Urdu Ghazal Ka Aik Mooatbar Naam Johar Nizami - Article No. 1901

Urdu Ghazal Ka Aik Mooatbar Naam Johar Nizami

اردو غزل کا ایک معتبرنام․․․جوہر نظامی - تحریر نمبر 1901

ہفتہ 9 فروری 2019

مجھے حضرت جو ہر نظامی سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔اس محرومی کاشدت سے احساس ان کے دو صاحبزدگان پروفیسر فرخ راجا اور راجا حسن عباس سے ملاقات کے بعد ہوا۔پھر میرے دوست رانا غضنفر عباس نے اپنے زمانہ طالبعلمی کے دوران جو ہر آباد میں حضرت جو ہر نظامی کی نشستوں اور ادبی صحبتوں کی یادوں کا احوال جس پیرئے میں بیان کیا۔
اس نے میرے احساس محرومی کو اور فزوں کیا۔

جو ہر نظامی کے صاحبزادے راجا حسن عباس جو عمدہ ادبی ذوق رکھتے ہیں جب ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر بن کر آئے تو ان سے جو احترام ‘پیار اور شفقت کا تعلق قائم ہوا وہ ہنوز بر قرار ہے ۔بعد میں راجاحسن عباس کی وساطت سے ان کے بڑے بھائی پروفیسر فرخ راجا سے تعارف ہوا جو گہری دوستی میں بدل گیا۔ان دونوں بھائیوں کے درد بشانہ مزاج ‘اخلاص اور والہانہ پن میں مجھے جناب جو ہر نظامی کی تربیت کا اثر واضح طور پر محسوس ہوا۔

(جاری ہے)


ایسے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں جو نامساعد حالات ‘محدود وسائل اور مرکز سے دوری کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار کر سکے ہوں اور زمانے سے اپنا وجود تسلیم کروانے میں کامیاب ہوئے ہوں ۔
آج سے نصف صدی قبل تھل کے ریگزاروں میں ایک ایسی شخصیت اپنے دور کے نامور ادیبوں اور شاعروں کو توجہ کا مرکز بن گئی ۔
جو ہرنظامی جن کی زندگی کا ایک یاد گار حصہ سر گودھا میں بسر ہوا کے اعتراف فن کے طور پر وہاں کے اہل قلم نے شہر کی ادبی تاریخ کے اس دور کو جوہر نظامی کے دور سے منسوب کیا۔
قیام سرگودھا کے دوران ”کامران “کا جو ہر نظامی نمبر اور ”شعلہ “سر گودھا کا جو ہر نظامی نمبران اہل قلم کی تحریروں کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہے جنہوں نے جو ہر صاحب کے فن اور شخصیت کے مختلف زاویوں پر اظہار خیال کیا۔ان اہل قلم میں ڈاکٹر سہیل بخاری ‘ڈاکٹر انور سدید‘غلام جیلانی اصغر‘عبدالحمید عدم‘شکیب جلالی‘احمد ہمیش ‘فریاد زیدی ‘نصرت چودھری اور حسن اختر جلیل شامل تھے ۔

بعد ازاں جب ان کے مجموعہ ہائے کلام ”لوح محفوظ“”وہم رسا“اور”برج نور“شائع ہوئے تو بہت سے اہل قلم نے اپنی آراء کو مختلف ادبی رسائل اور اخبارات کی نذر کیا جن میں احمد ندیم قاسمی‘ ڈاکٹروزیر آغا‘ڈاکٹر بلال نقوی ‘ڈاکٹر نثار ترابی‘ڈاکٹر رشید احمد کو ریجہ‘ ضمیر جعفری ‘عارف عبدالمتین ‘علامہ محمد انور گوئندی‘ اظہر جاوید‘ صفدر سلیم سیال اور ضمیر اختر نقوی شامل ہیں ۔
وہ لوگ جو جوہر صاحب کو قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ شہرت اور ناموری سے بے نیازی کاوصف رکھنے کے باوجود دلوں میں جگہ بنا لینا اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب فن کا جادو سر چڑ ھ کر بولے ۔جو ہر صاحب بھی اپنے اور ہنر کے حوالے سے معروف ہوئے۔
جو ہر نظامی 1909ء میں پیدا ہوئے۔ان کے والد غلام حسن ڈسٹرکٹ بورڈ میں ملازم تھے ۔جوہر صاحب نے ابھی میٹرک بھی کیا تھا کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔
یہ خانو ادہ اس راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جو وادی سون سیکسر میں کھوتکہ (احمد آباد)میں قلعہ کر اند کے علاقے میں حکمران تھا اور سکھوں کے عہد حکومت میں لڑائی کے بعد پنجاب کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوا۔نوید اعوان نے ایم اے اردو کے تحقیقی مقالے میں جسے پنجاب یونیورسٹی نے منظور کیا ہے ۔
تفصیل سے بیان کیا ہے ۔والد کی وفات کے بعد جو ہر صاحب ملازم ہو گئے اور ساتھ ہی سرگودھا کی ادبی سر گرمیوں کا مرکز ومحوربن گئے ۔
بقول انور گوئندی ”جوہر صاحب نے سر گودھا کی سر زمین پر پہلا شعر گنگنایا “علامہ اقبال رحمتہ اللہ کی زندگی میں سر گودھا میں یوم اقبال منانا تحریک پاکستان میں ان کی سر گرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ان کی سرگودھا میں طویل خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں سرگودھا کمشنر ادبی ایوارڈ بھی دیا گیا۔
جو ہر آباد میں ان کی آمد تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹی ڈی اے)میں ان کی ملازمت سے ہوئی جہاں انہوں نے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بے لوث خدمت کی۔
اسی لئے جب انہوں نے ترویج ادب کے لئے مشاعروں ‘یوم اقبال اور تنقیدی محفلوں کی بنیاد رکھی تو لوگوں نے ان کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔وہ باغ وبہار طبیعت کے مالک تھے جو شخص انہیں ایک بار مل لینا دوبارہ ملنے کے بہانے ڈھونتا رہتا۔احمد ندیم قاسمی ‘ڈاکٹر وزیر آغا‘عبدالحمید عدم‘شکیب جلالی اور احمد ہمیش نے اپنے مضامین میں ان کی جو تصویر کشی کی ہے وہ انہیں ایک بلند پایہ شخصیت ثابت کرتی ہے ۔

جسٹس ایس اے رحمان نے لکھا ہے ”جو ہر کی محبت ہوس آلود نہیں ۔انہیں محبت سے محبت ہے اور اس نشے کی سر شاری انہیں کسی صلہ یا ستائش کی تمنا سے بے نیاز کر دیتی ہے یہ سر شاری خودداری ہی کا روپ ہے اور انہیں نغمسگی کی وہ روح بخشتی ہے جو ان کے کلام کا انتصاص بن گئی ہے ۔غنایت ور نغمسگی شاعری کا خوبصورت وصف ہے جس کا عکس ہمیں کئی جگہوں پر ملتا ہے ۔
مثلاً ان کے یہ اشعار دیکھیں ۔
میں حسن کی تسخیر سے محروم رہا ہوں
دراصل یہی عجز محبت کی سزا ہے
اندے چلے آتے ہیں مری آنکھ میں آنسو
یا دل کے سمندر میں تلاطم سا بپا ہے
حضرت جو ہر نظامی کی شاعری میں بہت سی فنی خصوصیات جلوہ کر ہیں ۔ان کے ہاں جہاں طویل بحریں دلکش خیالات کے ساتھ دامن دل کو کھینچتی ہیں وہاں سہل قمتنع کی عمدہ مثالیں بھی دلفریب کیفیات سے مملو فضا تخلیق کرتی ہیں اس حوالے سے چند مثالیں نذر قارئین ہیں ۔

میں ایک خشک شجر ہوں یا رو میں برگ آوارہ ہوں میری فصل بہار یہی ہے ہرلمحہ تاراج ہوں میں اس کو جبر مثیت کہیے یا تو ہین خود داری کل تک جو محتاج تھے میرے آج ان کا محتاج ہوں میں
آج بھی ان سے میں گریزاں ہوں
اپنے جو کم ہیں او ر پرائے بہت
جن کی آنکھوں میں‘ میں سما نہ سکا
میر ی آنکھوں میں و ہ سمائے بہت
تو کہاں ہے مجھے بتا تو سہی
میں نے پہچان لی تری آواز
شکیب جلالی ‘ڈاکٹر صفدر حسین اور قیصر بارھوی کے ساتھ جو ہر صاحب کے گھریلو مراسم تھے ۔
احمد ندیم قاسمی ‘ڈاکٹر وزیر آغا‘ڈاکٹر انور سیدید ‘غلام جیلانی اصغر ‘اختر امام رضوی ‘اور عبدالحمید عدم ان کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے جبکہ العزیز فطرت ‘شہزاد احمد ‘احمد ہمیش ‘ڈاکٹر سہیل بخاری ‘انور گوئندی اور اظہر جاوید بھی ان کے حلقہ احباب میں شامل تھے ۔اسلم انصاری ‘سلیم کوثر اور نصیر زار اکثران کے ہاں آتے جاتے رہتے ۔

ایک روز معروف شاعر نصیر زار جو ہر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گہنے لگے“ میرادل چاہ رہاتھا کہ میں آج بابا جی کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے لئے حاضری دوں اور انہیں یہ شعر سنانے کے بعد واپس گھر پہنچے ہی تھے کہ ان کی روح تفس عنصری سے پر واز کر چکی تھی ۔شعر یہ تھا
مجھے قیامت سے خو ف یہ ہے کہ یہ جو لوگ اس جہاں میں ہیں یہی مجھے دیکھنے پڑیں گے وہاں یہ کیا سب کے سب دوبارہ درویشی اور فقیرانہ رکھ رکھا ؤ نا عمر حضرت جوہر نظامی کی شخصیات کا حوالہ اور پہچان رہی ۔
انہوں نے نہایت ہی سادگی سے اپنی زندگی بسر کی اور اپنی اولاد کو بھی اسی نہج پر زلسٹ کرنے کی تلقین کرتے رہے ۔
جو ہر صاحب کی شاعری پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ شعر ی تخلیق کا عمل ان کے نزدیک نہایت اہمیت کا حامل تھا اور اس عمل سے وہ بڑے ہی بھر پور اندا ز میں وابستہ رہے اور ہمیشہ شعر ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔جو ہر آباد میں ان کے تکیے پر سینئر اور جونےئر لکھنے والوں کا تانتابندھارہتا۔
پرانی اور نئی نسل کے یہ لکھنے والے حضرت جوہر نظامی کے خیالات عالیہ اور ان کی ادبی وعلمی موضوعات پر گفتگو کے ذریعے بہت کچھ سیکھنے اور ان کی شفقت ومحبت سے ہمیشہ فیضاب ہوتے ۔حضرت جوہر نظامی کے خیالات نہایت منزہ اور ارفع ہیں ۔
ایسے خیالات جب شعر میں ڈھلتے ہیں تو پڑھنے والے کے دل کے تاروں کو اس طور چھیڑتے ہیں کہ وہ ان سے پیدا ہونے والی کیفیت سے نکل ہی نہیں پاتا۔جو ہر صاحب کی طبیعت کی سادگی ‘دنیاوی منفعت اور دیگر معاملات کی سرحدیں عبور کر لینے کی خواہش سے بے نیازی ‘تصنع ‘بناوٹ اور سطحی جذبات سے دوری دبے زاری نے ان کی شخصیت میں بہت سے دیدہ زیب رنگ بھردےئے ہیں ۔ان کی شاعری انہی رنگوں سے ترتیب پانے والی قوس وقزح ہے جس سے صرف نظر کرنا ممکن ہی نہیں ۔

Browse More Urdu Literature Articles