وزیراعظم پاکستان عمران خان آج کل کچھ نئی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ کچھ سرکردہ سیاسی شخصیات کی بھرپور کوشش ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت میں کمی لائی جائے کیونکہ رواں سال کے آخر میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں۔ لہٰذا سب سے زیادہ " مہنگائی اورآٹے،چینی کے بحران پرسیاست ہورہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات بھی کررہی ہے۔
جذبات کی رومیں بہہ کر ہم سب کچھ پی ٹی آئی حکومت پر ڈال دیں تو کیایہ ٹھیک ہوگا؟؟؟
جب پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کا فیصلہ کیا تو اسی وقت قیاس کیاجانے لگاتھا کہ مہنگائی عوام کی کمر توڑنے والی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ آج وہی لوگ مہنگائی کا رونارونے میں سرفہرست ہیں،جن کی وجہ سے ملک سودی قرضوں میں جکڑا گیااورمعیشت تباہ ہوئی۔
(جاری ہے)
ذرا غور فرمائیں کہ گندم اور چینی کا مصنوعی بحران کن عناصر نے پیداکیا۔ وہ کون لوگ ہیں جنہوں آٹے اور چینی کی مارکیٹ میں سپلائی رکوائی۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی فیکٹریوں سے آٹے اور چینی کی ہزاروں ٹن ذخیرہ شد ہ بوریاں پکڑے جانیکی بریکنگ نیوز چلتی رہی ہے۔لہٰذا سارا ملبہ حکومت پر نہیں ڈالاجاسکتا۔
حکومت کیلیے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ایک بڑا چیلنج ثابت ہونیوالا ہے۔
حکومتی حلقوں میں اپنی ہی وزارتوں, وزراء, ایم این ایز اور ایم پی ایز کی کارکردگی پر کافی عدم اطمینان پایاجاتاہے۔ عوامی نمائندے پہلے کی طرح اپنے حلقوں کے عوام سے رابطے میں نہیں ہیں۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت میں کتنی کمی بیشی ہوئی ہے؟؟؟ یا حکومتی کارگردگی کے حوالے عوامی رائے کیاہے؟؟؟ توبلاتاخیربلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہوگا۔
بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کومضبوط اور بااختیار بنانے پرکوئی توجہ نہیں دی۔ اگر دیکھا جائے تودنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں مالی معاملات بلدیاتی ٹاؤن اور لوکل باڈیز کے پاس ہوتے ہیں جبکہ پاکستان کی جمہوریت میں پارلیمنٹرینز کو ڈویلپمنٹ کے فنڈ دئیے جاتے ہیں حالانکہ سارے فنڈز بلدیاتی اداروں کے پاس ہونے چاہییں۔ لہٰذا بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ایک جمہوری عمل میں تاخیرکاسبب بن رہی ہے،جس کا فی الفور ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو حکومت کے خلاف موڑ کر نااہل قرار دلوانیکی منصوبہ بندی کن لوگوں نے کی؟؟؟ یہ وہی لوگ ہیں جوحصولِ اقتدار کی دوڑ میں شامل سمجھے جاتے ہیں اور شہر اقتدارکی ہواؤں کا رخ بدلنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے نہ صرف پیچھے ہٹناپڑا بلکہ اپنے اٹارنی جنرل انور منصور کی بھی قربانی دینی پڑی۔
حتٰی کہ نئے اٹارنی جنرل خالدجاوید نے اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور الٹا وزیرِ قانون فروغ نسیم کے خلاف درپردہ ایک سرد جنگ چھیڑ دی۔ اگر رسہ کشی مزید بڑھی تو وزیر قانون کو بھی قربانی کا بکرا بنانے پر غور خارج از امکان نہیں ہے۔ حکومت بہرحال اپنا دامن ہرحال میں بچانے کیلیے ہاتھ پاؤں مارہی ہے۔ یہ صورتحال مزیدخراب بھی ہوسکتی ہے۔
لہٰذا وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو " مجلسِ ستائش باہمی " کا منظر پیش کرنے کی بجائے اپنی خامیوں کو تلاش کرنے اور انہیں دور کرنے کیلیے مزید بہتر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی تاکہ علاقائی, صوبائی اور وفاقی ہر سطح پر درپیش مسائل کا تدارک ہوسکے۔مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ یہ جو ہرطرف عوامی مسائل, آئینی التواء, قانونی الجھاؤ نظر آتے ہیں, کہیں سب ایک مصنوعی سیاسی منظر نامہ تیار کرنے کی کوئی نئی چال تونہیں؟؟؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔
© www.UrduPoint.com