Urdu Kahani - Article No. 992

Urdu Kahani

اُردو کہانی۔۔۔! - تحریر نمبر 992

دیکھیئے سچی بات یہ ہے کہ محاورے کا محور اور شاعر کا نام سمجھنے میں عقل تھوڑی موٹی ہے۔اب کم علمی میں اعلیٰ ترین ڈگری رکھنے پر کون کون سے "آسکر "ہم کو بذریعہ ڈاک بمع لعن طعن کے مُوصول ہوئے ہیں ہم خود بھی اس سے نا آشنا ہی ہیں۔۔۔ ویسے بھی آگہی عذاب ہے۔۔۔نہ بس اتنی سی بات ہے سمجھ آگئی تو ٹھیک نہیں تو کونسا آپ پر فردِ جرم عائد کر دی جانی ہے۔

بدھ 20 جنوری 2016

دیکھیئے سچی بات یہ ہے کہ محاورے کا محور اور شاعر کا نام سمجھنے میں عقل تھوڑی موٹی ہے۔اب کم علمی میں اعلیٰ ترین ڈگری رکھنے پر کون کون سے "آسکر "ہم کو بذریعہ ڈاک بمع لعن طعن کے مُوصول ہوئے ہیں ہم خود بھی اس سے نا آشنا ہی ہیں۔۔۔ویسے بھی آگہی عذاب ہے۔۔۔نہ بس اتنی سی بات ہے سمجھ آگئی تو ٹھیک نہیں تو کونسا آپ پر فردِ جرم عائد کر دی جانی ہے ۔

یوں تو اردو اچھی خاصی مہذب زبان ہے مگر ہمارے ہتھے جو چڑھی ہے توآٹھوں پہر آنسو بہاتی ہے اور وہ بھی مگر مچھ کے آنسو۔جب دیکھو مُنہ بسورے وہ۔۔۔دور نکڑ میں محوِ استراحت ہے ۔ہوا یوں کہ امّاں بہشتن کی کرم فرمائی سے ہم اُردو کو دور سے دیکھا اور قریب سے سُنا کرتے تھے۔اب دیکھنا دور سے اس لئے کہ امّاں کے ہاتھ میں اخبار دیکھ کر دور سے ہی دوڑ لگانا ہمارا محبوب ترین مشغلہ تھااور قریب سے سُننا اس لئے کہ حبسِ بے جا میں ہم کو یہ اخبار سُن بھی لینا پڑتا تھا۔

(جاری ہے)

اب ہم نے کِن اکھیوں سے اردو کو لاکھ بار سمجھایا ہے "ابے غالب کی چہیتی اورداغ کی رشتے کی دور کی فرسٹ کزن فی زمانہ تمہارے نخرے اُٹھانے سے کم از کم ہم تو عاجز ہیں کوئی سمجھتا ہی نہیں ۔۔۔محترمہ تم تو سمجھومگر نہ جی وہی مرغ کی ایک ٹانگ ۔۔۔لو بھلا مُرغی کی مژالیں اور مصالے ہمارے کرنے کے ہی کام رہ گئے ہیں لا حول ولا قوة،سمجھتی ہی نہیں حد ہے ،یعنی کہ حد ہی ہو گئی۔

تشدد بھرے بچپن کی یہ ظالم اردو ایسے ہمارے اُتر گئی کہ بس دل خوں کے آنسو روتااور طبیعت صبر کے گھونٹ پیتی رہی ۔ایک شام بری ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔فارغ البالی کے اس عالم میں ہم نے محترمہ اردو کو جو ٹھمکے لگاتے دیکھا تو پیمانہ ء صبر کو لبریز پایااور یوں ہم نے اُردو کو جا لیا۔ پوچھاتمہارا ایشو کیا ہے آخر ۔۔۔سر چڑھی جاتی ہو۔۔۔ہو گی مہارانی اہلِ زبان کی بھلا ہم کو کیوں شرمندہ کروانے پر تُلی بیٹھی ہو ۔
۔۔ دیکھو بھلا کیا سے کیا بنا دیتی ہو
ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا
ہم دُعا لکھتے رہے وہ دغا پرھتے رہے
تپے ہوئے تو ہم بہت تھے۔پتہ نہیں مہذب ہونے کا آخر اُردو سے تعلق کیا ہے ۔وہ یار ہے جو اُردو کی طرح جس کی زباں خوشبو کی طرح کا آخر مطلب ہے کیا؟؟؟مہذب ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں "رجّ "کے اُردو آتی ہو ۔پیٹ میں چوہے ناچنے سے کھسیانی بلّی کے کھمبا نوچنے تک بھلا کیا مہذب ہے اور تو اور مینڈک کے زکام کو بھی بے مہار محاورے کادرجہ دیا ہوا ہے ۔
ہاےء ری اُردو تیری کون سی کل سیدھی۔لو دسو۔۔۔!بھلا بندہ پوچھے نا کل کس کی سیدھی ہوئی ہے بھلاے اُونٹ ہو یا بندہ بشر ۔۔۔! اس پر اُردو تِنک کر بولی "میری گل سُن(ہمارا اور اُردو کا مذاق پنجابی میں چلتا ہے )لاکھ نتنون کے باوجود اگر اجتک مہارانی نہیں سیکھ پائیں تو میرے گریبان کی بجائے جاؤ اپنا راستہ پکڑو۔ایک صدی کی ہو کر بھی شاعروں میں صرف فراز کا نام یاد ہو سکااور شعر ایک بھی یاد نہیں ہو سکا۔
میرا کیا قصور ؟؟؟اپنی نا معقلیت اور گل افشانی رکھو اپنے پاس"(بے چاری کا دل نہ دُکھے تو ہم نے چپ چاپ سُن لیا)اس ساری عمر کے جھگڑے میں ایک واقعہ ایسا گزراکہ آخر کار ہم کو اُردو پر ترس آہی گیا اور برسوں پُرانی رقابت دوستی میں ڈھل گئی۔
ایک نشست میں اہلِ علم نے پوچھا کہ بتائیے تو بھلا یہ اشعار کس کے ہیں
اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے
کانٹوں سے لپٹ کر جینا پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے
ہر حال میں ایک شوریدگی ء فسونِ تمنا باقی ہے
خوابوں کے بھنور میں بہہ کہ بھی خوابوں کے گھاٹ اُترنا ہے
اب ہم دل ہی دل میں شوریدگیء فسوں پر قل ھو واللہ پڑھتے ہوئے ،زیرِ لب اُردو کو کوستے ہوئے کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے میں مشغول ہوئے کہ کوئی اور "اردو دان " اس راز پر سے پردہ ہٹا دے تو بہتر ہے ورنہ فراز کے متھے ہر شعر منڈھ دینا اچھی خاصی غیر اخلاقی حرکت ہے اور اُس وقت تو یہ حرکت حواس باختہ بھی ہو جاتی۔
ویسے حرکت میں برکت کا تصور اس وقت انتہائی Epic لگا۔تو دوستو!ان اشعار کا قرعہ ء فال مجید امجد (مرحوم) کے نام نکلا۔وائے ری قسمت ان کو تو ہلکا پھلکا پڑھ ہی رکھا تھابھلا نام لے ہی دیتے مگر خیر ۔۔۔پھر"ہماری ازلوں بھیڑی قسمت "ننھا مُنا مشاعرہ ہی شروع ہو گیا۔اب کان پڑا شعر تو سُنائی دے مگر شاعر کا نام سُجھائی نا دے ۔بھلا ہو اہلِ ذوق کا ہم کو یکسر نظر انداز کئے ہوئے وہ سب مصروف تھے۔
ایک آواز آئی :۔
میری روح کی حقیقت میرے آنسوء وں سے پوچھو
میرا مجلسی تبّسم میرا ترجماں نہیں ہے
کسی آنکھ کو پکارو کسی زُلف کو صدا دو
کڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اس سے پہلے کہ ہم سوچتے کہ یہ شعر فراز کا ہے یا نہیں سکر ہے کسی نے مصطفی زیدی کا نام لے دیا۔
اب اُردو نے ایسے غمگین نگاہوں سے ہیمیں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ اتنے برسوں کی (پر تشدد)رفاقت کا یہ صلہ دیا تم نے آج!کیا تھا جو اپنی نا معقول زبان سے ایک آدھ شعر کہہ ہی دیا جاتا۔اب جذبہ ء ہمدردی تھا یا ہمیں اندر کہیں واقعی اُردو سے پیار ہو گیا تھاکچھ سمجھ نہیں لگی مگر
کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں میرے وہم و گمان اور طرح کے
مرتا نہیں کوئی اب کسی کے لئے ناصر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
اشعار حوالہ ء محفل کر کے ہم خراماں خراماں چل دیئے ۔
یہ" عمر رسیدہ "شعر تمہاری طرف سے ہے اردو کی پسلی میں کہنی مارتے ہوئے ہم نے کہا اور سوچتے رہے کہ بھلا فراز نے ناصر کا نام لے کر یہ اشعار کیوں کہے۔۔۔!پھر دھیان آیاکہ محاورے کا محور اور شاعر کا نام سمجھنے میں عقل تھوڑی موٹی ہے۔اب کم علمی میں اعلیٰ ترین ڈگری رکھنے پر کون کون سے "آسکر "ہم کو بذریعہ ڈاک بمع لعن طعن کے مُوصول ہوئے ہیں ہم خود بھی اس سے نا آشنا ہی ہیں۔۔۔ویسے بھی آگہی عذاب ہے۔۔۔نہ بس اتنی سی بات ہے سمجھ آگئی تو ٹھیک نہیں تو کونسا آپ پر فردِ جرم عائد کر دی جانی ہے ۔
پاکستان کا خیال رکھئے ! یہ آپکا ہے ۔اللہ سبحان و تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے !آمین

Browse More Urdu Literature Articles