Insaan Zindagi Aur Adab - Article No. 1761

Insaan Zindagi Aur Adab

انسان زندگی اور ادب - تحریر نمبر 1761

زندگی ہر انسان کو بہت عزیز ہے لیکن زندگی کو ہر ا نسان اتنا عزیز نہیں ،اس لیے کہ سر زندگی سے عدم آگہی کے باعث انسان نے ہر زمانے میں ز ندگی سے جو بد سلوکی روارکھی اُ س کا جواب زندگی کی طرف سے اور ہو بھی کیا ہو سکتا ہے!

جمعرات 6 ستمبر 2018

پروفیسر ایم-اے مجید یزدانی
زندگی ہر انسان کو بہت عزیز ہے لیکن زندگی کو ہر ا نسان اتنا عزیز نہیں ،اس لیے کہ سر زندگی سے عدم آگہی کے باعث انسان نے ہر زمانے میں ز ندگی سے جو بد سلوکی روارکھی اُ س کا جواب زندگی کی طرف سے اور ہو بھی کیا ہو سکتا ہے! اس نے انسان کو اشرف المخلوقات کے روپ میں کبھی کبھار ہی دیکھا ہے لیکن جب بھی دیکھا ہے سر آنکھوں پہ بٹھایا ہے‘ ایسے انسان کا قالبِ خاکی موت نے چھین بھی لیا تو زندگی نے اس کا نام ہمیشہ زندہ رکھا ،اس کو اپنے اجزائے تر کیبی کا جزوِ خاص قرار دیا․․․ مگر انسان نے اپنی” عدیم الفرصتی“ کے باعث زندگی کو اس خدمت کا موقع کم کم ہی فراہم کیا ہے ۔

اپنی عمر طبیعی کے اختصار کو انسان نے فنائے زندگی کی دلیل تصور کر لیا حالانکہ موت انسان کی واقع ہوتی ہے نہ کہ زندگی کی !اسی کج فہمی نے اس افراتفری کے ایسے عجلت خانے میں پہنچا دیا جہاں ہوس نے نشاطِ کار کے سینکڑوں ہزاروں ڈھنگ سیکھ لیے تا کہ جینے کا مزامرنے سے پہلے بہر طور اُٹھالیاجائے گو یا تن آسانی اور عیش کوش ہی تو مقصودِ زندگانی ہے! لوازمات عشرت کا بنیادی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کا ضرورت سے زیادہ ذخیرہ ہمہ وقت موجود ہے جس سے دادِ عیش دینے کے علاوہ اپنے جذبہ تفاخر کی تسکین بھی ہوتی رہے ،اپنی فارغ البالی کی دھاک بھی قائم رہے ۔

(جاری ہے)

تِس پہ غضب یہ کہ تعیش پسندوں کو ہاتھ پاؤں ہلانا بھی گوارانہ تھا،چنانچہ دست وپاکاکام دماغ سے لیا جانے لگا تو ہوس اور نشاطِ کار میں اور بھی زیادہ گاڑھی چھننے لگی اور تسکینِ ہوس کے لیے مکرو فریب کو بھی نشاطِ کار کے مترادف قرار دیا گیا ۔ہر انسان کو دھوکا دینا عین انسانیت سمجھا ۔یہی مفہوم تھا جو تر کیب اشرف المخلوقات سے اخذ کیا گیا ۔
لیکن فریب دہی کی کوشش میں ہر کوئی تو کامیاب نہیں ہو سکتا تھا ،انسان جہاں دھوکا دیتا ہے وہاں دھوکاکھاتا بھی ہے بلکہ کھاتازیادہ ہے کہ سادہ دل تو ابتدائے آفرنیش سے ہے میرنے جو دل کے بارے میں کہا کہ
دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا
تو اشارہ اسی سادگی بلکہ سادہ لوحی کی طرف ہے جس کا اولین ثبوت روز ِاول ہی دے گزراتھا جب
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اُٹھالایا
حالانکہ یہاں آکر اپنے ہی ہم جنسوں کے ہاتھوں وہ مٹی پلید ہوئی کہ
قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم کو میں دکھالایا
کیونکہ سارے عالم میں انسان نے دل کی بجائے دماغ کو واجب التعظیم مان لیا تھا !نتیجہ یہ کہ عیار ذہنوں کی اقلیت کے سامنے سادہ دلوں کی بھاری اکثر یت بے بس ہوتی چلی گئی ،اُ ونچ نیچ اور کہتر وبرتر کا فتنہ ابتداء ہی سے نموپذیر ہوتا رہا ،پتھر اور غار کے زمانے ہی میں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں سردار ،نائب سردار اور چاکر انِ سردار کا تصور مکاروں کے اذہان اور سادہ لوحوں کے قلوب میں راسخ ہو چکا تھا اور یہ سلسلہ کچھ اس طرح سے چل نکلا کہ پتھر سے دھات اور پھر شعورِ تمدّن کے زمانے تک پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا گیا ۔
تن آسانوں کی عشرت پسندی میں جاہ پسندی میں جاہ پسندی کا عنصر شامل ہوتا گیا اور محنت کشوں کے استحصال کے ساتھ ساتھ اُن کی تذلیل کا اہتمام لازم وملزوم قرار پایا کہ وہ خون پسینہ ایک کرکے سب کچھ پیدا کریں لیکن خود اُس کو تر ستے ہی رہیں ۔چھوٹے چھوٹے گروہوں نے قبائل کی شکل اختیار کرلی تو وہ زمین کے مختلف خطوں پر قابض ہوتے گئے اسی عدم مساوات کے انداز کو اپنائے ہوئے! یوں سنیہ ارض پر جغرافیائی حدبندیوں کے داغ نمودار ہوئے ۔
پھر جب قبائل نے مختلف اقوام کا رُوپ دھاراتو اُن کے زیر تصرّف خطہ ہائے ارض کو مختلف ممالک سے موسوم کیاگیا اور باہمی عدواتوں رقابتوں کا آغاز ہوا ․․․ہاں اس نفاق وافتر اق کے باوجود ایک قدرِ مشترک ان تمام ممالک واقوام میں موجود رہی یعنی ہر جگہ اربابِ اقتدار کا ظلم واستبداداور محکوموں یعنی عوام کی مجبوری بے بسی اور زبوں حالی ،خواجگی وبندگی کو اہلِ اختیار نے ہر جگہ دستور ِحیات مقرر کر رکھا تھا جو کبھی ختم نہ ہو سکا صرف اس کی شکلیں بدلتی رہیں وہ بھی بد سے بدتر! خالقِ کائنات کے اس استفسار کے جواب میں کہ
جہاں راز یک آب وگلِ آفریدم تو ایران وتاتار وزنگ آفریدی
من ازخاک پولاد ِناب آفریدم تو شمشیر و تیرِ وتفنگ آفریدی
نشہ وغرورِ کواجگی میں بد مست انسان نے گستاخانہ کہا
تو شبِ آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدی
بیابان وکہسارو راغ آفریدی خیابان وگلزار وباغ آفریدی
من آنم کہ ازسنگ آئینہ سازم کم آنم کہ از زہر نو شینہ سازم
باندازِ بندگی ونیاز مندی ہوتا تو یہ اظہارِ تفاخربھی قابلِ عفوودرگزر ہوتا لیکن تب بھی صرف اور صرف اس صورت میں کہ یہ پورے بنی نوع بشر کی طرف سے ہوتا مگر بحالتِ موجود تو یہ اُن اہلِ تعیش کا نعرہ مستانہ ہوتا ہے جو تمدن کے جملہ ساز وسامانِ آسائش پر ہمیشہ قابض رہے لیکن ان ہاتھوں کو ہمیشہ تہی ومحروم رکھا جو تمام تخلیقات وموضوعات کے واقعی خالق وصناع تھے ۔
عیش پسندوں کے ایوانوں اور شبستانوں کو بقعہ نور بنانے والے چراغ ،کنول ،شمعیں اور فانوس جس بندہ مزدور نے بنائے تھے اس کے اپنے چھونپڑے میں تو مٹی کا دِیا بھی بمشکل ہی جلتا تھا ،مٹی سے جام وساغربنانے والے کاریگر کی بدولت اہلِ عشرت کے ہاں تو شراب ِناب کے جام لنڈھائے جاتے رہے لیکن غریب کا ریگر کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں تھا ۔بیابان کو خیابان ،کہسار کو گلزار اور راغ کو باغ کی شکل عطا کرنے والے مالی اور دہقان کو ان میں سیروتفریح سے لطف اندوز ہونے کا موقع استحصال پر ستوں نے کب دیا تھا ۔
سنگ کو صیقل کرنے کے لیے ہاتھ گھسانے والے فن کا ر کو اپنا گردہ آلود چہرے آئینے میں دیکھنا کب نصیب ہوا تھا! دستِ محنت کش کی بدولت غاصب کا سرِ پُر غرور ہمیشہ بلند رہا ․․․اور پھر بلند تر ہونے لگا جب ان بدشعاروں نے اپنے افعالِ قبیحہ کو ،اپنی رنگ رلیوں کو اور عیش وعشرت کے مخصوص وپسندیدہ طریقوں کے اپنے اپنے خطوں کی ”تہذیب“ سے موسوم کرنے کی بناء ڈالی حالانکہ ان نام نہاد تہذیبوں میں ان پامالِ ستم لوگوں کا توکوئی مقام نہیں ہوتا تھا جنہیں جدید اصطلاح میں عوام کہا جاتا ہے ۔
رومن تہذیب کے افسانے سناتے وقت اس حقیقت کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ وہ اکثر وبیشتر قیصر وقیصر یت کے جاہ وجلال اور اُن کے عشرت کدوں کی داستانیں ہیں ورنہ عوام کا تعلق تو اُن سے فقط یہی تھا کہ وہ اپنے سروں کو بزمانہ امن قیصر کے سامنے جھکاتے رہیں اور بصورتِ جنگ اس کی خاطر کٹواتے رہیں۔ پھر ہوسِ اقتدار کے ساتھ جب جذبہ تو سیع پسندی نے بے قرار کیا تو باہمی تصادم کے باعث یہ تہذیبیں ایک دوسرے کے ہاتھوں مٹتی بھی رہیں لیکن جسم وجاں کا نذرانہ بہر صورت عوام ہی کو پیش کرنا پڑتا تھا جو وہ بخوشی پیش کرتے رہتے تھے کیونکہ ان کو اسی حال پر قابع ومطمئن رکھنے کے لیے تہذیب کے شاخسانے کے طور پر تو ہمات ایجاد کیے گئے جن میں موٴثر ترین حربہ خود ساختہ تصورِ مذاہب کا تھا ․․․کہ اربابِ اقتدار خود تو دیوی دیوتاؤں یا کم سے کم اُ ن کی نیابت ونما ئندگی کا مقام سنبھالے رہے اور پر ستش وعبارت کا ”فریضہ “عوام کو ادا کرنا لازم تھا ۔
مذہبی تعلیمات کی تشریح و تو ضیح بھی انہی خداوندانِ مملکت کی مرضی ومنشاء کے مطابق کسی نہ کسی رنگ میں ہونے لگی اور یہ سلسلہ اکثر وبیشتر آج تک جاری ہے ․․․یہاں تک کہ مقدس الہامی صحیفوں کو تا ویل کے جامے پہنا کر عوام کو گمراہ کرنے سے گریز نہیں کیاجاتا ۔بقولِ اقبال
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسّر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پا زند
اور یوں اہلِ محنت کے ساتھ خود روحِ انسانیت اہلِ عشرت کے ہاتھوں ہمیشہ مبتلائے عذاب رہی !

Browse More Urdu Literature Articles