Hafeez Taib - Article No. 1937

Hafeez Taib

حفیظ تائب - تحریر نمبر 1937

آپ کی ہر نعت افتخارِ شاعری ہے

بدھ 27 فروری 2019

ڈاکٹر تنویر حسین
زندگی میں انسان کی ملاقات بہت سے لوگوں سے ہوتی ہے لیکن ان میں کم ہی ملاقاتیں ایسی ہوتی ہے جو دل پر مستقل نقش چھوڑ جاتی ہیں اور جوں جوں وقت کا پہیہ گردش کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے وہ ملاقاتیں انسان کا اثاثہ بن جاتی ہیں ۔دل کے باغیچہ میں حفیظ تائب کی ملاقاتوں اور یادوں کا اثاثہ موجود ہے۔کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نعت گوئی کی اتنی عظیم المرتبت شخصیت سے نہ ملا ہوتا تو میں کتنا گھاٹے میں رہتا ۔


آج میں جب ان کی نعت پڑھاتے ہوئے اپنے طلباء سے نہایت افتخار سے یہ کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو خوش بخت تصورکرتا ہوں کہ میں حفیظ تائب سے مل چکا ہوں ،ان سے ہمکلام ہو چکا ہوں اور ان کی محافل میں حاضرہو چکا ہوں ،تو میری طلباء کی آنکھوں میں جو میرے لئے عزت ‘احترام اور توقیر کی جوچمک پیدا ہوتی ہے اس شاید یہاں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا ۔

(جاری ہے)

بہت سی ملاقاتیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف اپنے لئے ہوتی ہیں کسی کو بتانے اور سنانے کیلئے نہیں ہوتیں ۔یہ ملاقاتیں دل کو گلاب ،روح کو بالیدہ اور سر شار کر دیتی ۔انہیں راز کی ملاقاتوں اور باتوں کے نام سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے ۔
جب میں نے نویں جماعت میں لاہور کے شمالی علاقے میں واقع گورنمنٹ ہائی سکول شادباغ میں داخلہ لیا تو مجھے کیا خبر تھی کہ میں روزانہ جس علاقے سے گزر کر سکول آتا جاتا ہوں ،اس میں حفیظ تائب جیسی ہستی مقیم ہیں جس کا مقصد دہر میں اسم ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اجالا کرنا ہے ۔
وقت گزرتا رہا اور ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے لکھنا ‘لکھانا شروع کر دیا۔پھر کیا تھا بڑے بڑے ادیبوں ‘شعراء سے ملاقاتوں کی سعادت سے مالا مال ہونے لگا۔
حفیظ تائب سے ملاقات کی سعادت پہلے پہل مجھے اور ینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہورمیں حاصل ہوئی ۔سادہ اور صاف ستھرے لباس شلوار قمیض میں ملبوس تھے ۔ان کے ظاہر باطن کی پاکیزگی ان کے چہرے سے عیاں تھی ۔
مجھ یوں محسوس ہوا جس میں کسی درویش کے آستانے پر آگیا ہوں ۔جب وہ مجھ سے ہمکلام ہوئے اور ان کی گفتگو میں ان کی فطری مسکراہٹ بھی شامل ہوگئی تو میرے دل نے گواہی دی کہ کسی کوخوش ہو کر ملنا بھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
جس طرح پھولوں سے خوشبو نہیں سنبھالی جاتی اس طرح اس ملاقات کے بعد مجھ سے حفیظ تائب کی خوبشو نہ سنبھالی گئی اور میں نے اپنے اہلخانہ ‘عزیز و اقارب اور آس پاس کے لوگوں سے اس کا تذکرہ کر دیا ۔
بعض ملنے جلنے والوں نے میری اس ملاقات پر رشک کی گل پاشی کرتے ہوئے کہا کہ مدح خوانِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے اکیلے ہی خوشبو سمیٹ لائے ہو ۔
حفیظ تائب نہایت سہل الحصول تھے ۔مقام و مرتبے کے اعتبار سے حفیظ تائب اتنے بڑے آدمی تھے کہ ان سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ اپنے عقیدت مندوں اور ملنے جلنے والوں پر اتنی پابندی تو عائد کر دیتے کہ وہ انہیں وقت بے وقت نہ ملیں اور اگر ملنا اتنا ہی ناگزیر ہے تو کم از کم ان سے وقت ہی لے لیا کریں لیکن آفرین ہے ان کی شفقت اور محبت پر کہ ان کا دل ہر کسی ونا کس کیلئے کشادہ رہتا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے آقا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی درس لیا تھا ۔

حفیظ تائب کی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار میں ان کی زیارت کرنے ان کے گھر گیا۔ بیٹھک میں بیٹھے ہوئے ابھی چند ساعتیں ہی گزری ہوں گی کہ پھلوں کی ٹرے تھا مے تائب صاحب میرے سامنے تھے ۔میں تعظیماً کھڑا ہو گیا اور ان کے ہاتھ سے ٹرے لے کر میز پر رکھ دی ۔تائب صاحب نے اپنے دستِ مبارک سے پھل کاٹنے شروع کر دیے اور ساتھ ساتھ کھانے کا اصرار بھی مسکراہٹ کے ساتھ جاری رکھا۔
اللہ والوں کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں خلق خدا سے بڑی محبت ہوتی ہے ۔
ان کے ہاں کوئی کام یا غرض سے آجائے تو اس کا کام خندہ پیشانی سے کرتے ہیں ۔
اس کے طعام وآرام کاخیال رکھتے ہیں اوررخصت کرتے وقت سفر خرچ کی پوٹلی بھی تھما دیتے ہیں ۔
تائب صاحب بھی اللہ والے تھے ۔انہیں بھی خدا کے بندوں سے بہت پیار تھا۔ ایک دفعہ اپنی مصروفیات کا تذکرہ فرمانے لگے مجھے اپنے کاموں کیلئے وقت نہیں ملتا ۔
میں بہت سے لوگوں کی کتابوں کے دیبا چے لکھنے میں مصروف رہتا ہوں ۔
میرے اپنے مسودات منتشر ہیں انہیں یکجا کرنے کی فرصت نصیب نہیں ہوتی ۔یہ بھی ان کی شخصیت کی ایک اعلیٰ قدر تھی کہ اپنے کام پر دوسرے کے کام کو ترجیح دیتے تھے ۔آج کل تائب صاحب جیسی ایثار وقربانی کی اقدار کہاں ملتی ہیں ۔ایک رو زمیں ان سے ملنے جانے لگا تو اپنی بیٹی عاتکہ کو ساتھ لے گیا۔

تائب صاحب نے دروازہ کھولا تو میں نے نہایت ادب سے مصافحہ کیا اور بتایا کہ یہ میری بیٹی عاتکہ ہے ۔تائب صاحب نے سر پر پیار دیا اور پوچھا کون سی کلاس میں پڑھتی ہوں ؟بیٹی نے کلاس بتائی ۔اتنے میں ہم بیٹھک میں بیٹھ چکے تھے ۔
خربوزوں کا موسم تھا تائب صاحب نے خربوزے کاٹ کاٹ کر بیٹی کو کھلانے شروع کر دیے۔مجھے اس لئے خوشی ہورہی تھی کہ میری بیٹی کو خربوزوں سے خدا واسطے کا بیر تھا یعنی ہو کبھی خربوزے نہیں کھاتی تھی میری بیٹی اب بھی اس واقعہ کو یاد کرتی ہے خوش ہوتی ہے اور نعت کے اتنے بڑے شاعر سے ملاقات کو اپنی زندگی کا اہم واقعہ قرار دیتی ہے ۔
حفیظ تائب نعت کا بحرِرواں تھے جس سے عقیدت کے موتی اور مونگے نکلتے اور لوگ ان موتیوں کو آنکھوں سے لگاتے اور دلوں میں بساتے تھے ۔
تائب صاحب کی عادات وخصائل ایسے تھے کہ جو جوان کے قریب رہا ہر ایک نے یہی سمجھا کہ تائب وہ سب سے زیادہ اس سے محبت کرتے ہیں اور واقعتا وہ سب کے ساتھ محبت کرتے تھے ۔ایک دن میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ لوگ آپ کا بہت احترام کرتے ہیں اور آپ کی ہر ادا پر فریفتہ وشیفتہ ہیں ۔

نہایت سنجیدگی اور انکسار سے فرمانے لگے ،”میری جن سے نسبت ہے یہ سب انہی کی ذات اقدس کے صدقے ہے ۔“لوگ تائب صاحب کی سیرت وکردار پر تو قربان تھے ہی ایک خطر ناک مرض بھی ان کے اخلاق و کردار پرمرمٹا تھا ۔
وہ مرض بڑا سیا نا اور دوراندیش تھا ۔اس نے سوچا ہو گا کہ حفیظ تائب ہی پر حملہ آور ہونا چاہئے اور کچھ ملے نہ ملے اپنی عاقبت تو سنورے گی ۔
تائب صاحب نے مجھے بتایا کہ اس مرض نے انہیں بیرون ملک کی سیر بھی کرائی ۔بیرون ملک ڈاکٹروں کے مشورے پر تائب صاحب ہسپتال میں داخل بھی ہوگئے لیکن وہ اس موذی مرض کے چکر میں نہ آئے اور ڈاکٹروں کے قیافوں اور اندیشوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے وطن واپس پہنچ گئے ۔انہیں یہ حوصلہ سر کار مدینہ کی طرف سے ملا تھا ۔تائب صاحب خوش مزاج بھی تھے ۔

ایک دفعہ بتایا کہ شیخ منظور الٰہی کے سر پر جب وزارت اعلیٰ کی پگڑی باندھی گئی تو وہ خوش وقتی کیلئے ان کے ہاں تشریف لائے ۔پروٹوکول کی گاڑیوں نے ہاہا کار مچاوی ۔میرے غریب خانے کو پولیس کی گاڑیوں نے اپنے حصار میں لے لیا تو میرے محلہ داروں اور اردگرد کے باسیوں نے سوچا کہ اللہ خیر کرے ”آج پروفیسر پھڑیا گیا اے “اج پتہ چلیا کہ اوہ انڈرورلڈ کے کہیڑے کم کردار ہنداسی ۔
“تائب صاحب نے ان الفاظ کو اس اندا زمیں ادا کیا کہ میرے لیے ہنسی روکنا مشکل ہو گیا ۔
بعض اوقات ایسا ہوتا کہ میں” نوائے وقت “کے دفتر سے نکل کر گھر جانے کی تیاری پکڑ رہا ہوتا تو تائب صاحب اچانک نظر آجاتے ۔پہلے تو میں انہیں سلام کرتا اور پھر اپنی موٹر بائیک پر بیٹھنے کیلئے کہتا۔مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میرا کوئی انعامی بانڈ نکل آیا ہو۔
حفیظ تائب صاحب دوران سفر اتنی میٹھی میٹھی باتیں کرتے کہ جب ان کا گھر قریب آجاتا تو افسوس ہوتا اور میرے دل سے یہ آواز آتی کہ کاش اس فرشتہ سیرت انسان کے ہمراہ چندساعتیں اور گزر جاتیں ۔
اردو بازار میں تائب صاحب سے کئی بار ملاقات ہوئی ۔ایک دن فرمانے لگے جب میں گھر جانے کا ارادہ باندھ رہا ہوتا ہوں تو آپ نظر آجاتے ہیں ۔میں نے فوراً جواب دیا،”اللہ تعالیٰ نے شاید میری عاقبت سنوارنے کیلئے میرے ذمہ یہ ڈیوٹی لگائی ہے ۔

حفیظ تائب ایسے لوگوں میں سے تھے جن سے روحانی فیض حاصل کیا جا سکتا تھا ۔ان سے علم علم اخلاق اور محبت کی باتیں سیکھی جا سکتی تھیں ۔ہر گروپ کے ادیب وشاعر ان کا احترام کرتے تھے ۔شرافت ونجابت کے حوالے سے اگر مثال دینا مقصود ہوتو سب سے پہلے زبان پر جو نام آئے گا وہ حفیظ تائب ہی کا ہو گا۔

Browse More Urdu Literature Articles