جسم اللہ تعالیٰ کی تخلیق اورمرضی بھی اسی کی

Jism Allah Taala Ki Takhleeq Aur Marzi Bhi Usi Ki

عائشہ نور جمعہ 6 مارچ 2020

Jism Allah Taala Ki Takhleeq Aur Marzi Bhi Usi Ki
مجھے یہ جان کر کافی افسوس ہوا کہ آج کل کچھ لوگ نہ صرف خود اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں بلکہ دوسروں کو بھی مبتلاکرنے کیلیے کافی متحرک ہیں کہ "اپنے جسم پر اپنی مرضی " چلانا ان کا حق ہے۔ مگر شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ کا جسم آپ کی اپنی تخلیق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی اس میں روح پھونکی اور اللہ تعالیٰ جب چاہے آپ سے یہ زندگی لے سکتاہے۔

اللہ تعالیٰ اگر نہ چاہے تو اگلے لمحے آپ کا سانس آخری ثابت ہوگا اور آپ کی روح آپ کے جسم کو بیجان چھوڑ کر پرواز کر جائیگی۔ اگر واقعی اپنے جسم پر اپنی مرضی چلا سکتے تو آپ کبھی بیمار یا بوڑھے نہ ہوں اور نہ کبھی آپ کو موت آئے۔ مگر آپ یہ کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اختیار میں شامل نہیں کیا ہے،لہذٰا ہوگا وہی جو آپ کا رب چاہتاہے۔

(جاری ہے)

آپ کے جسم پر اگر کسی کی مرضی چل سکتی ہے تو وہ آپ کے جسم کو تخلیق کرنے والے کی۔

تو پھر ہم کون ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے طے شدہ ضابطہ حیات " اسلام " سے روگردانی کریں۔ لہٰذا نہ خود کو کسی غلط فہمی کا شکار ہونے دیجئے نہ دوسروں کو گمراہ کریں۔ جہاں تک " عورت کے جسم " کا سوال ہے تو عورت کے جسم پر بھی خالقِ کائنات کے طے شدہ ضابطہ حیات کا اطلاق ہوتاہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر اگر نگران مقرر کیا ہے تو اس سے عورت کی کوئی حق تلفی نہیں ہوتی۔

اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے تو اسے دور کرلے۔ یہ عورت وہ مخلوق تھی جسے قبل از اسلام سب سے ادنی تصور کیا جاتاتھا۔ اسے پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑھ دیا جاتا تھا۔ آج کی لبرل عورت خود کو زندگی بشمول تمام جملہ حقوق عطاکرنے والے اسلام سے کون سی آزادی چاہتی ہے؟؟؟ اور اپنے جسم پر اپنی کون سی ایسی مرضی چلانا چاہتی ہے جوکہ کسی منطق کی حامل ہو۔ کیا وہ اپنے جسم کو یومِ پیدائش سے لے کر بالغ ہونے تک پالنے پوسنے والے باپ سے آزادی چاہتی ہے؟ یا بہن کے تحفظ کیلیے چٹان کی طرح زمانے کی سختیاں جھیلنے والے بھائی سے آزادی چاہتی ہے؟ یا اپنی عزت و ناموس کے رکھوالے شوہر سے آزادی چاہتی ہے جو اس کی اور اس کے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے کیلیے سارا دن محنت کرتاہے۔

کیا یہ لبرل عورت سمجھتی ہے کہ وہ اپنے سارے کام خود کرسکتی ہے اور اسے مرد کی کوئی ضرورت نہیں ہے،تو یہ سراسر ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
 اگر مرد باپ کے روپ میں اس پرورش نہ کرتا اور اسے پڑھا لکھا کر شعور سے آشنا نہ کرتا تو میں دیکھتی کہ وہ کیسے مرد کے خلاف سڑک پر بیہودہ نعرے لگانے کے قابل ہوتی۔ پھر میں دیکھتی کہ لبرل عورت کیسے ٹائر بدلنا سیکھ پاتی۔

آج کی لبرل عورت نکاح سے آزادی چاہتی ہے نا!!! حالانکہ نکاح ہی اس کے تحفظ کاذریعہ ہے۔ اگر آج لبرل عورت صرف اس وجہ سے خود کو مختار کل قرار دلوانا چاہتی کہ وہ اپنے کام خود کرلے گی یاخود کما کر کھالے گی۔ تو پھر لبرل عورت اپنے جسم پر اپنی یہ مرضی بھی چلا کر دکھائے کہ مرد کے بغیر ماں کا درجہ حاصل کرلے۔ اگر وہ یہ نہیں کرسکتی تو پھر اس کی مرضی کا کیا ہوا؟؟؟ کیا وہ صرف اپنے جسم کو گناہوں کی غلاظت میں ڈال کر اپنے جسم پر اپنی مرضی چلانا چاہتی ہے؟ کیا یہ نعرہ لبرل عورت نے صرف نکاح سے فرار کیلیے ایجاد کیاہے؟ کیا لبرل عورت مغربی معاشرے کی طرح ریلیشن شپ کی بنیاد پر بچے پیدا کرکے اپنے جسم پر اپنی مرضی چلاناچاہتی ہے؟ تو تف ہے ایسے جسم پر اور ایسی مرضی پر جو کہ بے غیرتی, بے حیائی اور زنا کی دعوت عام ہے۔

۔۔
میں بتادینا چاہتی ہوں ہر لبرل عورت کو کہ پاکستان کی 99% عورتیں ایسی آزادی اور حقوق نہیں چاہتی ہیں کیونکہ ہم اسلام کی باعصمت بیٹیاں ہیں اور ہماری عزت و ناموس ہر خاص و عام کیلیے برائے نیلامی نہیں ہے۔ ہم سیدہ کائنات حضرت فاطمةالزہراہ کی سنت پر عمل کریں گی۔ ہم حجاب بھی لیں گی کیونکہ یہ ہمارے وقار میں اضافے کا باعث ہے۔ ہم نکاح بھی کریں گی اور اپنے شوہر کیلیے کھانا بھی بنائیں گی, اس کے موزے بھی بخوشی تلاش کرلیں گی اور اس کے جوتے بھی پالش کرلیں گی۔

لبرل عورتیں خود کما سکتی ہیں, مگر ایک مسلم خاتون کا شوہر خود اسے کماکر کھلاتاہے۔ لبرل عورتیں شوق سے خود ہی ٹائر بدل لیں جبکہ شوہر تو بیوی کو نہ توٹائربدلنے دیتاہے اورنہ کوئی وزنی چیز نہیں اٹھانے دیتاہے۔ایک لبرل عورت بیوی بستر گرم کرنے کا طعنہ دیتی ہے جبکہ بستر تو دراصل وہ خود گرم کرنا چاہتی ہے عیاش مردوں کے۔ لہٰذا بحثیت مسلمان ہمیں بالکل نہیں چاہیے ایسے حقوق اورآزادیاں!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :