تعصب کی ہوا

Taasub Ki Hawa

Furqan Ahmad Sair فرقان احمد سائر جمعہ 24 جنوری 2020

Taasub Ki Hawa
ساری زندگی انسان جسم کی پرورش کرتا ہے اور روح کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ جسم انسانی مختلف ماحول میں پروان چڑھتا ہے۔ معاشرتی و سماجی ماحول کو اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ جب انسان جوانی کی حدود کو چھوتا ہے تو اس کے اندر وہ تمام تر خوبیاں اور خرابیاں اس قدر پیوست ہو جاتیں ہے کہ ان کا خاتمہ کرنا ناممکن سا لگتا ہے۔ کیونکہ ان پرہمارے سیاستدان اور کرپٹ عناصر جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں تعصب کی تپش اتنی سرائیت کرچکی ہے کہ قت گزرنے کے ساتھ ساتھ لسانی تعصب کے علاوہ دینی معاملات میں بھی اس کا بیانگ دبل اظہار کرتے ہیں۔ بلاشبہ اس تعصب کو فروغ دینے یا اجاگر ہونے کا اہم سبب ہمارے کرپٹ سیاستدان اور معاشرہ ہے، جہاں کسی زبان کو بنیاد بنا کر حق تلفی کی جائے لوگوں پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کر دیئے جائیں تو دھیرے دھیرے یہ احساس محرومی ایک تعصب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

(جاری ہے)

اکثریت رکھنے والے اپنے دوسرے کے حقوق کی پامالی بلا کسی سبب کے کرتے ہیں ۔ حدود اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 12 بڑی زبانیں ہیں جن میں۔ پنجابی، پشتو، بلوچی، سندھی، اور اردو بہت اہم ہیں۔ کراچی میں اس وقت 60 فیصد آبادی اردو بولنے والوں کی ہے اس ملک کے قیام کے لئے لاکھوں مہاجرین نے اپنے آبائی اجداد کو چھوڑ کر اس پاک سرزمین کی طرف ہجرت کی۔

کتنی ہی تقسیم ہند میں ماوں سے ان کے بیٹے چھن گئے کتنے ہی بچے یتیم ہوگئے۔ کتنی ہی بہنوں کا سہاگ لوٹ لیا گیا۔ بلاشبہ لیکن وطن عزیز کی محبت اس قدر تھی کے ان ملک کی ترقی و ترویج میں دن رات جتے رہے۔ کراچی کی جو روشنیاں ہیں۔ ان ہی مہاجروں کی بدولت ہیں۔ یہ کراچی ان ہی پڑھے لکھے لوگوں کی مرہون منت سے اتنا ترقی پزیر ہوا کے۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ اس شہر کی جانب روزگار کے سلسلے میں آتے ہیں۔

کراچی ملک کا وہ واحد شہر ہے جس میں تمام صوبوں کے رنگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں آپ کو میمن، بنگالی، برمی، سندھی، پنجابی، کشمیری غرض یہ کہ ہر زبان بولنے والے آپ کو ملیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے تمام بڑی بڑی سماجی تنظیموں کی جنم بھومی بھی یہی شہر ہے، خیرات، زکواة، اور دیگر قدرتی آفات میں چندہ دینے والا بھی یہ ہی شہر ہے۔۔ لیکن افسوس صد افسوس کے اسی شہر کو سوچی سمجھی سازش کے تحت تباہ کیا جارہا ہے۔

۔ یہاں کے باسیوں کو روزگارکی تو دور کی بات، تعلیم اورصحت جیسے بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔۔ مہنگائی اور چور بازاری نے متوسط طبقے تو دور کی بات سفید پوش خاندان کو بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔۔ خدارا رنگ نسل زبان، پات پات اور زبان کے تعصب سے بالاتر ہوکر سوچیں کیا ہم ایسے پاکستان کی تشکیل کررہے ہیں جس کا خواب بابائے قوم نے دیکھا تھا۔۔۔ اگر اسی خود غرضی اور زاتی مفاد کے لئے لوگوں استعمال کرتے رہے تو ہمارے نئی نسل کس نہج پر پہنچ جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :