کارکن صحافی دوستو! ہمیں بے توقیر کون کر گیا۔۔؟

Karkun Sahafi Dostoo! Hamein Be Touqeer Kon Kar Gaya. . ?

Arshad Sulahri ارشد سلہری ہفتہ 12 اکتوبر 2019

Karkun Sahafi Dostoo! Hamein Be Touqeer Kon Kar Gaya. . ?
صحافی دوستو!کل ایک میڈیا ہاؤس میں کارکنوں کی تنخواہیں مانگنے نیشنل پریس کلب کے سیکرٹری انور رضا اور ان کے ساتھیوں نے حاضری دی اور قابل اخترام جناب مظہر اقبال نے وہاں شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور ڈیسک بھی بجاتے رہے ہیں۔مظہر اقبال کی آہ وبکاہ اور چیخ وپکار ایک ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مظہر اقبال،انور رضا،شکیل قرارسمیت تمام صحافی کارکنان،میڈیا ورکرزسے سوال ہے کہ کبھی آپ نے سوچا کہ ہمیں اس سطح پر کون لے کر آیا ہے۔

ہماری اتنی بے توقیری کیوں ہوئی ہے۔ضرور سوچیں،اگر نہیں سوچا تو حالات اس سے زیادہ بدتر ہو سکتے ہیں۔ہمیں کارکنان کو یونین سے ہٹا کر پریس کلب کی مفاداتی سیاست کی بھینٹ چڑھاگیا۔مالکان کے تحفظ کے دھرنے دیئے گئے۔یونین کی تباہی کردی گئی۔

(جاری ہے)


یونین اس وقت پانچ حصوں میں تقسیم ہے۔یہی نہیں بلکہ میڈیا ورکرز کو بھی تقسیم کردیا گیا ہے۔

جس کے نتائج یہ سامنے آئے ہیں کہ کارکنان کی نمائندگی اورنہ قوت رہی ہے۔میڈیاکارکنان بکھر کر رہ گئے ہیں۔پی ایف یوجے کے دھڑوں سمیت نئی میڈیا کارکنان کی تنظیمیں،پریس کلبز اور یونین لیڈررئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی جانب متوجہ ہیں۔گزشتہ سال ایک فوٹو جرنلسٹ نے جرنلسٹس ہاؤسنگ منصوبے کے نام پر کارکنان سے فی کس تین ہزار سے چھ ہزار کی رقم بٹوری ہے۔

پی ایف یو جے کے پرویزشوکت بھی ایک بڑی جرنلسٹس ہاوسنگ سوسائٹی کی تشہیر کرتے رہے۔افضل بٹ نے بھی میڈیا ٹاؤن فیز 2 کے نام پر چکری کے علاقے میں 2ہزار کنال اراضی کا شوشا چھوڑے رکھا۔موجودہ نیشنل پریس کلب کی انتظامیہ بھی میڈیا ٹاون فیز2 کی بات کر رہی ہے۔
باخبر صحافی کارکن آگاہ ہیں کہ کئی صحافی لیڈروں نے رئیل اسٹیٹ کا باقاعدہ کاروبار کر رکھا ہے۔

پریس کلب،یونین اور مجموعی طور پر میڈیا کو اپنے کاروبار کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔صحافی کارکنان کی بے توقیری کا آغاز یہی سے ہوتا ہے۔جب یونین اور پریس کلب کے عہدے داران کو ادارے سے تنخواہ لینے کی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔وہ مالکان سے مل کر کاروبار کریں گے تو پھر ان کیلئے کارکنان جہنم میں جائیں۔کارکنان کو ادارے سے نکال دیا جائے۔ تنخواہیں لیٹ ہوں۔

تنخواہیں نہ ملیں یہ لیڈران کا مسلہ نہیں ہے۔لیڈران رئیل اسٹیٹ اور دیگر کاروبار سے کما کر اپنا طبقہ بدل چکے ہیں۔اب وہ کارکن نہیں رہے ہیں تو کارکنوں کیلئے کیوں بولیں گے۔یہ بات اب میڈیا ورکرز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ضرور اس بات کا مشاہدہ کریں۔میڈیا ورکرز ضرور دیکھیں کہ ایک شخص یونین کو چھوڑ کر پریس کلب کی صدارت کیلئے لاکھوں روپیہ خرچ کیوں کر رہا ہے۔

اس لئے کہ یونین میں صرف کارکنوں کے مسائل ہیں۔احتجاج ہے۔مظاہرے ہیں جبکہ پریس کلب میں فنڈز،کئی منصوبے ہیں۔پیشہ کمانے کی جگہ تو پریس کلب ہے۔یہی وجہ ہے کہ مفاد پرست پریس کلب کے الیکشن میں لاکھوں روپیہ لگاتے ہیں اور اپنی الیکشن کمپین سپانسر بھی کرواتے ہیں کہ جیت گیا تو سپانسر کیلئے بھی پیکج ہوگا۔
خدا ئے واحد کی قسم راقم نے تین سو روپے میں پریس کلب کے الیکشن لڑے ہیں۔

راقم کا یونین اور پریس کلب کا آخری الیکشن 2005 اور 2006 کا تھا۔اس کے بعد انوسٹرز آگئے اور پریس کلب کے الیکشن میں لاکھوں کے اخراجات کئے جانے لگے۔جس کے باعث خود کو یونین اور پریس کلب سے الگ کرلیا۔آج جب میڈیا ہاوسز سے کارکنوں کو فارغ کیا جارہا ہے۔تنخواہیں نہیں دی جارہی ہیں۔کارکنوں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں مگر مفادت پرست لیڈر منظر سے غائب ہیں۔اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کارکنوں کے اتحاد اور کارکنوں کی نئی لیڈرشپ ابھارنے کیلئے دوبارہ سے جدوجہد شروع کی ہے تاکہ کارکن صحافی کی توقیر بحال کی جائے۔ چہرے بے نقاب کیے جائیں۔کارکن جان سکیں کہ ہمیں بے توقیر کون کرگیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :