Tumhara Ustad Gadha Ban Gaya,to Tum Kya Ho - Article No. 2046

Tumhara Ustad Gadha Ban Gaya,to Tum Kya Ho

تمہارا اْستاد گدھا بن گیا۔۔۔ تو تم کیا ہو - تحریر نمبر 2046

اس واقعے میں کئی پہلو ہیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، جس میں سے ایک یہ ہے کہ ہم لکھنے پڑھنے والے اور بالخصوص شاعر اکثراوقات اپنے کہے کو حرفِ آخر سمجھتے ہی نہیں بلکہ اس پر شدید اصرار بھی کرتے ہیں

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی ہفتہ 11 مئی 2019

ہم بہت کمزور پیدا کیے گئے ہیں مگر اس کمزوری میں بھی ہمیں جو کبھی تھوڑی سی قوت حاصل ہوجاتی ہے تو بس آسمان دیکھتا رہتا ہے کہ قطرہ نجس سے وجود پانے والا نجانے اپنے آپ کو کیا سمجھ رہا ہے جبکہ اسے لوٹنا پھر کمزوری کی اسی انتہا پر ہے مگر۔۔۔ ہم اور ہماری اکڑ ہے کہ وہ نہیں جاتی روز نجانے کتنے ابن ِ آدم زمین کا گڑھا بھر نے میں کام آجاتے ہیں اور یوں بھی ہے کہ اپنے قریبی اعزہ اور اپنے پیاروں کے وجود کو ہم اپنے ہاتھوں منوں مِٹّی میں دفن کر دیتے ہیں لیکن یہ بھولے رہتے ہیں کہ وہ دن بس آیا ہی چاہتا ہے کہ ہمیں بھی کچھ افراد اسی زمین کے گڑھے میں ڈال جائیں گے اور پھر ہمارا اکڑا ہوا جسم زمین کے کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن رہا ہوگا،ہماری اکڑاور ہمارا غرور نجانے کتنی صورتیں اختیار کرتا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

ہمیں اپنے ایمان،اپنی عبادات اور اپنی سخاوت وغیرہ کا بھی غرور ہوتا رہتا ہے جسے ہم۔۔۔’ فضلِ ربی‘۔۔۔جیسے کلمات کی چادر سے ڈھانپتے رہتے ہیں، یہ بھی ہماری کمزوری ہی کی علامت ہے کہ ذرا سا جوش آیا اور ہم برتن سے باہر نظر آتے ہیں،۔۔۔ عزیزو! کم ظرفی بھی اسی عمل کو کہتے ہیں۔ نیکی اور بدی میں بس وَیسا ہی فاصلہ ہوتا ہے جیسے غروب ِ آفتاب کے وقت اْجالے کی لکیر کس وقت اندھیرے میں گم ہوجاتی ہے ، ہم بھول جاتے ہیں۔
اسی طرح ہماری قوتِ ایمان کو کس وقت بدی کی کوئی لہر کھاجاتی ہے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور اگر معلوم ہوتا بھی ہے تو اْس وقت جب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں کہ اس وقت پچھتانا بے معنی عمل بن جاتا ہے۔ روایت ہے کہ دْنیا کی فتح کا خواب دیکھنے والا سکندر(اعظم) عورت کی پرچھائیں سے بھی دور رہنے کی کوشش کرتا تھا جبکہ محل میں ایک کنیز جو حسن و جمال میں یکتا تھی اور سکندر پر فریفتہ بھی مگر سکندر اْس کی طرف بھولے سے بھی نظر نہیں اْٹھاتا تھا۔
کنیزصرف حسین نہیں بلکہ عقل مند بھی تھی اسے یہ تجسس ہوا کہ ایسا کیا ہے کہ سکندر مردانا فطرت سے دور ہے۔ کسی طرح کنیز نے پتہ لگا یا تو اْس پر کھلا کہ سکندر کے اْستاد ارسطو نے اسے تلقین کر رکھی ہے کہ اگر تجھے دْنیا فتح کرنی ہے تو عورت سے اجتناب کرنا۔ اس کنیز نے جو ذہین ہی نہیں فطین بھی تھی اس نے باقاعدہ ایک منصوبہ بنایا اور سکندر کے اْستاد پر ڈورے ڈالے، اْستاد ارسطو ،کنیز کے جال میں آن پھنسے ،کنیز نے اْستاد سے وصال کا وقت اور مقام طے کیا اور اِدھر استاد کے شاگردِ رشید سکندر کو بھی عین وقت پر کسی طور اس منصوبے کی سْن گْن دیدی کہ دیکھو تمہارا اْستاد کس قدر نفس کا غلام ہے۔
منصوبے کے مطابق طے شدہ مقام اور وقت پر محل کے ایک سنسان اور بڑے کمرے میں کنیز اور اْستاد ارسطو کی ملاقات ہوتی ہے مگر کنیز نے اْستاد کی خواہشات پوری کرنے سے قبل ایک شرط رکھ دِی،جو اْستاد کے نزدیک بہت معمولی سی شرط تھی مگر۔۔۔!! وہ شرط یہ تھی کہ اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہوتو آپ (ارسطو)کو پہلے گدھا بننا پڑے گا اور مَیں اْس گدھے پر سوار ہوکر اس کمرے کے چار چکر لگاؤں گی اس کے بعد اْستاد کی ہر خواہش بہر حال تکمیل کو پہنچے گی۔
ارسطو جیسا ذہین ترین شخص کنیز کی ذہانت و فطانت بھرے منصوبے کو سمجھنے سے عاری رہا اور ارسطو نے ہامی بھری ہی نہیں بلکہ وہ گدھا بن گیا اور کنیز اْس کی پشت پر بیٹھ کر کمرے کا تیسرا چکّر پورا کرنے جارہی تھی اور اس کی نظر دروازے پر سکندر کی آمد کی منتظر تھی کہ سکندر نمودار ہوتا ہے اور اْستا د کو گدھے کی طرح اور کنیز کو اس کی پشت پر حیران نظروں سے دیکھتا ہے اور پھر اْستاد ارسطو اپنی پوشاک سے دھول مِٹّی جھاڑتا ہوا سکندر کے سامنے کھڑے ہو کر سکندر سے مخاطب ہوتا ہے کہ” دیکھوتمہارااْستاد کہ جس کی عقل و دانش کی ایک دْنیا قائل ہے ، عورت کے سامنے تمہارا یہی اْستاد کیسے گدھا بن گیا۔
۔۔ تو تم کیا ہو۔۔۔!!“۔۔۔۔ یہ کہہ کر ارسطو کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس روداد یا افسانے میں جو بات ہمارے لئے ہے وہ یہی کہ انسان کچھ بن جائے مگر اس کی کمزوری اس کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں لگی رہتی ہے اور غور طلب بات یہ ہے کہ حضر تِ والا اپنی تمام تر دور بینی اور دانش مندی کے باوجود اپنی۔۔ کمزوری۔۔ سے نابلد ثابت ہوتے ہیں۔ واضح ہوا کہ حضرتِ ابن ِآدم فطرتاً کمزور پیدا کیے گئے ہیں مگر اس کمزوری کے باوجود ایک دْنیا کو انہوں نے فتح کر رکھا ہے مگر۔
۔کمزوری۔۔ بہرحال باقی ہے اور یہ کیسی کیسی شکل اختیار کرتی رہتی ہے کہ اکثر اوقات حضرتِ والا کے گمان میں بھی نہیں آتی، مثال ارسطو کی سامنے ہے۔ اس کمزوری کی عجب عجب شکلیں سامنے آتی ہیں اوراس کی اساس میں ہماری اکڑہی ملتی ہے(جسے آپ چاہیں تو نفس کا نام بھی دے سکتے ہیں) ایک دلچسپ واقعہ پڑھیے کہ کسی پرائیویٹ مشاعرے میں مشہور شاعر احسان دانش اپنی غزل سنا رہے ہیں اور حاضرین میں مشہور اْستاد اور شاعرو ادیب ڈاکٹر ابوالخیر کشفی بھی موجود ہیں، احسان دانش نے غزل کا جب یہ شعر پڑھا : ’ہوائیں ماری ماری پھررہی ہیں کسی کے نقشِ پا کو ڈھونڈنے میں ‘ تو ڈاکٹر ابو الخیر کشفی نے بیساختہ داد دِی کہ ” احسان صاحب ! نعت کا کیسا عمدہ شعر کہا ہے۔
“ جواباً احسان دانش نے کہا: نہیں جناب ، یہ شعر غزل کا ہے۔ ابو الخیر کشفی نے اپنی داد کی تکرار کی کہ” نعت کاکیسا عمدہ شعر۔۔۔“ جوابا ً احسان دانش نے پھر وہی کہا۔۔۔ محفل ختم ہوگئی سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔۔۔ کئی دِن بعد ایک شام کشفی کے گھر فون کی گھنٹی بجتی ہے ،کشفی نے ریسیور اْٹھا یا، اْس طرف احسان دانش کہہ رہے تھے کہ بھائی کشفی! وہ شعر تو واقعی نعت کا ہے۔
کشفی، تبسم کے ساتھ درود شریف پڑھتے ہوئے یہی کہتے رہے کہ۔۔۔ واہ واہ ،نعت کاکیسا عمدہ شعر ہے۔۔۔ اس واقعے میں کئی پہلو ہیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، جس میں سے ایک یہ ہے کہ ہم لکھنے پڑھنے والے اور بالخصوص شاعر اکثراوقات اپنے کہے کو حرفِ آخر سمجھتے ہی نہیں بلکہ اس پر شدید اصرار بھی کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا واقعے میں بھی کسی حد تک اسی امر کا مظاہرہ ہمارے سامنے ہے اس میں کیسی عجیب بات ہے کہ جس نے شعر کہا ،اس کو اْس وقت احساس تک نہیں ہوا کہ وہ نعت کا شعر کہہ رہا ہے اور ایک دوسرا شخص جو ایک ہی سماعت میں شعر کی اصل تک پہنچ جاتا ہے۔
یہ دونوں عمل ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں اور ہم جیسے تو بس یہی کہتے ہیں کہ یہ سب انسانی کمزوری اور توفیقِ الٰہی کے مظاہر ہیں کہ ایک شاعر اپنے ہی شعر کو نہیں سمجھ سکا اور دوسرا ایک ہی سماعت میں شعر کی تہہ تک پہنچ گیا۔اسی طرح ہمارے بزرگ اور اْستاذ الشعراکوثر جائسی کا واقعہ ہے کہ اس میں بھی انسانی کمزوری اور توفیقِ خدا وندی کس طرح جلوہ بن گئی ہے۔
واقعہ : ” مولانا انور شاکری دادا میاں کی مسجد ( واقع بیکن گنج۔کانپور) میں امامت کے منصب پر فائز اور قلی بازار(کانپور) کے ایک مدرسے میں معلم تھے، یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ وہ ، کوثر جائسی کے حلقہ تلامذہ میں ایک امتیازی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ ہوا یوں کہ کوثر جائسی نے کسی مشاعرے میں نعت پڑھی جس کاایک شعر: جو مصطفےٰ کو لباسِ بشر میں دیکھتے ہیں وہ کم نظر ہیں کسی دیدہ وَر کی بات کرو اْس مشاعرے میں مولانا انور شاکری نے بھی یہ شعر سنا تو دوسرے دِن موصوف ،کوثرجائسی کے گھر گئے اور اْن سے مذکورہ شعر کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے قرآنِ کریم کی وہ آیت پڑھی جس میں رسول کریم کی بشریت پر کلام کیا گیا ہے۔
جنابِ کو ثر جائسی نے مسکرا کر کہا: خوشی ہوئی ،آپ کی اس توجہ پر،اللہ آپ کو جزا دے۔(آمین) میں پہلا مصرع بدل دوں گا اتنے میں اندر سے چائے آئی اور دونوں چائے پینے لگے اور کوثرجائسی نے اسی دوران چند لمحوں میں اپنا مصرع بدل لیا اور مولانا انور شاکری کو نئے مصرع کے ساتھ شعر یوں سنایا: ”جو مصطفےٰ کو حدودِ بشر میں دیکھتے ہیں وہ کم نظر ہیں کسی دیدہ وَر کی بات کرو“ ان واقعات سے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم محض کاغذ کے ایک ٹکڑے کی طرح ہیں کہ چلتی ہوئی ہَوا کس پل ہمیں اْڑا لے جائے۔
ماہ صیام کے یہ مبارک شب و روز ہمارے لئے ایسا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں کہ جس میں ہم اپنی کمزوری کیادراک کے ساتھ مالک ِ ازل و ابد سے یہ بھی مانگتے رہیں کہ اس کی توفیق ہمارے ساتھ رہے ورنہ تو بڑے بڑے عقل مند قسم کے لوگ جب وقت پڑا تو اپنی عقل کو عملاً ثابت نہیں کر سکے اور اگر ثابت ہوئے بھی تو عقل مند نہیں۔۔۔ عقل ناک۔۔۔!! سچ ہے کہ اللہ کی توفیق جس کے شاملِ حال رہی وہی نجات پا گیا، ہمیں بہر حال نیک توفیق ہی کی دْعا مانگتے رہنا چاہیے ورنہ تو ہمارے۔۔عقل ناک۔۔ ہونے میں کیا دو رائے ہو سکتی ہے۔ !!

Browse More Urdu Literature Articles