Loog Paraye Dard Uthaye Phirte Hain - Article No. 2092

Loog Paraye Dard Uthaye Phirte Hain

لوگ پرائے درد اٹھائے پھرتے ہیں - تحریر نمبر 2092

پروفیسرحمید کوثر․․․ایک انسان دوست شاعر

پیر 8 جولائی 2019

خالد یزدانی
سخن کا وہ دبستان ہوں میں کوثر
ازل سے تاابدپھیلا ہواہوں
حمید کوثر کو قومی ترانے کے خالق ،ابوالاثر حفیظ جالندھری(مرحوم ومغفور)کا تلمیذ خاص بلکہ فرزند معنوی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔حضرت حفیظ کی خصوصیات فن کو جس طرح حمید کوثر نے اپنے فن میں برتا ہے وہ انہی کاحصہ ہے۔بحیثیت انسان وہ استقامت واستواری کے قائل ہیں، اپنے کلام میں بھی انہیں انسانی تعلقات کے حسن واہمیت کا بطور خاص لحاظ رہتا ہے اس افتادطبع کے باعث ان کے ہاں انسان دوستی اپنے دوسرے ہم قلموں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے ۔
انسان ان کے نزدیک اتنا اہم ہے کہ وہ کرہ ارض کی ساری چہل پہل اور ہمہ ہمی کو جائز طور پر انسان اور صرف انسان سے منسوب کرتے ہیں۔
آدمی سے ہے اس زمیں کو شرف
سنسناتے ہیں بحر وبن تنہا
یہ تحسینی کلمات احمد ندیم قاسمی نے”حمید کوثر ۔

(جاری ہے)

۔۔ایک انسان دوست“کے نام سے لکھے تھے۔پروفیسر حمید کو ثر کے فن وشخصیت پر ان کی زندگی میں بھی بہت کچھ لکھا گیا اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اور کیوں نہ ہو زندہ قومیں ان کو کبھی نہیں بھولتی ۔

حمید کوثر ان کا قلمی نام تھا جبکہ اصل نام عبدالحمید تھا ان کی ولادت4مئی1931ء کو جالندھر جیسے مردم خیز خطہ میں ہوئی۔جبکہ زندگی کا زیادہ عرصہ لاہورہی میں گزرا۔حمید کوثر کی شادی سعیدہ خانم سے 1957ء میں ہوئی تھی۔پروفیسر حمید کوثر کی شاعری میں دین سے رغبت اور وطن سے محبت کی خوشبو ہی نظر آتی ہے ،جبکہ حفیظ جالندھری کے فکری دبستان کے حقیقی وارث حمید کوثر ہی تھے ،جنہوں نے ان کی فکری میراث کا تحفظ بھی کیا۔
حمید کوثر(مرحوم)کاشمارقومی ترانے کے خالق ابو الاثر حفیظ جالندھری کے ان شاگردوں میں رہا جنہیں وہ بے حد عزیز تھے ،انہوں نے حمید کو ثر کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور حمید کوثر نے بھی یہ رشتہ بخوبی نبھایا۔
حمیدکو ثر کے فرزند مجید غنی(سیکرٹری ایلاف کلب لاہور)نے ان کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ والد صاحب فیملی کے ساتھ تقسیم سے کچھ سال قبل ہی لاہور آگئے تھے ۔
ابتدائی تعلیم کے بعد 1962ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں لیکچرر مقرر ہوئے اور پھر بطور صدر شعبہ اردو ریٹائر ہوئے ،دوران ملازمت ایل ایل بی بھی کیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں باقاعدہ وکالت کرتے رہے۔
والد کی شاعری کے حوالے سے مجید غنی نے بتایا والد کو شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا،ابتدائی عمر سے ہی انتہائی عمدہ شعر کہنا شروع کر دےئے تھے۔
شاعری میں پہلے علامہ فخر ی مرحوم سے اصلاح لی بعدازاں ابوالاثر حفیظ جالندھری کے شاگردہوگئے ،حفیظ صاحب نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا بلکہ اپنی علمی وفکری میراث کا وارث قرار دیا۔حمید کوثر نے بھی بیٹا ہونے کا بھر پور حق ادا کیا ابو الاثر حفیظ جالندھری کی علالت اور بعدازاں ان کی وصیت کے مطابق ان کی حضرت علامہ اقبال کے مزار کے پہلو میں تدفین کی خواہش کے حوالے سے بھی بھر پور کوششیں کیں ،جس کاا یک زمانہ گواہ ہے ۔
مجید غنی والد مرحوم کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتانے لگے ،حمید کوثر ایک نہایت ذمہ دار باپ بھی تھے جنہیں اپنے بچوں کی ضروریات کا ہر وقت خیال رہتا تھا،لیکن اس کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی ہر لحاظ سے خیال رکھا۔
زندگی میں مثبت رویوں کے قائل تھے قنوطیت اور مایوسی کبھی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری ہمیشہ کہتے تھے کہ اپنی زندگی میں”نہ“ کے لفظ سے بچو۔
ہمیشہ دوسروں کیلئے اچھا سوچتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری انسان دوستی سے بھری پڑی ہے ہم نے انہیں زندگی میں کبھی مایوس نہیں دیکھا ہمیشہ حوصلہ مند رہے دوسروں کی مدد کرکے حد درجہ خوشی محسوس کرتے تھے ۔حوصلے کے حوالے سے ایک بات اور بھی ہے اوریہ کہ اپنی آخری علالت کے دنوں میں بھی بھر پور حوصلے میں رہے ۔اپنی اہلیہ سے بے حد محبت کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ دیران کی جدائی برداشت نہ کر سکے اور اہلیہ کی وفات کے بعد چھ ماہ کے اندر خود بھی ان سے جاملے ۔
ایک قطعہ ملا حظہ ہو۔
جگنو ہیں یا آنسواڑتے پھرتے ہیں
وہ جانے جس کی آنکھوں سے گرتے ہیں
اپنے تن کا بوجھ اٹھانا مشکل ہے
لوگ پرائے درد اٹھائے پھرتے ہیں
قدرت نے حمید کوثر کو بہترین شاعرانہ صلاحیتوں سے نوازاتھا ۔روایتی شاعری میں نہایت اعلیٰ پائے کی غزلیں،نظمیں لکھیں ۔ان کے قطعات اپنی مثال آپ ہیں ۔روایتی شاعری میں لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال قوم وملت کے لئے کیا اور اس لحاظ سے اپنے آپ کو قومی شاعری میں بھی ایک اعلیٰ مقام کا حامل بنالیا۔
حمید کوثر کی قادر الکلامی کا ثبوت میجر طفیل محمد شہید نشان حیدر کی منظوم سوانح عمری بھی ہے جواردو ادب میں کسی بھی شہید کی اولین منظوم سوانح عمری ہے ۔میجر طفیل شہید پر لکھی گئی۔”سردلبراں“میں حمید کوثر نے اس وقت نشان حیدر پانے والے شہداء پر نظمیں لکھیں جن کو بے حد سراہا گیا۔اس کے علاوہ لا تعداد جنگی ترانے اور نغمات بھی لکھے۔
1971ء کی جنگ میں ان کے قطعات روزانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے تھے۔علاوہ ازیں انہوں نے ایک طویل نظم”نظریہ پاکستان“لکھی جس میں نظریہ پاکستان کو منظوم شکل میں پیش کیا۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے حمید کو ثر کی شاعری کے حوالے سے مقالے میں لکھا تھا ”قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ابوالاثر حفیظ جالندھری کے شاگردہوئے ،استاد مرحوم کی بہت خدمت کی ،ہر حال میں ان کا ساتھ دیا ،ہمیشہ ان کا دفاع کرتے رہے اور شاگردی کے منصف سے بلند ہو کر ان کے منہ بولے بیٹے بن گئے،حفیظ ان کا ذکر بہت اچھے لفظوں میں کیا کرتے تھے۔

حمید کو ثر کی شاعری کا آغاز قیام پاکستان کے بعد ہوا،ان کے ایک مجموعے میں1948ء اور اس کے چند سال بعد کا کلام شامل ہے ،جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے سولہ سترہ برس کی عمر میں اس معیار کی شاعری شروع کردی تھی جس کے منتخب حصے کو انھوں نے اپنے مجموعے میں شامل کرنا پسند کیا،سردلبراں ان کا اولین مجموعہ کلام ہے اس وقت ا ن کی عمر بیالیس سال تھی ،حفیظ جالندھری سے اصلاح لی اور انہی کے انداز میں بہت سا کلام مجموعے میں شامل کرنے کے قابل نہ سمجھا اس کے باوجوددوسوصفحات پر مشتمل ہے ،اس میں نظمیں ،غزلیں اور ترانے ہیں علاوہ ازیں نشان حیدر حاصل کرنے والے شہدائے افواج پاکستان پر متعددنظمیں ایک الگ حصے میں شامل رہیں۔

ڈاکٹر اجمل نیازی نے حمید کوثر کے بارے لکھا تھا ،حمید کو ثر صاحب نے نہایت اعلیٰ پائے کی نثر لکھی۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شاعری پر تو بہت کچھ لکھا گیا لیکن ان کی نثرپر مزید لکھے جانے کی ضرورت ہے ،ان کے نثر کے مضامین وخطوط اپنی جگہ انتہائی منفرد اور اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔حمید کوثر پاکستان اور نظریہ پاکستان کے فدائی تھے۔آپ نظریہ پاکستان پر کسی قسم کی مفاہمت کے قائل نہ تھے۔

حمید کوثر کی زندگی میں ان کی نظموں ،غزلوں کے مجموعوں کے علاوہ”فاتح لکشمی پور“کے عنوان سے میجر طفیل شہید پر منظوم سوانح عمری قادر الکلامی کی مظہر ہے ۔آج وہ اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے فن وشخصیت پر مزید لکھا جانا چاہئے ان کے فن وشخصیت پر ماہ نامہ”شام وسحر“لاہور نے خصوصی شمارہ بھی شائع کیا تھا جس میں ملک کے معروف شاعروں ادیبوں اور دانشوروں نے حمید کوثر کو خراج تحسین پیش کیا تھا حمید کوثر کی شخصیت کا ایک پہلو ایک ماہر قانون دان کا بھی رہا،انہوں نے کئی آئینی درخواستیں لاہور ہائی کورٹ میں دائرکیں۔
جن میں آئین کے مطابق اردو کو دفتری زبان قرار دینا شامل تھا۔حمید کوثر عمر کے آخری حصہ میں شاہنامہ اسلام کی پانچویں جلد پر کام کر رہے تھے لیکن عمر نے وفانہ کی۔حقیقت یہ ہے کہ حمید کوثرقومی شاعری میں حالی ،اکبر ،اقبال اور حفیظ کی میراث کے وارث ہیں۔ آپ کوادبی خدمات پر مختلف اداروں اور تنظیموں کی طرف سے اعزازات سے بھی نوازاان کوخراج عقیدت پیش کرنے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اورمستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ان کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
تجھ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں کوثر
آسمانوں میں یا زمینوں میں

Browse More Urdu Literature Articles