Pakistan Mein Aala Adbi Zouq Rakhnay Walon Ki Kami Nahi ! - Article No. 1954

Pakistan Mein Aala Adbi Zouq Rakhnay Walon Ki Kami Nahi !

پاکستان میں اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والوں کی کمی نہیں! - تحریر نمبر 1954

اہلِ قلم اور اہلِ کرم․․․․․․ شاعر وادیب ہی شعرو سخن سے نا بلد افراد کی صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں

پیر 11 مارچ 2019

اعتبار ساجد
جن دنوں ہم اسلام آباد میں تھے اور ایک معروف اخبار میں باقاعدہ کالم لکھتے تھے ان دنوں کی بات ہے کہ ہمارے ایک کالم میں چند مستند اور معروف شعرائے کرام کے نام بھی تھے ۔انہوں نے کالم خموشی پڑھا ۔اخبار لپیٹ کے سر ہانے رکھ لیا کہ مزید کیا پڑھیں۔البتہ جن کے نام نہیں تھے وہ بڑے سیخ پاہوئے کہ لو صاحب ! آپ نے ہمیں مستند اور معروف شعراء کی فہرست ہی سے نکال دیا۔

ہم تو مشاعرے پڑھ پڑھ کر نڈھال ہو گئے۔آ پ کو ہمارا نا م ہی یاد نہیں آیا۔
سچی بات یہ ہے کہ جب کہیں ناموں کا مسئلہ آتا ہے تو ہم مخمصے میں پڑ جاتے ہیں جینوئن لوگوں کا ذکر کرتے ہیں تو نان جینوئن دوست دانت کچکچاتے ہیں ،برابھلا کہتے ہیں ۔اِدھر اُدھر بیٹھ کر دل کا غبار نکالتے ہیں انہیں خوش کرنے کیلئے کسی حوالے سیانے کا ذکر کریں تو جینوئن لوگوں کی پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اتنی چھوٹی سی دنیا ہے کہ ریموٹ کا بٹن دباؤ توٹی وی آن ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات اپنے کمرے میں داخل ہو جاتے ہیں ۔
اس گلوبل سٹی میں بھی ہمارے لوگوں کے دل کشادہ نہیں ہوئے ۔خیالات تبدیل نہیں ہوئے حدیہ کہ شکوے شکایتوں کا روایتی اسٹائل تک تبدیل نہیں ہوا۔آسمان پر کمندیں ڈالنے والے بہت چھوٹی چھوٹی بے وقعت شکایتیں جیبوں میں لئے پھرتے ہیں ۔
یہ جیبیں ان کے دل ہیں جن میں کئی خانے ہیں ۔
ایک خانے میں رجسٹر شکایات رکھا ہوا ہے ۔موٹا تازہ ضخیم مجلد دوسرے خانوں میں ان کی مطبوعہ یا غیر مطبوعہ نگار شات ہیں جن کے بارے میں ان کی دونوک ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر یہ شیکسپےئر ،چاسر،کیٹس ،بائرن یاورڈورتھ کے زمانے میں لکھی جاتیں اور انگریزی میں لکھی جاتیں تو جتنی شہرت اُن حضرات کو خواہ مخواہ حاصل ہوئی اس سے دگنی شہرت انہیں گھر بیٹھے حاصل ہو جانی تھی ۔

اس میں سرار تصوران متعصب انگریزوں کا ہے جنہوں نے اُردو کے نام پر کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج تو بنوادیا مگر اسد اللہ خان غالب کو نوکری نہیں دی ۔بے شک بعد میں غالب نے اپنی ناقدری کا غصہ انا پرستی کے مظاہرے کی شکل میں نکالا لیکن ہمارے یہ غالب ہیں جو غالب سے موٹا دیوان لکھے بیٹھے ہیں اور انہیں انگریزوائسرائے یا ریذ یڈنٹ تو کجا ،ٹی وی سینٹرز سے بھی بلاوان میں آتا ۔

ظاہر ہے انہیں اپنے عہد سے ناقدری کی شکایت تو ہونی ہی ہے پچھلی حکومت نے اوپر تلے دواہل قلم کا نفرنسیں کرکے ملک بھر میں ادیبوں کو دو چار دن کے لئے یکجا کر دیا تھا جنہوں نے زندگی بھر اسلام آباد کا ایوان صدر نہیں دیکھا تھا وہ بھی دیکھ لیا اور جا کر اپنے عزیز واقارت اور محلے داروں کو بتایا کہ اس ناقدر شناس زمانے میں بھی ہمارے عزت اور توقیر قلم کے حوالے سے ہے ۔
یہ صرف صدر صاحب نے مد عو کیا بلکہ رات کا کھانا بھی کھلایا۔اس سے بڑھ کر ایک ادیب کے لئے ”اعزاز “کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کا صدران کی عزت افزائی کرے۔غالب نے تو طنز یہ کہا تھا۔
بنا ہے شہہ کا مصاحب ‘پھرے ہے اتراتا،وگرنہ شہرمیں غالب کی آبرو کیا ہے مگر آج کے غالب صاحبان اس طنز لطیف کو بھی اعزاز سمجھ بیٹھے ہیں ۔بلکہ یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ سرکاری انعامات اور اعزازات کے لئے بعض حضرات جان کی بازی لگا دیتے ہیں ۔
ہزاروں فون اسلام آباد کے مختلف موثر حلقوں کے احباب اور افسروں کو کرتے ہیں‘ درجنوں بار اسلام آباد کے چکر لگاتے ہیں ۔اپنے شہر کے ایم پی اے یا ایم این اے حضرات سے رابطہ کرتے ہیں اور یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اعزاز وپذیرائی حاصل ہو جائے ۔
مگر اللہ بڑا بے نیاز ہے ۔وہ نیاز مندوں سے زیادہ آرزو مندوں کا خیال رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض حضرات کی مرادیں بر آتی ہیں ۔
بعض کی مرادیں جب بر نہیں آتیں تو ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر لوگ شاعری پر ہی زور کیوں دیتے ہیں ۔نثر کیوں نہیں لکھتے ۔نثر بہت سے فنی عیوب برداشت کرلیتی ہے مگر شاعری میں اتنا صبروتحمل نہیں ہوتا۔وہ اپنے ترازو کے پلڑے سونا تولنے والے سناروں کے ترازوں کی طرح نہایت نازک رکھتی ہے ۔
رتی تو کیا ماشے کا فرق بھی ظاہر کر دیتی ہے ۔
اب ہم کوئی افلاطون تو ہیں نہیں کہ کسی کو سمجھانے لگیں کہ شاعری یوں کر وں ۔یوں نہ کرو۔البتہ ایک اولیٰ ادبی طالب علم کی حیثیت سے یہ ضرور عرض کر سکتے ہیں کہ بے شک جس کا جی چاہے شاعری کرے شوق سے کرے مگر مطالعہ بھی کرے۔ریاضت بھی کرے‘مشقت بھی کرے ،سب سے اہم چیز مطالعہ ہے ۔
مطالعے کے بغیر کوئی بھی چیز چاہے نثر میں ہو یا شعر میں بہتر طور پر لکھی ہی نہیں جا سکتی ۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ شاعر پہلے پی ایچ ڈی میں رہنمائی کی ضرورت بھی پڑتی ہے جو کسی پڑھے لکھے سینئر شاعر ادیب سے رہنمائی کے طور پر حاصل کی جا سکتی ہے ۔ہمارے ملک میں پڑھے لکھے سلجھے ہوئے اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والوں کی کمی نہیں یقینا ایسے لوگ موجود ہی جو شعر وسخن سے نابلدافراد کی صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں ،
ضرورت تلاش اور جستجو کی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles