کیا میڈیا کے گھوڑے کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے ؟

Kiya Media K Ghore KO Lagam Dalne Ki Zaroorat Hai

Ayesha Yousaf عائشہ یوسف ہفتہ 28 ستمبر 2019

Kiya Media K Ghore KO Lagam Dalne Ki Zaroorat Hai
کچھ دن پہلے ایک وڈیو کلپ نظروں کے سامنے سے گزرا جس میں ایک ہوسٹ لجنڈری عشرت فاطمہ صاحبہ سے کچھ خبریں پڑھنے کی درخواست کرتی ہے۔

عشرت فاطمہ صاحبہ خبریں پڑھ کر سناتی ہیں تو ان کی مسحور کن آواز بغیر سنسنی پھیلاتا لہجہ اور بغیر چنگھڑتے ہوئے خبر عوام تک پہنچانے کا انداز سن کر سب کی طرح میں بھی اس وقت میں کھو گئی جب خبروں کا مطلب صرف عوام تک اطلاعات پہنچانا ہی ہوتا تھا لوگ سادہ تھے اور صحافت ایک مشن کی ماند تھی۔

پھر مشرف کا دور آیا اور پرائیویٹ چینلز نے آہستہ آہستہ پر پھیلانے شروع کیے اور صحافت کےاس مشن کو بزنس کے ناگ نے ڈس لیا ایک کے بعد ایک چینلز کھلتے گئے خبریں سب سے پہلے دینے کی دوڑ میں خبر کا معیار گرتا گیا ۔

(جاری ہے)

خبر سچی ہے یا جھوٹی اگر ایک چینل نے بریک کر دی ہے تو باقی چینلز کے نیوزروم نے اپنے رپوٹرز کا جینا حرام کر نا شروع کر دیا ۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی بتاتے ہیں کہ کسی دھماکے کی رپورٹنگ کے لئے گئے وہاں جان بحق لو گوں کی تعداد 15 دیکھی تو اتنی ہی رپورٹ بھی کر دی۔

ان کے نیوزروم سے انہیں کہا گیا کہ بھائی دوسرے اداروں نے 30 سے 32 بندے مار دئیے تم ابھی تک 15 پر ہی اٹکے ہو انہوں(صحافی) نے یہ جواب دیا کہ سر کچھ زخمی میرے سامنے پڑے ہیں کہیں تو ان کا گلا دبا کر مار دوں ۔۔خیراس خبر کو سب سے پہلے بریک کرنے کی ریس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رپوٹرز نے بھی بغیر پرکھے یا ڈبل چیک کیے یا خبر کا مسکن اور دونوں طرف کا موقف لئے بغیر نیم درست خبریں نیوزرومز تک پہنچانا شروع کر دی ۔

کئی خبریں غلط نکلتی لیکن اس پر نہ کوئی معافی نامہ نہ کوئی ندامت بس ایک دوڑ شروع ہو گئی کہ لگے رہو لگے رہو 2013 تک حالات ہھر بھی قابل برداشت تھے لیکن اس کے بعد ہر ادارے نے کسی ایک سیاسی جماعت کی لائن پکڑ لی یا یوں کہیے کسی ہر سیاسی جماعت نے کسی ایک چینل کو اپنا سپوکس پرسن چن لیا ایک ایسا ماحول بنا جس میں ایک خبر کو کسی ایک چینل پر ایک طرح سے دکھایا جانے لگا تو اسی خبر کو کسی دوسرے چینل پر بالکل متضاد دکھایا جاتا اور پھر یوں ہماری با شعور عوام بھی جان گئی کہ کون سا چینل کس پارٹی کا ہے ہر کوئی اپنی مرضی کی خبر دیکھنے کے لئے اپنی پارٹی والا چینل لگا لیتا جیسے ہم میں سے اکثر بس اپنی مرضی کا اسلام مانتے ہیں ۔

میں مانتی ہوں کہ کچھ اداروں نے کوشش کی کہ وہ کسی کی سائیڈ نہ لیں لیکن ان کی یہ کمی وہ وڈے اینکرز پوری کر دیتے تھے جن کے وڈے وڈے سیاستدانوں سے تعلقات اور دوستیاں تھی ایسے میں کاہے کی صحافت اور کاہے کا مشن ۔سیاستدانوں کے ساتھ غیر ملکی دورے ۔ملکی اداروں میں بڑے عہدے ملنے کی آفر آجائے تو بھئی کس کا دل نہ للچائے
نقصان کس کا ہوا ؟؟ اس مشن کا جو صرف عوام کو اطلاعات اور شعور دینے کے لئے بنایا گیا اس مشن کا جس کا مقصد یہ تھا کہ حکمرانوں کو نشاندہی کی جائے کہ کہاں کیا غلط ہو رہا ہے ۔

اس مظلوم طبقے کی آواز کا نقصان ہوا جو اتنی اونچی نہیں کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکے
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟
کیا یوں ہی بغیر تحقیق کے خبر کی الٹیاں ٹی وی سکرینوں پر کی جاتی رہیں گی؟
میڈیا کے اس شدید بحران کا ذمہ دار کون ہے؟
 کون میڈیا کے اس بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالے گا؟؟
 
ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس ہے یا نہیں میں نہیں جانتی لیکن شاید یہ سب ٹھیک کرنا اتنا مشکل بھی نہیں بشرطیکہ نیت ٹھیک ہو ۔

کیا حکومت کوئی ایک ایسا ادارہ نہیں بنا سکتی جو سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہو جس میں ان لوگوں کو میرٹ پر بھرتی کیا جائے جو صحافت کے پائینیرز میں سے ہیں جو خبر اور اس کی اہمیت کو جانتے ہیں جو جانتے ہیں کہ ایک غلط خبر کا معاشرے میں کیا اثر ہو سکتا اور غلط خبر دینے سے ایک صحافی کی کریڈیبلٹی کا کیسے بیڑہ غرق ہو سکتا ۔ لیکن بات صرف ترجیحات کی ہے کاش کہ حکمران اس میڈیا کے گندے دھندے کے معاشرے میں ہونے والے اثرات کا جائزہ لیں ۔۔۔۔ کاش

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :