دوست کا لاشہ اور جگنو

Dost Ka Lasha Aur Jugnu

Mian Muhammad Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 11 دسمبر 2022

Dost Ka Lasha Aur Jugnu
 برگدکے درخت کو گرتے دیکھ رہا تھامگر اسے بچا نہیں پایا . بچپن کی بہت ساری یادیں جڑی تھیں اس سے. اسی برگدکے درخت کی شاخوں پر کبھی جھولے ڈالا کرتے تھے ہم. شہر پھیلتا گیا اور ہم لاہور سے عشق کرنے والے سکڑتے چلے گئے‘ کئی دہائیاں بیت گئیں . نہ وہ گھر رہا‘نہ گلیاں ‘نہ محلے. دوسرے شہروں سے لاہور پر یلغار کرنے والے”حملہ آوروں“نے اس شہرکا حسن چھین لیا .

آج ہم اقلیت میں ہیں اور ”درانداز“اکثریت میں‘ہم اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوکررہ گئے ہیں. گرمیوں کی راتوں کو منڈیرپر پاﺅں لٹکا کر ”گاڈیوں“کا انتظار‘بیلوں کے گلوں لٹکتی ٹلیوں کی جھنکار‘لہراتی‘بل کھاتی لالٹینیں‘بیلوں کی ٹاپیں اور ”گاڈیوں“کے ڈھولے‘ماہیے. کچھ بھی تو نہیں بھولا.

(جاری ہے)

برگدکا کٹا ہوا تنا جیسے مجھے گھوررہا تھا ان اذیت ناک لمحوں کو برادشت کرنے کی سکت کہاں تھی .

بھیگی آنکھوں سے اپنے بچن کے ساتھی کی کٹی ”لاش “کے ٹکڑے ہوتے دیکھنے سے زیادہ اذیت ناک اور کیا ہوسکتا ہے؟. اپنی جان پہچان والا ایک وہی تو رہ گیا تھا‘باقی سب زمانے کی گرد میں دھندلا چکے‘اسی کی دہائی میں ملتان روڈ یک رویہ سٹرک ہوا کرتی تھی جس کے کنارے کیکر اور ٹاہلی کے درختوں سے بھرے ہوتے تھے ابھی ”ولایتی“درخت لگنا شروع نہیں ہوئے تھے.

گھنٹوں میں کوئی ٹرک یا لاری گزرا کرتی ‘گاڑیاں کہاں ہوتی تھیں‘جون میں کریم بلاک قبرستان کے مزار پر میلہ لگتا تو ہمارے گھر کی چھت سے گیس لیمپ کی روشنیاں نظرآیا کرتیں . سکول سے آکرچارپائی اٹھاتے اور ملتان روڈ کے کنارے درختوں کے نیچے ڈال کر گاڑیاں گن کردل بہلاتے کہ ہمارے زمانے میں ”ٹیکنالوجی“نہیں ہوا کرتی تھی نہ ہی ویڈیو گیمز‘درختوں پر گلہریوں کی اٹھکیلیاں ‘راتوں کو جگمگاتے جگنو‘جھینگروں اورمینڈکوں کی ٹریں ‘ٹریں کچھ بھی تو نہیں بچا.

جب درخت کٹ گئے ‘ہرطرف کنکریٹ کے جنگل بنتے چلے گئے تو ہمارے یہ دوست بھی نجانے کہاں چلے گئے. ترقی سب کچھ نگل گئی ‘ہم رہ گئے ‘ہمارا زمانہ گزرگیا‘شاید ہمیں نوحہ گری کے لیے چھوڑگیا. انیس سو نوے کی دہائی کے آغازتک ”ترقی“نے ایسی تباہی نہیں مچائی تھی کالج کے دنوں میں چپکے سے یار لوگوں کے ساتھ فلم دیکھنے چلے جاتے ‘پلازہ سینما (جو ترقی کی نذرہوچکا ہے)سے آخری شو دیکھ کر نکلتے تو مال روڈ پر اسمبلی ہال چوک سے جی پی او تک پیدل مارچ کرنا پڑتا.

کس قدر پرسکون ہوا کرتی تھی مال روڈخصوصا سردیوں کی راتوں میں کئی بار ہم جی پی او چوک تک پہنچ جاتے مگر کوئی گاڑی نہ گزرتی. گنتی کی گاڑیاں ہواکرتی تھی لاہور میں آج کی طرح ایک گھر میں چار‘چار گاڑیاں نظرنہیں آتی تھیں. نوے کی دہائی کے آخرمیں صحافت کے خارزار میں قدم رکھا تو لاہور پریس کلب میں کل دوگاڑیاں ہوا کرتی تھیں ایک ثقلین امام صاحب کی دوسری ہما شاہ جی کی.

اس زمانے میں موٹرسائیکل کو ”گاڑی“کہا جاتا تھا جس کے پاس موٹرسائیکل ہوتی وہ امیر تصور کیا جاتا. آج شہر میں ہرسو گاڑیوں کا سمندر نظرآتا ہے‘موٹرسائیکل کی وہ آتما رولئی کہ اللہ کی امان. آخری بار امریکا گیا تو ایک سسرالی رشتہ دار کے فام پر دوراتیں گزاریں ‘رات بھر کرسی ڈال کر باہر بیٹھا جگنوﺅں کو تکتا رہتا‘جگمگ‘جگمگ کرتے جگنوں کبھی ہمارے ہاں بھی کثرت سے پائے جاتے تھے.

آج انسان بھی مشکل سے پائے جاتے ہیں اس لیے جگنوں ہم سے روٹھ کر چلے گئے. گلہری دیکھنا ہوتو چڑیا گھر یا لاہور کے دوتین بڑے پارکوں میں جانا پڑے گا. میرے برگد کے دوست کی”لاش “ کاایندھن بن کے راکھ ہوا میں اڑچکی یا کسی بڑے صاحب کے گھر کا فرنیچربنی ہماری طرح پرانی یادوں کو کریدتی اور آہیں بھرتی ہوگی. باغوں کا شہر ”ترقی“کے نام پر اجاڑدیا گیا یار لوگ تالیاں پیٹتے اور تعریفیں کرتے نہیں تھکتے.

لاہور کے عشق میں مبتلا عاشقوں کی گریہ زاری پر کسی نے کان دھرے نہ ایسا ہوتا نظرآتا ہے. آخری نشانی ”راوی“کے کناروں پر شہر بسانے کی خبرپڑھی تو حکومتوں کو کئی خطوط لکھے کے خدارا اسے معاف کردیں ‘نیا شہر کہیں دور جاکر بسا لیا جائے مگر کسی کے کان پر جوں تک رینگتی نظرنہیں آرہی. راوی کنارے نیشنل پارک ختم کیا گیا ہزاروں قدیمی درخت ”ترقی“کی نذرہوگئے‘راوی کے ”بیلوں“کا آج نشان تک باقی نہیں رہا ہر طرف موئی”ترقی“کا راج ہے.

امریکی ریاست ٹیکساس ریاستی دارلخلافہ ”آسٹن“شہر کے پرانے شہر میں گاڑی لے کرجانے پر بھی پابندی ہے ‘حکومت پرانے شہر کو اس اصل شکل میں بحال رکھنے کے لیے ہر سال کروڑوں ڈالرخرچ کرتی ہے. ہم نے تانگے کو بہتربنانے کی بجائے اسے سرے سے ہی ختم کردیا متبادل کیا دیا”چنگ چی“بلے او ہمارے پالیسی سازوں تمہاری عقل پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں.

لطیفہ نہیں تو کیا ہے کہ پنجاب ”ڈویلپمنٹ اینڈپلاننگ“کے محکمے نے سیکرٹریٹ کے سامنے اپنی بلڈنگ تعمیر کی ‘بلڈنگ مکمل ہونے کے بعد پتہ چلا کہ پارکنگ کی جگہ تو رکھنا ہی بھول گئے. چند سال پہلے فیروزپورروڈ پر کلمہ چوک فلائی کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پتہ چلا کہ گلبرگ سے برکت مارکیٹ کی طرف جانے سٹرک کے عین بیچ دو پلربن گئے ہیں‘پہلے ان پلرزکی تعمیرپر کروڑوں خرچ ہوئے پھر کروڑوں خرچ کرکے انہیں ہٹایا گیا.

جب یہ حال ہوگا پلاننگ کرنے والوں کا تو باقیوں کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے‘ایک سیاسی خاندان کو کچھ لوگ لاہور کا ”مسیحا“جبکہ لاہور سے عشق رکھنے والے اسے باغوں کے شہر کا دشمن قراردیتے ہیں . میگا پراجیکٹس کیوں بنائے جاتے ہیں ؟اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی ‘ابھی صرف اسی پر اکتفا کریں کہ جتنا بڑا پراجیکٹ اتنے بڑے کک بیکس.

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :