سیاسی مذاکرات،وقت کی ضرورت

Siyasi Muzakrat - Waqt Ki Zarorat

Junaid Nawaz Chaudhry جنید نوازچوہدری (سویڈن) بدھ 7 دسمبر 2022

Siyasi Muzakrat - Waqt Ki Zarorat
ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی جماعتوں کو آپس میں مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی مفاد میں تعاون کرنے کی صلاحیت کی بھی ضرورت اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ اقتدار کے لئیے آپس میں مقابلہ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمہ عام طور پر جمہوری اداروں جیسے کہ قومی پارلیمنٹ میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود صرف پارلیمانی مکالمہ ہمیشہ اتفاق یا سمجھوتہ کی حقیقی تلاش کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا۔

اسی مناسبت سے عوامی مفادات کی خاطر سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کے مزید متحرک مقامات کی ضرورت پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی ضروری ہے جو سیاسی بالغ نظری کا ثبوت ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں اس قسم کی سیاسی بالغ نظری کا شدید فقدان ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پچھلے 64 سالوں سے تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوتی آئیں ہیں۔

(جاری ہے)

اس کی وجہ سے ہمارے ملک میں حقیقی جمہوریت کو کبھی اس کی اصل روح کے ساتھ پنپنے کا موقع ہی نہیں مل سکا جس کی وجہ سے مذاکرات کی سیاست کو فروغ نہیں مل سکا اور عوامی مفاد میں کوئی سیاسی جماعت کبھی بھی واضح لائحہ عمل ترتیب دے کر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے عوام کی مکمل حمایت نہیں حاصل کر سکی جو مرکز کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں میں حکومت بنا سکتی۔

اس کی ایک بڑی وجہ تمام سیاسی جماعتوں کا اسٹیبلیشمنٹ کی طرف جھکاؤ اور حمایت حاصل کرنے کی تگ و دود رہا ہے۔ تقریباً ہر سیاسی جماعت جب تک اداروں کی حمایت سے اقتدار میں رہی تب تک یا تو مختلف مارشل لا ادوار میں فوجی آمروں کو وردی میں تا حیات صدر منتخب کروانے جیسے غیر آئینی اقدام کی حمائیت کرتی رہی یا اداروں کی پس پردہ مداخلت کی حمایت کرتی رہی۔

مگر جیسے ہی وہ سیاسی جماعت اپنے غیر مقبول فیصلوں یا اپنی نالائقی سے حکومت سے باہر ہوتی رہی ہے یا اداروں کو کوئی دوسری سیاسی جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لئیے اپنے آپ کو متبادل کے طور پہ پیش کرتی رہی ہے تو فوراً اقتدار سے باہر ہونے والی جماعت اداروں کے خلاف احتجاج کی تحریکیں چلانی شروع کر دیتی رہی ہے۔ پچھلے 64 سالوں سے اس ملک کے ساتھ یہ چوہے اور بلی والا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے اور عوام کے فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی رہی ہے، نتیجتاً آج ملک کو معرض وجود میں آئے 75 سال ہونے کے باوجود، ایٹمی قوت ہونے کے باوجود، قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم فقیروں کی طرح اقوامِ عالم کے سامنے ہاتھوں میں کشکول لئیے پھر رہے ہیں جو انتہائی شرمناک ہے اور جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

اب یہاں ہر شعور رکھنے والے پاکستانی کے ذہن میں ایک سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی سیاسی کشمکش، سیاسی رسا کشی اور اقتدار کی ہوس میں ڈوبی جماعتوں کے اپنے اپنے مفاد کا نشانہ بنتی رہیں گی یا کبھی ہماری تمام سیاسی جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کر دوسری ترقی یافتہ جمہوریت پسند قوموں کی طرح سیاسی اختلافات ہوتے ہوئے بھی عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر عوامی مفاد میں مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تر تیب دے سکیں گی یا نہیں؟ میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنا پڑے گا۔

کیونکہ عمرانی تجربے کے بعد ادارے کانوں کو ہاتھ لگا چکے ہیں اور سیاست میں آئندہ مداخلت سے باز رہنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ جس کا ثبوت جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا اپنی ملازمت کی مدت پوری کرنے کے بعد اپنی سبکدوشی کے موقع پر اُن کا اپنے ادارے کی جانب سے پچھلے 64 سالوں سے سیاست میں مداخلت کا اعتراف اور آئندہ باز رہنے کا عندیہ ہے۔ گو کہ انہوں نے آدھا اعتراف کیا باقی کا آدھا ملبہ سیاسی جماعتوں پر گرایا۔

باقی کے آدھے اعتراف سے میری مراد سقوطِ ڈھاکہ کا وہ سانحہ ہے جس کا پچھلے 51 سالوں سے کوئی ذمہ لینے کو تیار نہیں۔ جنرل (ر) باجوہ نے اس کو سیاسی ناکامی قرار دیا جو کہ میرے نزدیک سیاسی سے زیادہ فوجی ناکامی تھا۔ جہاں جنرل (ر) باجوہ نے ادارے کی سیاست میں مداخلت کا اعتراف کر ہی لیا تھا وہاں دل بڑا کر کے سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات بننے والی غلطیوں کا اعتراف بھی کر لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا تاکہ تاریخ کی صحیح معنوں میں درستگی کی جا سکتی۔

مگر یہ اسی صورت ممکن تھا اگر سیاسی جماعتوں نے ماضی میں غیر آئینی اقدامات کا سہولت کار بننے کی بجائے مزاحمت کا راستہ اپنایا ہوتا مگر بدقسمتی سے کوئی سیاسی جماعت ایسا نا کر سکی۔ خیر ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اب سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیے کیونکہ اگر اب فوج کی طرف سے مداخلت کے خاتمے کا عندیہ دے دیا گیا ہے تو یہ بہترین موقع ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا وگرنہ اس بار اگر سیاست دان ناکام ہوئے تو ایک لمبے عرصے کے لئیے مارشل لا لگے گا جو کسی طور بھی عوام کے مفاد میں نا ہوگا۔

تمام سیاسی جماعتوں کو اب عوامی مفاد کی خاطر اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کے فیصلے کرنے ہوں گے کیونکہ اداروں نے واضح طور پر پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں اور عمران خان کو یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کئیے لازم و ملزوم ہیں۔ اس کا ثبوت اداروں نے غیر جانب دار ہونے سے پہلے ان کی طرف سے تر تیب دی گئیں صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت ہے جہاں مختلف جماعتیں حکومتوں میں موجود ہیں اس ترتیب کا مقصد یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے لئیے مجبور کیا جائے اور اداروں کی مداخلت ختم کی جائے۔

اب تمام سیاسی جماعتوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ اگر ان تمام صوبائی حکومتوں کا تعاون اگر وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں ہو گا تو نتائج انتہائی سنگین ہوں گے جو ملک و قوم کو بھگتنے پڑیں گے۔ لہذا اب تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ملکی مسائل کی طرف توجہ دینی چاہئیے اور شہری حکومتوں کے نظام کو مضبوط کرنا چاہئیے اس کے ساتھ ساتھ تمام جماعتوں کو اس بات پر متفق ہونا چاہئیے کہ بلدیاتی انتخابات کو عام انتخابات کے ساتھ ہی کروانے کا انتظام ہونا چاہئیے تاکہ عوام کو ہر وہ سہولت فراہم کی جا سکے جس کے وہ حقدار ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتیں عوام کو صرف کھوکھلے نعرے ہی دیں گی یا اُن کے مسائل کے حل کے لئیے مل بیٹھ کر کوئی جامع حکمتِ عملی بھی مرتب کر سکیں گے؟ تمام سیاسی جماعتوں کو اس حقیقت کا اب ادراک ہونا چاہیے کہ اب کھوکھلے نعروں سے کام نہیں چلے گا کیونکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں عوامی شعور اپنے عروج پر ہے۔ اگر اب کی بار سیاسی جماعتیں ناکام ہوئیں تو اداروں کی دوبارہ سیاست میں مداخلت کی ذمہ دار صرف اور صرف سیاسی جماعتیں ہوں گی اور عوام کے ایسے غیض و غضب کا نشانہ بنیں گی کہ جس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملے گی۔

دوسرے تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور چاہنے والوں کو بھی اب لیڈران کے ٹرانس سے کہ ، عمران خان ہے تو پاکستان ہے، نواز شریف ہے تو پاکستان ہے، زرداری ہے تو پاکستان ہے سے باہر آنا ہو گا کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں پاکستان نہیں تو کوئی بھی کچھ بھی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :