کہیں آپ بھی تو قید نہیں ؟

Kahin Ap Bhi Tu Qaid Nahi

Fasiha Arif فصیحہ عارف منگل 5 مئی 2020

Kahin Ap Bhi Tu Qaid Nahi
ہم اکثر کچھ لکھنا چاہتے ہیں پر لکھ نہیں سکتے ۔ بہت سے الفاظ ہمارے پاس ہوتے ہیں لیکن وہ الفاظ ہم کبھی کبھی لکھنے سے ڈرتے ہیں ۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہ الفاظ کوئ پڑھ لے ہم ہمیشہ انہیں دل کے کسی کونے میں چھپا کے رکھنا چاہتے ہیں یوں لگتا ہے کہ وہ چند الفاظ ہماری زندگی کی کہانی ہے ۔ وہ الفاظ ہم ہمیشہ قید کر کے رکھتے ہیں ۔ پھر احساس ہوتا ہے ۔

کہ کب تک ؟ کسی کو قید کیا جائے جنہیں ہم ساتھ لے کر اس دنیا سے جانا چاہتے ہیں پھر ایک روز وہ اچانک بے ساختہ ہماری زبان سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔ وہ آزاد ہوتے ہی رخ کرتے ہیں اس انسان کی طرف جس کیلئے وہ الفاظ ہوتے ہیں کچھ لمحے کے لیے ہماری آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں ۔ اور جب کھلتی ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے ۔ کل تک جو صرف الفاظ قید تھے آج الفاظ کے ساتھ ساتھ   روح بھی قید ہوگئ ہے ۔

(جاری ہے)

ہم خود کو کسی کے سامنے سرینڈر کر دیتے ہیں اور وہ انسان ہمیں ان الفاظ کی طرح قید کرلیتا ہے ۔ وہ الفاظ کی قید سے زیادہ تکلیف دل اور روح کی قید ہے ۔ ہمارے وہ الفاظ جس انسان کو محافظ سمجھ کے ملے تھے ۔ پھر اس انسان کا بدلتا ہوا روپ دیکھتے ہیں وہ انسان جسے ہم آسمان سمجھتے ہیں پھر وہی ہمیں کہیں دور بادلوں میں تنہا چھوڑ دیتا ہے ۔ جسے ہم اپنی زمیں سمجھتے ہیں وہ ہمیں دور کسی جزیرے پہ چھوڑ دیتا ہے ۔

اور وہاں سے شروع ہوتی یے ہماری اصل قید  پھر ہم ابن آدم کا وہ روپ دیکھتے ہیں جسے ہم آزاد تھے تو خواب میں دیکھنے سے ڈر جاتے تھے ۔آج وہ قید ہو کر حقیقت میں دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ہم روتے ہیں تڑپتے ہیں پر ہم یہ بھول جاتے ہیں ہمارے دل اور روح کے ساتھ ساتھ ہماری آواز  بھی قید ہوگئ تھی ۔ ہم پکاریں بھی تو کوئ فرق نہیں پڑتا ۔ قیدیوں کی آوازیں دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں ۔

اصل میں وہ دیواریں دل کی دیواریں ہوتی ہیں وہ دل کی دیواریں پکارتی ہیں ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے پر سنے بھی تو کون؟  دل کی آواز تو وہی سن سکتا ہے جو دل کے قریب ہو ۔ اب جو دل کا مذاق اڑا کے زندان میں قید کر لے وہ ہمارے دل کی پکار کیسے سن سکتا ہے ۔پھر ہمیں احساس ہوتا ہے ۔ ہم نے وہ الفاظ صحیح  وقت پہ آزاد نہیں کیے وہ صحیح وقت پہ آزاد  نہ کرنے کا کفارہ ہم ادا کر رہے  ہیں اور پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس زندان میں کوئ ہمارے ساتھ نہیں کوئ ہمارے پاس نہیں کس کو پکاریں ہم کس سے فریاد کریں ہم ؟کون ہمیں اس قید سے آزاد کرے گا ۔

؟ ان دیواروں میں قید ہم رستہ تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ سنا ہے ہر قیدی کو آزاد کرنے کا کوئ نہ کوئ  کوئ رستہ ضرور ہوتا ہے ۔ پھر وہ رستہ ہمیں کیوں نہیں دیکھائ دیے رہا پر شاہد ہم اس زندان میں ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا کوئ رستہ نہیں ۔  پھر اس زندان میں بہت قریب سے  ایک آواز سنائ دیتی ہے  ۔ہم سوچتے ہیں یہ تو رات کا آدھا پہر ہے اس وقت تو سب انسان سو رہے ہوتے ہیں کیا کوئ اور بھی  قید ہے اس زندان  میں وہ آواز سنتے ہی   آنسو  بہنے لگتے ہیں   غور کرنے پہ معلوم ہوتا ہے  ۔

ارے یہ تو آزان کی آواز ہے ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے رات کے اس پہر کوئ آزان نہیں ہوتی ایک نماز ہوتی ہے تہجد کی یہ تو تہجد کی آزان سنائ دے رہی  ہے ۔ کیا تہجد کی بھی آزان ہوتی یے ؟دل سے آواز آتی ہے  یہ آزان تو اللّه کی پکار ہے ۔ مجھے اللّه پکار رہے ہیں ۔ یا اللّه سنا ہے تو اس وقت اپنے بندے کی ہر دعا قبول کرتا ہے  مجھے آزاد کر دے ۔ میرا دل قید ہے ۔ میری تو روح تک قید ہے ۔ میرے دل کی دیواروں سے ایک  اور آواز باہر آنے لگتی  ہے  ۔   ۔   ۔   ۔  آزاد تو تم اسی وقت ہوگئ تھی جب دل سے آزان سنے پہ تمھارے آنسو نکلے تھے   ۔  ۔  ۔  ۔  ۔  میں آزاد ہوگئ  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔    اور ہاں   کہیں آپ بھی تو قید نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :