عوام اور امام

Awam Aur Imam

جاوید علی ہفتہ 16 مئی 2020

Awam Aur Imam
مجھے حیرت ہوتی ہے جب ہم میں بہت سے لوگ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور بعض اوقات تو اپنی غلطیاں بھی دوسروں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں- ہم بطور قوم ایک ریوڑکی مثل ہیں جو ڈنڈے کے علاوہ قابو میں نہیں آتا-
 حکومت نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلیے شاپنگ مالز, مارکیٹس, انڈسٹریز وغیرہ کے ساتھ ساتھ بہت سے سرکاری دفاتر بھی بند کیے تاکہ لوگ گھروں میں رہیں ایک دوسرے کے ساتھ ان کا میل جول کم ہوسکے لیکن ہم نے اپنے بچوں کو لاک ڈاؤن دیکھانے کیلیے گھر سے باہر لے آئے اور سیر سپاٹے شروع کر دیے- انسان جب ہرطرف سے مایوس ہو جاتا ہے تو وہ مذہب کی طرف منہ موڑ لیتا ہے اور اسی میں پناہ تلاش کرتا ہے ہم نے مسجدوں کو نہ صرف آباد کرنا شروع کیا بلکہ ہم نے رات کو دس بجے چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینا بھی شروع کردیں- اک شاعر نے نقشہ کچھ یوں کھینچا کہ
ملاقاتیں عروج پر تھیں جواب اذان تک نہ دیا کسی نے
اب خالق جو روٹھا ہے سبھی موؤذن بنے بیٹھے ہیں
یہ تو حالت لاک ڈاؤن میں تھی-جب حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا توہم نے بازاروں میں معمول سے بڑا رش دیکھا- ہم نامولود بچے بھی بازاروں میں اٹھا لائے جنہیں کرونا کا زیادہ خطرہ ہے-
 ہمارے معاشرے میں امام مسجد کا کردار بڑا اہم ہے- یہ کچھ لوگوں کے مطابق سنجیدہ اور کچھ کے مطابق غیر سنجیدہ رہا- میرے مطابق دونوں ہی ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ جو غیر سنجیدہ کہہ رہے ہیں وہ صرف عملی طور پر دیکھ کر بات کرتے ہیں نہ کہ بیک گرؤنڈ- اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں امام مسجد کا کردار کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت امام کی عزت کے ساتھ ساتھ زیادہ تر سماجی فیصلے کرنے کا اختیار بھی تھا لیکن آہستہ آہستہ ان کے سوشل سٹیٹس میں تبدیلی آتی گئی اب انہیں محض ایک ملازم کی حیثیت حاصل ہے- ہم ان کو امام کی بجائے ''کمی'' سمجھنے لگے ہیں جب ایک بندہ ہم سے تنخواہ وصول کر رہا ہے تو اسے ہماری ہی بات ماننا پڑے گی ورنہ اس کی ملازمت چلی جائیگی سو وہ مجبور ہیں اپنے عوام کی بات ماننے پر- یہ لوگ اب بھی اپنی کوشش کر رہے ہیں لیکن جب انہیں جاب کا تحفظ ہی حاصل نہیں تو وہ کیسے حکومت کی پالیسی کو فولو کریں- 
جب امام مسجد کہتا ہے کہ جماعت میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ نیا دین کہاں سے آگیا ہم نے تو آج تک ایسا سنا نہ دیکھا- جب وہ جماعت کے بعد بقیہ نماز گھرپڑھنے کا کہتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے ہم نے مسجد نماز پڑھنے کیلیے ہی بنائی ہے- ہم لوگ کبھی ان سے گالم گلوچ اور کبھی ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں- اس وجہ سے کتنے ہی امام مسجدوں کو فارغ کردیا گیا حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں-
 ایک طرف انتظامیہ کے سخت احکام اور دوسری طرف عوام کا یہ رویہ- یہ لوگ کہاں جائیں کیا کریں ایک طرف جاہل عوام دوسری طرف پولیس کی بدتمیزی پھر بھی الزام امام مسجد پر یہ انصاف کہاں کا کہ صافی کا قلم بھی ان کے حق میں تحریر نہ کرے- امام مسجد کی بے بسی دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا- حکومت رائج الوقت کو چاہیے کہ انہیں باقاعدہ طور پر تنخواہیں دیں تاکہ وہ حکومت کی پالیسیوں کو نہ صرف فولو کریں بلکہ لوگوں تک صیح معنوں میں دین پہنچا سکیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :