اسلام آباد مندر اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ردّعمل

Islamabad Mandir Or Islami Jamhoriya Pakistan Ka Rad E Amal

ہفتہ 11 جولائی 2020

Islamabad Mandir Or Islami Jamhoriya Pakistan Ka Rad E Amal
الحمدالله ہم ایسے دینِ کامل کے پیروکار ہیں جس دین کو الله رب العزت نے سب سے پسندیدہ دین قرار دیا ہے۔ اس میں ہر ذی روح کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ساتھ ساتھ پھر الله کریم کے سب سے پسندیدہ دین کی پیروکاری  واقعی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ ہر دور میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اپنی دلائل اور منتق پر کھڑے ہوتے ہیں ہم سب کو دوسروں کے مؤقف کا احترام کرنا چاہئیے۔

لیکن حال ہی میں پاکستان کی بڑی اقلیت “ہندوؤں” کے مندر بننے پر جس احتجاج کا سامنا انتظامیہ کو کرنا پڑا ہے میں ذاتی طور پر اسکو بُرا سمجھتا ہوں کیونکہ مسلمان کا نہ تو دل اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اقلیتوں کے عقائد پر اس طرح اثر انداز ہوں اور نہ عقیدہ اتنا کمزور کہ ایک مندر بننے پر واویلا اٹھا دیا جائے۔

(جاری ہے)

میں اس بات پر بھی حیران ہوں کہ اگر لندن میں چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا جائے، یورپ میں مساجد کی تعداد کو بڑھا دیا جائے، کینڈا کے مئیر مساجد کے افتتاح کو آئیں تو ہم وہی مسلمان ہیں جو “اسلام زندہ باد” کے نعرے لگاتے ہیں۔

مگر پاکستان میں ایک مندر بننے پر اتنا شدید احتجاج کر رہے ہیں حالانکہ یہ اقدام پوری دنیا کیلئے ایک پیغام ہے کہ جب بھارت کے اندر مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے اس وقت میں پاکستان اپنی اقلیتوں کا دفاع کر رہا ہے اور انکو مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ تمام سہولیات بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ ایک سفارتی کامیابی ہوگی۔ ہماری گفتگو کا آغاز ہی اس طرح ہوتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تمام حقوق مل رہیں ہیں۔

مگر درحقیقت آج بھی کئی علاقوں میں  انکے ساتھ جو سلوک رواں رکھا جاتا ہے وہ قابلِ افسوس ہے۔ یہ بات بھی یہاں قابلِ ذکر ہے کہ کئی علاقوں اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک مثالی ہے۔
 پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا تو اس وقت ملکِ خداداد میں اقلیتوں کی آبادی کا تناسب 15% تھا مگر آج یہ شرح حیرت انگیز طور پر بڑھنے کی بجائے کم ہو کر3% فیصد سے کم رہ گئی ہے جن میں سے ہندوؤں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 80-90 لاکھ ہے جن کی اکثریت سندھ کے مختلف اضلاع (عمر کوٹ، تھرپارکر اور میر پور خاص) میں رہائش پزیر ہیں۔

آزادی کے وقت پاکستان میں 428مندر آباد تھے اور اس وقت شائد ہی 20سے زائد مندر آباد ہوں جن میں سندھ کے 11، پنجاب کے چار، خیبر پختونخوا کے دو اور بلوچستان کے تینمندر شامل ہیں۔ باقی بچنے والے تمام مندروں کی عمارتیں یا تو بدحالی کا شکار ہیں یا پھر کسی اور مقاصد کیلئے استعمال ہورہی ہیں۔ سب سے بڑی مشکل شمشان گھاٹ اور مذہبی تہوار منانے یا دوسرے مذہبی معاملات کیلئے کمیونٹی سنٹرز کی عدم موجودگی ہے۔


مندر کی تعمیر روکنے کیلئے سب سے بڑی دلیل بھی یہی دی جا رہی ہے کہ نیا مندر تعمیر کرنے کی بجائے پرانے مندروں کو ٹھیک کر کہ انکو آباد کیا جائے تو یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ 73سالوں میں پہلے کتنے مندروں کی دیکھ بھال کیلئے انتظامات کئے گئے ہیں جو آج ایک دم سے سارے انتظامات کردیے جائیں گے۔بلا شبہ اسلام آباد میں پہلے سے موجود “سید پورہ مندر”  بھی ہے جو کہ پہلے ہی بند ہے اور اسکے علاوہ راولپنڈی میں بھی 13 غیر فعال مندر موجود ہیں۔

جن کی حالت بہت خراب ہے اگر ان میں تمام تر سہولیات پہلے ہی فراہم کر دی جاتیں تو آج نئے مندر کی ضرورت بھی پیش نہ آتی ۔
میرا ماننا ہے کہ ملکی سطح پر کئے جانے والے فیصلوں کو سمجھنے کیلئے ذہنی سطح کو بھی بڑا اور دائرہ کار بڑھانے کی کرنا ضرورے ہے تا کہ اس فیصلے کا ہر رخ دیکھا جا سکے۔ اور اسکے ثمرات کا جائزہ لیا جاسکے۔جہاں تک بات ہے فنڈز مہیا کرنے کی تو جس طرح عوام الناس نے کرتارپور راہداری کے فنڈز میں کشادہ دلی کا اظہار کیا تھا ٹھیک اسی طرح اب بھی کر لیں۔

کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح کے مطابق حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ آپکا مذہب کیا ہے پاکستان کے تمام شہری اسکے باشندے ہیں۔ اقلیتی بھی اس ملک کے ٹیکس پیئرز ہیں انکے دیے ہوئے ٹیکس سے مسلمانوں کے بہت سے فلاحی کام ہوتی ہیں تو اگر ہمارے مشترکہ ٹیکس کے پیسوں سے اگر ایک مندر (جسکے اندر شمشان گھاٹ، کمیونٹی ہال، مہمان خانے اور پارکنگ وغیرہ) ہو تو اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم پاکستانی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے خلاف ہیں اور اسکو گرانے کے حق میں ہیں تو پھر ہندوستان کی دارالحکومت دہلی میں نہ تو مساجد کی تعمیر کروانے کے روادار رہتے ہیں نہ ہی (خداناخواسطہ) اسکی شہادت پر احتجاج کے حقدار رہتے ہیں۔
 اقلیتوں کو یہ حق آئین پاکستان میرا مطلب “اسلامی”(جمہوریہ) پاکستان دیتا ہے یہ وہی آئین ہے جس کے اندر ہمارے حق میں کچھ ہو جو کہ  ہمیں فائدہ پہنچائے وہ ہمیں قبول ہے مگر یہی آئین کسی اقلیت کو اپنے فرائض سرانجام دینے کے بعد حقوق دینے کی بات کرتا ہے تو اسکو ردّی کی ٹوکری میں پھنک دیا جاتا ہے۔

یہ رویّہ بحثیت مسلمان ہم کو زیب نہیں دیتا ہے۔ ہم کو چاہئیے کہ قرآنِ پاک کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تمام مذاہب کا احترام کریں۔ سب سے اہم یہ کہ پاکستان کو دوسرے ممالک کی طرح شرپسندی اور انتہاپسندی میں دکھیلنے کی بجائے ملک خداداد کو امن کا گہوارہ بنائیں۔ الله ہم سب کا حامی و مددگار ہو۔ امین

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :