Tehreek Pakistan Ka Aik Lazawal Hero,Muhammad Rasheed Qureshi - Article No. 1959

Tehreek Pakistan Ka Aik Lazawal Hero,Muhammad Rasheed Qureshi

تحریک پاکستان کا ایک لازوال ہیرو۔۔۔محمد رشید قریشی - تحریر نمبر 1959

3 جون 1947 کو برٹش گورنمنٹ نے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا تو پورے ہندوستان خصوصا مشرقی پنجاب میں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مسلم کش فسادات شروع ہوگئے

محمد منور سعید بدھ 13 مارچ 2019

تقسیم ہند کے بعد کافی عرصے تک ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں سے مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے بذریعہ ٹرین ہجرت کر کے پاکستان آتے رہے۔ماضی کے دکھ سمیٹے اور مستقبل کے اندیشے لیئے ان مفلوک الحال اور بے آسرا خاندانوں کا پہلا پڑاوٴ یہی ریلوے اسٹیشن ہوتا۔نیا نیا ملک بنا تھا۔لوگوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
یہ جذبہ ہجرت مدینہ کی یادیں تازہ کررہا تھا۔ایسے میں محمد رشید صاحب بے آسرا مہاجرین کی مدد میں سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔اپنی سرکاری ملازمت سے فارغ ہوکر روزانہ سیدھا ریلوے اسٹیشن آجاتے ہیں تاکہ بے سروسامانی کے عالم میں پہنچنے والے مسافروں کی مدد کرسکیں اور انکی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کرسکیں۔ اسی دوران میں رشید صاحب کو کلیم میں شکارپور کالونی میں شاندار بنگلہ الاٹ ہوگیا۔

(جاری ہے)

مگر رشید صاحب نے اسکو مہاجرین کا مہمان خانہ بنادیا۔اسٹیشن سے مہاجرین کو اپنے ساتھ بنگلہ پر لے آتے اپنے محدود وسائل کے باوجود انکی مہمان نوازی کرتے یہ فیملیز اس وقت تک انکے یہاں مقیم رہتیں جب تک کہ انکی رہائش کا کوئی دوسرا بندوبست نہ ہوجاتا۔پھر جب مہاجرین کا رش زیادہ بڑھنے لگا اور جگہ تنگ پڑنے لگی تو آفرین ہے رشید صاحب پر کہ اس بنگلہ کو مکمل طور پر مہاجرین کیلے وقف کردیا اور خود اپنی فیملی کو لیکر سرکاری کوارٹر میں منتقل ہوگئے۔
جب لوگ جھوٹے کلیم داخل کروا کر بڑی بڑی املاک اپنے نام الاٹ کروا رہے تھے۔اور نئے ملک کی بنیادیں جس کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گا انکو کھوکھلا کررہے تھے وہیں رشید صاحب جیسے انمول مجاہد اس نوخیز اور نوزائیدہ مملکت کی بقا اور سربلندی کیلئے تن من اور دھن کی قربانی دیکر اس مملکت کو مضبوط اور توانا بنیادیں فراہم کر رہے تھے۔
یہی وہ بنیادیں تھیں کہ جن پر اس مملکت خداداد کی بلند و بالا عمارت قائم ہونے جارہی تھی۔محمد رشید صاحب کی شخصیت کو جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ۔ نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز دراز قد کھلتی ہوئی رنگٹ کشادہ پیشانی کتابی چہرہ ، چہرہ پر متانت اور سنجیدگی ،جناح کیپ اور شیروانی میں ملبوس ایک متوازن مزاج شخصیت کہ جس کہ رگ و پے میں اسلام پسندی حب الوطنی، ایثار وفا محبت خلوص اور روا داری خون بنکر دوڑ رہی تھی۔
یہ سراپا ایثار و رضا کون تھا۔یہ تھا۔تحریک پاکستان کا ایک سچا سپاہی پیکر عہد ووفا، جناب محمد رشید قریشی۔ آئیے انکی شخصیت کا ایک نیا روپ دنیا کے سامنے لاتے ہیں جو آج تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے اس کیلئے ہمیں ماضی کے بند جھروکوں میں جھانکنا پڑے گا۔ ماضی کا ورق الٹ کر دیکھیں تو 1930 کا دور ہے جب مسلمان ہند کے حقوق کی جنگ لڑنے والی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی اور تحریک پاکستان شروع ہوچکی تھی۔
بچے بوڑھے جوان خصوصا مشرقی پنجاب کے نوجوان اسکا ہراول دستہ تھے۔اسی ہنگامہ خیز دور میں مشرقی پنجاب کے شہر کلانور میں جوکہ عظیم مغل بادشاہ اکبر کا پایہ تخت رہا ہے وہاں کا ایک نونہال محمد رشید علامہ اقبال کے خوابوں کو اپنی آنکھوں میں بسائے تعلیمی منازل طے کرتا جارہا تھا اور بالآخر برٹش گورنمنٹ میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اسکی پوسٹنگ شملہ میں ہوگئی۔یہاں اسکو انگریز اور ہندووں کے گٹھ جوڑ کا اندازہ ہوا اور وہ جان گیا کہ مسلمانان ہند کی بقا اور سربلندی صرف اور قائدا اعظم ہی کے نظریات سے وابستہ ہے۔3 جون 1947 کو برٹش گورنمنٹ نے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا تو پورے ہندوستان خصوصا مشرقی پنجاب میں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مسلم کش فسادات شروع ہوگئے۔محمد رشید اس وقت ایک بھرپور جوان تھے اور انکی پوسٹنگ دہلی میں تھی وہ جلد از جلد اپنے شہر پہنچ کر اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے آزاد ملک پاکستان پہنچ کر اپنے خوابوں کی تعبیر پاسکیں۔
مگر دہلی سے کلانور تک خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ہندو اور سکھ مسلمانوں کے خون کے پیاسے بن چکے تھے۔ گرداسپور اور ملحقہ مسلم اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کو یقین تھا کہ وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں گے لیکن بعض جگہوں پر مسلمان گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے۔بعض اس معاملے کی سنگینی کو نہ بھانپ سکے اور اس خوشگمانی کا شکار رہے کہ کچھ بھی ہوجائے یہ تقسیم ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ سکھوں اور ہمارا صدیوں کا اٹوٹ رشتہ ہے۔
سکھ ہمارے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں اور ہندووں کے مقابل ہمارا ساتھ دیں گے۔مگر دنیا نے دیکھا کہ سکھوں نے مسلمانوں پر وہ انسانیت سوز مظالم ڈھاٹے کہ انسانیت شرما گئی۔آج بہتر سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمارے یہاں کچھ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سکھ ہمارے دوست اور ہمدرد ہیں۔انڈیا کے مقابل پاکستان کا ساتھ دیں گے کرتا پور کو لیکر محبت کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں مگر یاد رہے کہ انسان کی سرشت کبھی بدلتی ہے نہ اقوام کی جبلت۔
ہمیں انکے ساتھ انتہائی محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں بہرحال محمدرشید اور انکا خاندان کسی نہ کسی طرح جان بچاتے دہلی اسٹیشن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تاکہ بذریعہ ٹرین پاکستان پہنچ سکیں۔ٹرین کیا تھی لٹے پٹے روتے سسکتے انسانوں کا ایک سیل رواں تھا جو کہ اپنے خون سے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی المناک تاریخ مرتب کرہا تھا۔
ٹرین امرتسر کے قریب سے گزر رہی تھی تو محمد رشید نے دیکھا کہ راستے میں بلوایئوں کے جتھے کے جھتے انسانیت کے قتل عام میں مصروف ہیں۔ امرتسر سے واہگہ کا فاصلہ تقریبا 32 کلومیٹر ہے۔ یہ 32 کلومیٹر کا سفر مسلمانوں کیلئے سوہان روح تھا۔ یوں سمجھ لیں ایک آگ کا دریا تھا اور ڈوب کر جانا تھا۔ٹرین اٹاری شیام سنگھ اسٹیشن پر پہنچی توکھڑکی میں بیٹھے محمد رشید نے رات کی تاریکی میں چمکتی کرپانوں اور لہراتے بالوں کو دور ہی سے دیکھ لیا جو چلتی ٹرین پر سوار ہو رہے تھے انہوں نے ایک نظر ٹرین کے ڈبہ میں بیٹھے مسافروں پر ڈالی ڈبہ کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔
ناتواں بوڑھے نہتے مرد اور خوفزدہ عورتیں۔ان سب کے چہروں پر موت کے سائے لرز اں تھے۔ ہر آہٹ پر موت دستک دیتی سنائی دے رہی تھی۔ محمد رشید کی نظر وں میں گذشتہ چند دنوں میں گزرے تمام واقعات گھومنے لگے۔چشم تصور میں مردوں اورعورتوں کی سربریدہ لاشیں اور بھالے کی نوک میں پروئے شیر خوار بچے نظر آئے اور نسوانی چیخیں کانوں میں گونجتی سنائی دیں۔
انہوں نے فورا ان سب کی جان بچانے کا فیصلہ کیا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ کھڑکی کے راستہ باہر نکل کر آخری بوگی تک پہنچ گئے جسمیں بلوائی سوار تھے ،آپ جانتے ہیں کہ دو بوگیوں کو مضبوط اسکرو کی مدد سے ایک دوسرے سے باہم جوڑا جاتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے منسلک رہیں ، رشید نے کلہاڑی کی مدد سے ، جو سفر پر نکلتے وقت کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلئے اپنے پاس رکھ لی تھی ، وہ اسکرو کاٹ ڈالا اور اسطرح وہ بوگی بقایا ٹرین سے کٹ کر علیحدہ ہوگئی مگر اس سخت جدوجہد میں وہ خود ٹرین سے نیچے گر پڑے۔
جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو دیہاتیوں کے درمیان پایا۔جنہوں نے انکی خوب دیکھ بھال کی اور بتایا کہ آپ دو دن تک بے ہوش رہے ہیں اور دو دن پہلے ہی مسلمانوں سے بھری ٹرین پر سکھوں نے حملہ کردیا تھا۔وہ چلتی ٹرین میں سوار ہوگے تھے تاکہ مسلمانوں کو قتل کرسکیں۔وہ آخری بوگیوں میں قتل عام میں مصروف تھے اور کچھ معصوم بچیوں کو اغوا کرکے اپنے ساتھ بھی لے گے۔
وہ تو اللہ نے معجزہ کردیا اور اچانک اٹاری کے قریب جس بوگی میں بلوائی سوار تھے وہ بوگی بقایا ٹرین سے کٹ کر علیحدہ ہوگئی اور کافی پیچھے رہ گی۔سکھ حملہ آور جتنی دیر میں صورتحال کو سمجھتے اور دوبارہ پلٹ کر حملہ آور ہوتے اتنی دیر میں ٹرین دو تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکیانڈیا کی حدود سے نکل کر کے پاکستان کی سرحد واہگہ بارڈر پر پہنچ گئی جوکہ اٹاری سے بمشکل تین کلومیٹر فاصلے پر تھا۔
اس طرح معجزاتی طور پر ہزاروں مسلمانوں کی جان اور عزتیں محفوظ رہیں۔محمد رشید نے دل میں للہ کا شکر ادا کیا کہ انکی محنت رائیگاں نہیں گئی۔14 اگست کے دن محمد رشید ایک بلوچ رجمنٹ کے ٹرک پر سوار ہوکر لاہور پہنچ گئے۔وہاں صف ماتم بچھی ہوئی تھی سب یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ شہید ہوچکے ہیں۔ 15 اگست کو امرتسر جو سکھوں کا مذہبی شہر ہے وہاں فتح کا جشن منایا گیا۔
نشہ میں مست سکھوں نے وہ کیا کہ جسکی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ان سفاکانہ اور وحشی درندوں نے عفت ماب مسلمان دوشیزاوں کوسربازار رسوا کیا انکا شرمناک جلوس نکالا۔بعض کو قتل کردیا اور بعض کو زندہ جلادیا۔محمد رشید قریشی تحریک پاکستان کے ایک ایسے خاموش سپاہی تھے کہ جنھیں نہ کبھی ستائش کی تمنا رہی نہ ہی صلہ کی امید ۔وہ سپاہی کہ جسکی بہادری و دلیری اور بروقت جراتمندانہ کاروائی نے نہ صرف ہزاروں مسلمانوں کی جان بچائی بلکہ انکو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے کیلیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
اور یوں شہید نہ سہی غازی بنکر اپنے نئے ملک پاکستان لوٹے۔ کیسے کیسے انمول غازی اور شہید تھے جو اپنی اس دھرتی کی آبیاری اپنے خون جگر سے کرکے منوں مٹی تلے جا سوئے۔ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے بخشا ہے جن کو تونے ذوق خدائی

Browse More Urdu Literature Articles