن رسول کریم اور ان کے اصحاب کی مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کے عمل اور پھر انصار ِمدینہ کے کردار کو ذہن سے قلب تک متحرک منظر بنا دِیا جس نے پلکیں بھی نم کر دیں۔ اس موضوع پر مختلف شعرا نے اپنے اپنے طور پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ ان میں سے چند شعر اس وقت یاد آتے ہیں : دیکھو تو شہر میں ہیں مہاجر ہزار ہا ڈھونڈو تو ایک بھی نہیں انصار کی طرح کسی بھی قادر الکلام شاعر کیلئے ایسا شعرکہہ دینا آسان ہوسکتا ہے مگر اس کے برعکس عملی صورت پیش کرنا مشکل نہیں بہت مشکل ہے مگر آدمی کہیں کا ہو اپنی مٹی، اپنی زمین سے محبت ناقابلِ فراموش ہوتی ہے۔
ہمارے کانپور ہی کے ایک مقتدر شاعر کراچی میں گزرے ہیں سرشار صدیقی، کراچی میں ان سے ملاقات یادگار ہے کانپور کے تعلق سے فون پر تعارف ہو چکا تھا، روزنامہ جنگ کے آڈیٹوریم میں ہندوستانی شعرا کیلئے ایک مختصر سا اعزازی مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت سرشار صدیقی کر رہے تھے۔ مشاعرے میں ہم نے اپنی غزل کا جب یہ شعر پڑھا : ”کچی مٹّی چیخ رہی ہے آنے والی ہے برسات“ تو ہم نے سرشار صدیقی کے ہو نٹوں پر ایک دِلچسپ تبسم دیکھا۔
جس کی وضاحت محفل کے اختتام پر یوں ہوئی کہ فوٹو سیشن کے بعد جب ہم دونوں ملے تو لگا کہ برسہا برس کے بعد بچھڑے ہوئے دو عزیزملے ہوں۔ اْنہوں نے یوں بھینچ کر گلے لگایا کہ ہم کچھ سمجھ نہ سکے مگر دوسرے لمحے اْنہوں نے کہا: ”میاں! یہ دو آدمی نہیں بلکہ مِٹّی سے مِٹّی مل رہی ہے۔ “ چند ثانیے بعد جب ہماری آنکھیں چار ہوئیں تو وہ بھی آبدیدہ تھے۔
افتخار عارف آکا وہ شعر تو ہم سب کو یاد ہے جس میں اْنہوں نے کہا ہے: شکم کی آگ لیے پھِر رہی ہے شہر بَہ شہر سگِ زمانہ ہیں،ہم کیا ہماری ہجرت کیا مگر سرشار صاحب کا یہ شعر جب بھی یاد آتا ہے تو ہجرت کے مفہوم اور اسکی اہمیت و معنویت کے کئی گوشے روشن کر جاتا ہے، ان کا اعتراف ایک شہادت سے کم نہیں: ”آئے تھے اپنے گھر کو ٹھکراکر ٹھوکریں کھا رہے ہیں دَردَر کی “ ہجرت بظاہر ایک لفظ ہے مگر اس کی معنویت اور اس کی اہمیت تو وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس عمل سے گزرے ہوں اور اگر اللہ جسے توفیق دے تو اسے اس عمل مثالی کا عرفان بھی ہو سکتا ہے۔
ہم نے متذکرہ ملاقات ہی میں سرشار صاحب سے کانپور سے کراچی ہجرت کے موضوع پر بھی کچھ پوچھا تو اْن کے چہرے پر ایک پر اسرار سا سایہ دِکھائی دیا، دوسرے لمحے اْنہوں نے اپنی ہجرت اور اس کے تناظر میں جو گفتگو کی تھی اس میں یہ بھی تھا : ” میاں! ہجرت ایک فریضہ تھا جو ہم سے ادا کروایا گیا، بعض اوقات حالات کا دوسرا رْخ فوری طور پر سامنے نہیں آتا۔
ہجرت ہمارے ہاں ایک عام عمل نہیں، یہ عمل تو عبادت اور ریاضت جیسی کیفیت کا حامل ہے۔ دو سرے لوگ ہجرت کے کیا معنی سمجھتے ہیں وہ جانیں، ندیم میاں! ہجرت کے بعد کے جو مرحلے ہیں اس کا حق کس نے ادا کیا یا انھیں انکا ادراک ہوا بھی یا نہیں ، یہ امر دیگر است ، ہم اس پر نازاں و شاداں ہیں کہ ربِ علیٰ نے ہم سے ایک سنت ادا کر والی۔ زِندگی بڑی متنوع ہے اس کے نجانے کتنے رْخ ہیں جو ابھی انسانی آنکھوں نے نہیں دیکھے اور آپ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کائنات اور زندگی روز بروزاپنے کیسے کیسے روپ ہمیں دِکھا رہی ہے۔
ہماری ہجرت کے اصل نتیجے شاید سامنے نہیں آئے ،مگر امکانات تو بہر حال پائے جاتے ہیں۔ فتحِ مکہ کا روزِ روشن کیا تمام اصحابِ رسول نے دیکھا تھا۔۔۔؟ اس سوال کا جواب ہوگا :۔۔۔ نہیں۔۔۔کچھ لوگ پس منظر بنتے ہیں اور کچھ پیش منظر۔۔۔ اللہ جسے جو موقع نصیب کرے۔۔۔“ ہم نے اسی کالم میں جاوید تمثیل اور پھر افتخار عارف کے شعر کے ساتھ سرشار صدیقی کا بھی شعر درج کیا ہے اور اسی کے ساتھ خاکسار کا شعر ’۔
۔۔ انصار کی طرح ‘ بھی آپ نے پڑھا مگر انہی سرشار صدیقی نے ہجرت کے عمل کی جو تفہیم اپنے شعر میں کی ہے وہ بھی یہاں مذکورہوجائے: ” ترکِ وطن تو سنت بھی تھی اور ہماری قسمت بھی ہجرت پر مجبور نہیں تھے ہجرت پر مامور تھے ہم“ شاید ہی کوئی سنگدل ہوگا جو اس پر اپنی داد روک سکے مگراس موضوع پر ہمارا ایک مطالعہ اور ہے جس پر دوسروں کی تو دوسرے جانیں،ہمیں اپنا شعر بہت پیچھے نظر آیا، اس شعر کے خالق بھی اِتفا قاً کوئی ندیم ہی ہیں ان کے نام کا سابقہ ذہن سے نکل گیا مگر شعر آخری سانس تک نہیں بھولیں گے، جو یوں ہے: میرے باپ نے ہجرت کی تھی، میں نے نقل ِمکانی اْس نے اِک تاریخ لکھی تھی، میں نے ایک کہانی اس شعر کی روشنی میں ہجرت کے عوامل دیکھیں تو بقول افتخار عارف ”ہم سگ ِزمانہ“ ہی دِکھائی دیتے ہیں، رہی ہجرت پر مامور ہونے کی بات تو وہ اْسی پر صادق آئیگی جو واقعتاً مامور کیا گیا ہو۔
اس وقت تمام دْنیا میں اْتھل پتھل کی صورتِ حال ہے۔ چاہے کسی کو برما سے نکالا جائے یاامریکہ سے ،یا برسہا برس بعد کسی کوسعودی عرب سے نکلنا پڑے اور پھر ہند میں آسام کے جو آثار ہویدا ہو رہے ہیں وہ ہم جیسوں کے دِل کو ابھی سے لرزاں کر رہے ہیں۔ مگر۔۔۔ میرے باپ کی ہجرت۔۔۔ تو ایک مشن ہی تھی ایک منصوبہ ہی تھا، جس کا نتیجہ بھی اس آسمان نے دیکھ لیا۔۔۔ مگر ہم نے من حیث القوم اس منصوبے اور اس مشن کو کتنا یاد رکھا ؟،یہ بات بھی سوچنے کی ہے اور پھر دْنیا کی ہاو ہو میں گم ہوجانے والوں کا انجام بھی تاریخ میں عبرت بنا ہوا ہے اب ہم اپنے عمل سے اس انجام کی تردید کریں یا پھرقدرت کو اپنے کھیل کے کردار بدلنے پر مجبور کریں، بہر حال کوئی ایک عمل تو ہونا ہی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles