سچا "سوشل میڈیا"
Sacha Social Media
علیم احمد خان بدھ 6 نومبر 2019
حیرت کی بات یہ ہے کہ عوامی حلقوں میں فیس بک جیسے پلیٹ فارمز کو بہت زیادہ اچھا نہیں سمجحا جاتا مگرسرچ کرنے پر لگتا یوں ہے کہ جیسے جہان کے ہر فرد کا اکاونٹ پورے دھوم ڈھڑکے کے ساتھ فیس بک پر رواں دواں ہے۔
(جاری ہے)
اس پر آئی ہر نیوز فیڈ کو عمومی طور پر دھڑادھڑ شیئر کرنا فریضِہ اول سمجھا جاتا ہے ۔ اس سب پر سونے پہ سہاگا ہماری شہرت پسندی اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے کی خواہش ہے جوکہ کسی کی فرد اور ادارے کی عزت و ناموس کو بالَاِے طاق رکھ کر بس داد سمیٹتے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
انسان فظری طور پر خوشامد پسند ثابت ہوا ہے اور اسی جبلت کو فیس بک کے باںیوں کی ٹیم نے مد نظر رکھتے ہوئے فوری طور پر لائک یا کمنٹ ایسے فیچر متعارف کروائے اور یہ سلسلہ ایک عام سے پلیٹ فارم سے بڑھ کر اب لائف سٹائل تک پہنچ چکا ہے۔بہت سی تحقیق کے نتیجے اس بات کی تا ءِید کرتے ہیں کہ فیس بک پر اکژیت ایسی خبروں کی ہوتی ہے جو کہ فیک یا غلط ہوتی ہیں اور انکا حقائق سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہمیں آخر پتہ کیوں نہیں چلتا کہ کونسی سٹوری یا نیوز فیڈ صحیح ہے اور کونسی غلط؟ اس کا جواب شاید اس تجزیے میں چھپا ہو کہ ہمارے اذہان "علم" یعنی نالج کے بجائے معلومات یا انفارمیشن کے عادی ہوچکے ہیں اوراس طرح کی معلومات کی آسان رسائی ہمیں ذہنی طور پر تجزیہ سازی اور رائے استوار کرنے کی صلاحیت کو استعمال کرنے کی رغبت نہیں دیتی، اسکی بہت بڑی مثال اپنے گھر والوں کے اور کچھ لوگوں کا اپنے ہی نمبرزاور اس سے ملتی جلتی معلومات کا یاد نا ہونا ہے، ماضی میں حالات خاصے مختلف تھے۔
سائنسی گفتگو خاصی خشک ہے چلئیے اب بات ہوجائے کچھ معاشرتی پہلوئوں کی۔ عابد علی مرحوم کی قبل از مرگ موت کی خبر سے لے کررابی پیرزادہ کی نجی ویڈیو کے پھیلائوتک، ٹرین حادثہ میں جلتے زندہ لوگوں کی چیخوں سے لے کر قحبہ خانہ کے چھاپوں کی ویڈیوزتک، بطورقوم ہماری اکثریت بے حس اور شاید جذبات سے عاری ہوچکی ہے۔
یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر فیس بک ایسی سہولت نا ہوتی تو شاہزیب کیس، کمسن بچوں پر تشدد کی داستان اور ایسے نجانے کتنے واقعات کا کیا ہوتا؟ شاید اس بات کا جواب دینا بہت آسان نہیں مگر ایک بات واضح ہے کہ ہمیں بطور معاشرہ اور فرد دونوں ہی سطحوں پر تربیت اور بردباری کی ضرورت ہے۔ ایسے موقع پچھلے چند سالوں میں جو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے جو سوشل میڈیا پر "تبدیلی" نے جنم لیا ہے اس طوفان کا خامیازہ شاید آتی نسلوں تک بھگتنا پڑے۔
پاکستان اور اس جیسے بہت سے ترقی پزیر ممالک کا مسئلہ اقتصادی و معاشی کمزوری کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار سے جڑا ہے اب اس سب کی ذمہ داری اشرافیہ، سٹیٹس کو، سیاسی و سماجی رہنماء، اساتزہ، صحافی، عوام و خواص، سول سوسائٹی، قانون ساز اداروں، تعلیمی و علمی مراکز سے ہوتی ہوئی ایک فرد پر آکر منہ چڑاتی نظر آرہی ہے اور شاید بہت عرصے تک ایسے ہیں نظر آتی رہے۔
معاشرے میں سوشل میڈیا کا جن شاید بہت جلد ایک دیو بن کر ہم سب کو نگل لے، مگر اسکے دیو بننے کے عمل کو آہستہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔۔۔ مگر کیسے۔ اسکا فیصلہ آپ نے اور میں نے کرنا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین بلاگز :
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.