Mujhe Ishq Hai Bewgi Se - Article No. 2000

Mujhe Ishq Hai Bewgi Se

مجھے عشق ہے بیوگی سے - تحریر نمبر 2000

غلام محمد کی لاش جب گاؤں پہنچتی تو گاؤں میں کہرام مچ گیا تین لڑکیاں یتیم اور ایک عورت بیوہ ہو چکی تھی

جمعہ 5 اپریل 2019

رانا زاہد حسین
غلام محمد کی لاش جب گاؤں پہنچتی تو گاؤں میں کہرام مچ گیا تین لڑکیاں یتیم اور ایک عورت بیوہ ہو چکی تھی غلام محمد کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔دو بیٹیاں بالکل شادی کی عمر کو پہنچ گئی تھیں جبکہ تیسری کی عمر ابھی دس سال تھی غلام محمد مزدوری کرتا تھا ایک پلازہ کی تیسری منزل پر کام کررہا تھا کہ پاؤں پھسلا اور نیچے جا گرا اس کو اسپتال تک لے جانے کی مہلت نہ ملی اور اس نے وہی دم توڑ دیا۔

غلام محمد کی مالی حالت بہت کمزورتھی کبھی گھر میں روئی پکتی اور کبھی یہ سارا خاندان بھوکا ہی سوجاتا۔
غلام محمد اور اُس کی بیوی نذیراں دونوں بڑے خود دارتھے کبھی اپنی تنگدستی کسی پر ظاہر نہیں کی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایاسفید پوشی کی چادر اوڑھے زندگی گزاررہے تھے۔

(جاری ہے)


غلام محمد کی موت کے ساتھ ہی سفید پوشی کی چادر اتر گئی اب ہر کوئی نذیراں سے ہمدردی کررہا تھا گاؤں کے لوگوں نے ہی مل جل کر غلام محمد کے کفن دفن کا انتظار کیا کیونکہ نذیراں کے پاس تو پھوٹی کوڑی نہیں تھی غلام محمد کی جو بھی دیہاڑی لگتی تھی اُس سے تو گھر کا راشن بھی مشکل سے آتا تھا ‘غلام محمد کی ہفتے میں اگر چار دیہاڑیاں لگتی تھیں تو تین ٹوٹ بھی جاتی تھیں ۔

پہلے جولوگ نذیراں کو دیکھ کرراستہ بدل لیتے تھے کہ کہیں کچھ مانگ ہی نہ لے اب خودنذیراں کی مدد کررہے تھے کوئی اُس کے گھر آٹا لا رہا ہے تو کوئی چاول لارہا ہے ۔کوئی اپنے پرانے کپڑے اُس کودے کرجارہا ہے۔
ہر کوئی نذیراں کی مدد کرکے ثواب کمانا چاہتا تھا اب گاؤں کے ہر صاحب ثروت آدمی کی یہ کوشش تھی کہ وہ زکوٰة فطرہ وغیرہ بھی نذیراں کو ہی دے حالانکہ گاؤں میں اور بھی کئی لوگ تھے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے مگر اُن کی طرف کسی کا دھیان نہیں تھا غلام محمد کیا فوت ہوانذیراں کے تو دن ہی پھر گئے۔

مغرب کی اذان ہورہی تھی جب سلطان نے گھر میں قدم رکھا ایک سگریٹ اُس کے ہونٹوں میں تھی دوسری سگریٹ اُس نے دائیں کان میں اڑس رکھی تھی ۔
”لگ گئی دیہاڑی؟“برکتے نے سلطان کو دیکھتے ہی پوچھا۔
”ہاں لگ گئی۔“سلطان نے جواب دیا اور سوسو کے تین نوٹ برکتے کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
“صرف تین سولاہور میں تو مزدور کی دیہاڑی پانچ سو ہے۔
“پھر سلطان کے منہ اور کانوں میں سگریٹ دیکھ کر اپنے سوال کا خودہی جواب دینے لگی۔
”دو سو کی اپنے لیے ہیروئن خریدلی ہوگی؟“
”جب تم کو پتہ ہے تو پھر بک بک کرنے کی کیا ضرورت ہے میں روٹی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہوں ہیروئن کے بغیر نہیں ۔“سلطان سگریٹ کے مرغولے فضا میں چھوڑتے ہوئے بولا۔سلطان ہیرؤن کا عادی تھا جو کماتا آدھی کمائی ہیروئن کی نذر کر دیتا جس کی وجہ سے گھر کی مالی حالت نہایت ہی ابتر تھی سلطان کا ایک لڑکا عرفان تھا جو اب جوان ہو چکا تھا عرفان پانچویں جماعت سے آگے نہ پڑھ سکا۔
سلطان نے اُسے ویلڈنگ کا کام سیکھنے کے لیے اپنے ایک دوست کی دکان پر بھیج دیا۔وہاں بھی وہ کبھی جا تا کبھی اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ گھوم پھر کر گھر واپس آجاتا ۔عرفان کے بعد بھی برکتے کے ہاں دو بچیاں پیدا ہوئیں مگر دونوں ہی سال سال کی ہو کر فوت ہو گئیں اب برکتے کے ہاں پانچ سال پہلے ایک بچی پیدا ہوئی جو حیات ہے اور گاؤں کے اسکول میں پڑھ رہی ہے برکتے کا جوان بیٹا آوارہ‘خاوند نشئی تھا۔
برکتے کے گلے میں بیوگی کا تمغہ بھی نہیں تو پھر کون برکتے کی مدد کرے برکتے نہایت ہی تنگدست بھی کبھی اُس کے گھر میں چولہا جلتا اور کبھی ٹھنداہی رہتا سلطان جو کما کر لاتا وہ ہیرؤن کے نشے میں اڑادیتا زندگی کے دن سسک سسک کر گزررہے تھے۔
ایک دن گاؤں میں اعلان ہوا کہ جو آدمی زکوٰة لینا چاہتا ہے وہ گاؤں کی زکوٰة کمیی کے چےئرمین سے رابطہ کرے اعلان سن کر نذیراں کے ساتھ برکتے بھی چےئرمین کے گھر پہنچ گئی۔

”نذیراں تم کو آنے کی کیا ضرورت تھی تمہارا نام تو میں نے پہلے ہی لکھ لیا ہے ۔“چےئرمین صاحب نذیراں کو دیکھتے ہی بولے پھر چےئرمین کی نظر برکتے پر پڑی جو سر جھکائے کھڑی تھی۔
”تم نذیراں کے ساتھ آئی ہو؟“چےئرمین صاحب نے برکتے سے پوچھا۔
”ہمسائی جو ہوئی ہمسائے کو ہمسائے کا احساس تو ہوتا ہے۔“چےئرمین کے پاس بیٹھا ایک بزرگ بولا۔

”نذیراں بیوہ ہے تم اِس کی ہمسائی ہو ہمسایہ ماں پیو جایا ہوتا ہے تم اور سلطان نذیراں کا خیال رکھا کرو
۔“چےئرمین برکتے کو سمجھانے لگا۔
برکتے کچھ نہ بولی برکتے جوارادہ کرکے گھر سے نکلی تھی وہ بات اُس لے لبوں پر نہیں آرہی تھی برکتے نے بڑی کوشش کی کہ وہ اپنا حال چےئرمین کے آگے بیان کرکے کہ وہ تو بیوہ سے بھی بدتر زندگی گزاررہی ہے لیکن ہر بار اُس کی خود داری آڑے آجاتی ۔
نذیراں کی زکوٰة لگ گئی نذیراں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی اکٹھی ہی طے کردی ایک ہی دن دو باراتیں آگئیں ۔دونوں کی شادی پر ساراخرچہ گاؤں والوں نے کیا۔
کسی نے بستر بنادیے کسی نے فرنیچر بنادیا کسی نے واشنگ مشین لے دی تو کسی نے فریج لے دیا اس طرح نذیراں کی دونوں بیٹیوں کا جہیز تیار ہو گیا گاؤں کے نائی نے پکوائی کے پیسے نہ لیے نذیراں کا گھر سے ایک روپیہ بھی خرچ نہ ہوا غلام محمد جب زندہ تھا تو نذیراں رات کو روٹی کھا کر سوتی تھی تو اگلے دن کا پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کل روٹی ملے گی کہ نہیں اب تو روزکوئی نہ کوئی اُس کو گھر کھانا بھی دے جاتا تھا کیونکہ اُس کی بیوگی پر سب کو ترس آتا تھا ہم ترس کھانا ہی جانتے ہیں ہمدردی کرنا نہیں۔

برکتے کاحال پہلے سے بھی بدتر ہو گیا سلطان مکمل طور پر ہیروئن کا عادی ہو گیا جو وہ تھوڑا بہت کما کر لاتا اُس سے وہ اپنا نشہ پورا کرتا اب تو اُس نے گھر کے برتن بیچنے بھی شروع کر دیے تھے۔گھر کے حالات جب حد سے زیادہ خراب ہوئے تو برکتے نے خود داری کی دیوار گرادی ۔مگر برکتے جس سے بھی مدد طلب کرتی تو اُس کو یہی جواب ملتا تو کون سی بیوہ ہے ہٹا کٹا تمہارا شوہر ہے جو ان بیٹا ہے وہ کما کر گھر نہیں لاتے ۔
سلطان کی زندگی اُس کے لیے موت بن گئی تھی عرفان بھی ہیروئن کا عادی ہو گیا تھا۔اب تو دونوں باپ بیٹا جو کماتے وہ دھوئیں میں اڑادیتے دونوں کو کھانے پینے کا ہوش نہیں تھا مگر برکتے اور اُس کی پانچ سال کی بیٹی کو تو بھوک لگتی تھی ۔جب دو دن فاقے کرتے گزر گئے تو برکتے اپنی پانچ سالہ بیٹی کو لے کر چےئرمین کے گھر پہنچ گئی۔
”آؤ بر کتے کیسے آنا ہوا تمہاری ہمسائی نذیراں تو ٹھیک ہے ؟“چےئرمین نے پوچھا۔

”نذیراں کے گھر تومن سلویٰ اتررہا ہے میرے گھر قحط پڑا ہوا ہے ‘میرا خیال آپ کو تب آئے گا جب میں حرام کھانے لگوں گی۔“
”برکتے تم کہنا کیا چاہتی ہو میں کچھ سمجھا نہیں۔“
”چےئرمین صاحب میں نذیراں سے زیادہ زکوٰة کی حقدار ہوں۔“
’زکوٰة تو بوڑھوں ‘یتیموں اور بیواؤں کے لیے ہے تم تو بیوہ نہیں ہو تم کو شرم نہیں آتی زکوٰة مانگتے ہوئے۔

”میں بیوہ سے بھی بدتر ہوں دیکھے اس بچی کی طرف دو دن ہو گئے اس کے پیٹ میں روٹی کا ٹکڑا نہیں کیا۔“
”تمہارا شوہر زندہ جوان بیٹا ہے میں تمہاری زکوٰة کیسے لگادوں میں نے بھی آگے کسی کو جواب دینا ہوتاہے۔“
”اگر میری بچی بھوک سے مرگئی تو آپ خدا کو کیا جواب دیں گے؟“
”روٹی کھانی ہے تو اندر چلی جاؤ زکوٰة تمہاری میں نہیں لگا سکتا۔
“چےئرمین کا جواب سن کر برکتے مایوس ہوگئی اور گاؤں کی مسجد کی جانب چل پڑی چےئرمین برکتے کو آوازیں دیتا رہا کہ تم بچی کے لیے روٹی لے جاؤ مگر برکتے تیز تیز دم اٹھاتے گاؤں کی مسجد کے دروازے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی اپنی بچی کا ہاتھ اُس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا جو بھوک سے ندھال ہو رہی تھی جو بھی نمازی مسجد سے باہر نکلتا وہ برکتے کی بچی کے چہرے پر پھونک مرتا اور آگے نکل جاتا۔

”اسے پھونکوں کی نہیں اسے روٹی کی ضرورت ہے ۔“برکتے زور زورسے چلانے لگی۔
کسی نے برکتے کی بات پر دھیان نہ دیا آہستہ آہستہ سارے نمازی مسجد سے نکل گئے اب مسجد کے صحن میں صرف مولوی صاحب جائے نماز پر بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے برکتے مولوی صاحب کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور اپنی بچی کو اُس نے گود میں بٹھالیا۔
”مولوی صاحب میرے لیے دعا کیجیے۔

”کیا دعا کروانا چاہتی ہو؟“
”مولوی صاحب خدا کے آگے گڑ گڑا کر دعا کیجیے وہ مجھے بیوہ کردے۔“
”استغفراللہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو شوہر تو مجازی خدا ہوتا ہے تم کیسی بدبخت عورت ہو۔“
”بد بخت تو میں ہوں اس میں کوئی شک نہیں۔“
”تم کیسی عورت ہو جو اپنے شوہر کی موت کی دعا مانگ رہی ہو تم نے خدا کا وہ فرمان نہیں سنا جس میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں بیویوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔

”مولوی صاحب پورے گاؤں میں میری کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں اب میں آپ کے پاس آئی ہوں آپ میرے لیے دعا کرنے کو بھی تیار نہیں۔“
مولوی صاحب نے ایک دفعہ پھر استغفراللہ کے الفاظ دہرائے اور پھر تسبیح کے دانے نیچے پھینکنے لگے برکتے نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور بولی۔
”یا اللہ مجھے بیوہ کردے ۔“برکتے کی بیٹی جو اُس کی گود میں بیٹھی تھی فوراًبولی۔
”آمین․․․․“برکتے اٹھی اپنی بچی کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے دروازے کی جانب چل پڑی جب برکتے نے مسجد کے دروازے سے باہر قدم رکھا تو برکتے کے کانوں سے مولوی صاحب کے یہ الفاظ ٹکرائے ۔
”قیامت کی نشانیاں ہیں ایسی عورتوں پر خدا کی لعنت․․․․․․“

Browse More Urdu Literature Articles