بحیثیتِ قوم ہمیں ہوش کب آئےگی؟

Bahesiyat Qoum Hamain Hosh Kab Aye Gi

Junaid Nawaz Chaudhry جنید نوازچوہدری (سویڈن) بدھ 18 جنوری 2023

Bahesiyat Qoum Hamain Hosh Kab Aye Gi
چند دن پہلے ایک خبر پڑھنے کا اتفاق ہوا اور وہ خبر یہ تھی کہ “بنگلہ دیش نے دارالحکومت ڈھاکہ میں ٹریفک کی بھیڑ کو کم کرنے کے لیے اپنی پہلی میٹرو ریل سروس شروع کی ہے، ڈھاکہ دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی گاڑیوں سے بھری سڑکیں اور ٹریفک جام اس کے تقریباً 2 کروڑ سے زیادہ باشندوں کے لیے روزانہ شدید ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں ہر سال 3,000 سے زیادہ افراد سڑک حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ 2018 میں ہونے والے ایک ہولناک حادثے میں دو طالب علم ایک تیز رفتار بس کی زد میں آکر ہلاک ہوئے – جس نے مشتعل نوجوان مظاہرین کے ہجوم کو سڑکوں پہ نکلنے پر مجبور کیا۔

(جاری ہے)

ماہرین کا خیال ہے کہ ڈھاکہ کی پبلک ٹرانسپورٹ کا بنیادی ڈھانچہ اس کی آبادی کے پیمانے پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ عوام کی طرف سے گاڑیوں پر حد سے زیادہ انحصار اور اب تک منظم پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے اور زیادہ بڑھ چکا تھا۔ مگر اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اب میٹرو ریل سروس کے شروع ہونے کے بعد ان مسائل میں کافی کمی آئے گی۔ لائن 6 کے نام سے جانی جانے والی اس پہلی میٹرو لائن کو مکمل ہونے میں تقریباً چھ سال لگے۔ 20 کلومیٹر سے زیادہ طویل یہ لائن 16 اسٹیشنوں پر کام کرے گی۔

سروس کا افتتاح کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا: "یہ میٹرو ریل ہمارے لیے ایک اور فخر کی بات ہے۔" شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ “ہم نے ڈھاکہ سے ٹریفک جام ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ہم چھے لائنوں والی میٹرو ریل سروس کے ساتھ ہم ایسا کر سکیں گے۔" وزیراعظم نے یہ اعلان بھی کیا کہ ہر ٹرین میں ایک بوگی خواتین کے لیے مختص کی جائے گی۔

اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ نئی شروع ہونے والی میٹرو سروس ہر ایک گھنٹے میں تقریباً 60,000 افراد کو سفر کی سہولت میسر کرے گی۔ ڈھاکہ میں ٹریفک کے ہجوم کو مزید کم کرنے کے لیے اگرگاؤں سے موتی جھیل تک میٹرو سروس کا دوسرا حصہ اگلے سال دسمبر میں شروع کیا جائے گا۔ موتی جھیل سے کملا پور ریلوے اسٹیشن تک تیسرا سیکشن توسیع کے اگلے مرحلے میں شروع کیا جائے گا۔

اس خبر کو پڑھنے کے بعد کچھ تجسس ہوا کہ یہ جانا جائے کہ کیسے اتنی خاموشی سے یہ پروجیکٹ شروع ہوا اور کب ختم ہوا؟ کیا کسی نے اس پر احتجاج نہیں کیا؟ کوئی عدالت سے اسٹے آرڈر نہیں لایا؟ کسی بنگالی سیاسی پارٹی یا میڈیا نے اس پر ٹاک شوز کر کے تنقید نہیں کی؟ عوام نے کوئی شور نہیں مچایا؟ اس پراجیکٹ میں کسی نے احتجاج کر کے رخنہ اندازی نہیں کی جس سے اس پراجیکٹ کی لاگت بڑھ جاتی؟ بہت کوشش کے باوجود ایسی کوئی خبر نا مل سکی تو بہت عجیب سا لگا۔

مزید حیرانی تب ہوئی جب ایک خاتون شہری کی اس میٹرو ریل سروس کے بارے میں ان کی رائے پڑھی اور وہ یہ تھی کہ “بنگلہ دیش یونیورسٹی کی انڈر گریجویٹ طالبہ شوانہ چودھری ہر روز بسوں، رکشوں اور کاروں میں گھنٹوں گزارتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ "اپنے روزانہ کے سفر میں شدت سے تبدیلی کی منتظر ہیں۔ میری زندگی کا بہت سا حصہ تکنیکی طور پر ٹریفک میں ضائع ہو جاتا ہے۔

بنگلہ دیشیوں کے لیے یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہماری زندگیوں کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق نئی میٹرو لائن ڈھاکہ کے رہائشیوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے امید کی کرن ہے۔ انہوں نے کہا کہ سنگاپور، جاپان اور فرانس میں دنیا کے عظیم شہروں میں عوامی نقل و حمل کا بہترین نظام موجود ہے اور مجھے امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ڈھاکہ اپنی سفری تبدیلی دیکھے گا، کم کاریں ماحول اور سڑکوں دونوں کو آلودگی اور ٹوٹ پھوٹ سے بچائیں کی اور میٹرو کے ساتھ ہم لوگوں کے سفری معیار میں بہتری آئے گی”۔

اب آتے ہیں ہمارے پاکستان کے پنجاب سے شروع ہونے والے میٹرو بس اور لاہور میٹرو ریل سروس کے منصوبے کی طرف۔تو جناب 2016 میں قائدِ اعظم یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹیٹکس کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں دوسرے اضلاع کی بنسبت خصوصاً ضلع لاہور میں روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹ کی شرح سب سے زیادہ پائی گئی۔ جس کی وجہ بہت سے مختلف عوامل تھے۔

ضلع لاہور کی آبادی میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے اور گاڑیوں کی تعداد میں بھی اسی طرح اضافہ ہوتا رہا ہے جس کے باعث شدید ٹریفک جام اور مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ آبادی روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹ میں اہم کردار ادا کرتی ہے،مزید مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ تیسری دنیا کے ممالک کے انتہائی گنجان آبادی والے اضلاع میں کم کثافت والے اضلاع کے مقابلے میں زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ لاہور جو پنجاب کا انتہائی گنجان آباد ضلع ہے جس کے ایک چھوٹے سے علاقے میں روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹ کی شرح سب سے زیادہ پائی گئی۔ ان سب باتوں کو جاننے کے بعد جب پنجاب میں میٹرو بس اور لاہور میں میٹرو ریل پراجیکٹ پر سیاسی جماعتوں ، میڈیا اور عوام کی طرف سے ماضی میں ہونے والی بے جا تنقیدوں اور اسٹے آرڈرز کے ذریعے ان پراجیکٹس میں رخنہ اندازیوں کے بارے میں سوچا تو یہ اندازہ ہوا کہ ان تمام عوامل نے ان منصوبوں کی تاخیر میں جو کردار ادا کیا تھا اور ان منصوبوں پر بڑھنے والی لاگت کا نقصان جو قومی خزانے کو برداشت کرنا پڑا اس کا بوجھ تو غریب عوام کی جیب سے ہی جانا ہے۔

سب اپنی سیاست کر کے ایک طرف ہو گئے نقصان کس کا ہوا؟ میٹرو بس کو بھی جنگلا بس کا نام دے کر اس کی خوب تضحیک کی گئی۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے ترکی کے شہر استنبول جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ بالکل اسی طرح جنگلا لگا کر سڑک کے بیچوں بیچ میٹرو بس کے لئیے ایک علیحدہ روٹ بنایا گیا تھا تاکہ بسیں بغیر کسی تعطل کا شکار ہوئے کم وقت میں اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔

میں نے ایک ترک سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ بھی اس کو جنگلا بس کہتے ہیں تو وہ نہائیت حیرانی سے میرا منہ دیکھنے لگا اور بولا کہ میں آج تک اس میٹرو بس سروس کے بارے میں ایسی اصطلاح نہیں سنی، یہ عوام کی سہولت کا ایک بے مثال منصوبہ ہے اور ہم تو اسکی بہت قدر کرتے ہیں اور اسے صرف میٹرو بس سروس ہی کہتے ہیں۔ بنگلا دیش اور ترکی کی عوام کے ان سہولتوں کے بارے میں احساسات جان کر ایک بات کا تو مجھے بخوبی اندازہ ہوا کہ ہم میں اور ان میں ایک واضح فرق ہے اور وہ یہ کہ وہ زہنی طور پر ترقی پسند ہیں اور ہم زہنی طور پر پسماندگی پسند ہیں جس کی وجہ صرف اور صرف تعلیم کی کمی ہے۔

ہم کسی بھی بات کی تصدیق کئیے بغیر خود کو فوراً سقراط و ارسطو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں مگر حقائق جاننے کی کبھی بھی کوشش نہیں کرتے۔ آسان الفاظ میں ہم کتے کی جانب بھاگنا شروع کر دیتے ہیں مگر ہاتھ لگا کر کان کی موجودگی محسوس کرنا گوارا نہیں کرتے۔ آخر ایسا کب تک چلے گا؟ کب تک ہم شر پسند عناصر کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہیں گے؟ بحیثیتِ قوم ہمیں ہوش کب آئے گی؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :